معاشی سرگرمیوں میں سست روی
اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی کا رجحان ہے
لاہور:
ملک میں جاری سیاسی بحران کے باعث ملکی معیشت سست روی کا شکار ہے' پاناما پیپرز کے افشا سے لے کر اب تک کے ملکی منظرنامے نے معاشی سرگرمیوں کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے' اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی کا رجحان ہے' ادھر کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے' ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اہل ثروت طبقہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرا رہا ہے۔ڈالر جو ایک دو روز قبل 106.45روپے پر کھلی مارکیٹ میں دستیاب تھا، گزشتہ روز 108روپے پر بھی فروخت ہوا ۔ ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجودہ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت میں کمی کی خبر بھی ہے۔
بہرحال یہ معمول کی بات ہے ، اسٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت میں کمی غیرملکی قرضوں اور دیگر آفیشل ادائیگیوں کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ڈالر کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو اس کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ بہرحال معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ عارضی اور افواہوں کا نتیجہ ہے ۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا بوجھ درآمد کنندگان پر بھی پڑے گا اور انھیں اپنی درآمدات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ نئی بات نہیں' ایسا سارا سال چلتا رہتا ہے۔ لیکن جب ملک میں سیاسی محاذ آرائی بڑھتی ہے تو ان حالات میں مختلف قسم کی افواہیں بڑھتی ہیں' یوں سٹے بازوں کی بن آتی ہے اور غیر ملکی کرنسی کی شرح تبادلہ بڑھ جاتی ہے' اسٹاک مارکیٹ میں طاقتور لابیاں حصص کی قیمت گرا دیتی ہیں۔
ان تبدیلیوں کا اثر دیگر کاروباری سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔ یوں معیشت جمود کا شکار ہوجاتی اور ملک میں افراتفری کا ماحول نظر آنے لگتا ہے۔ حکومت کے مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کرنسی کی قیمت میں اضافے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مقتدر اسٹیک ہولڈرز کو بھی چاہیے کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں اور معیشت میں استحکام آئے۔ملک میں پہلے ہی بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ زرعی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔زرعی مزدور شہروں کی طرف نقل مکانی کررہا ہے، ایسے حالات میں معیشت کے اربن سیکٹر میں سست روی یا بے چینی معیشت کو مزید سست کرسکتی ہے۔
ملک میں جاری سیاسی بحران کے باعث ملکی معیشت سست روی کا شکار ہے' پاناما پیپرز کے افشا سے لے کر اب تک کے ملکی منظرنامے نے معاشی سرگرمیوں کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے' اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی کا رجحان ہے' ادھر کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے' ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اہل ثروت طبقہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرا رہا ہے۔ڈالر جو ایک دو روز قبل 106.45روپے پر کھلی مارکیٹ میں دستیاب تھا، گزشتہ روز 108روپے پر بھی فروخت ہوا ۔ ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجودہ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت میں کمی کی خبر بھی ہے۔
بہرحال یہ معمول کی بات ہے ، اسٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت میں کمی غیرملکی قرضوں اور دیگر آفیشل ادائیگیوں کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ڈالر کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو اس کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ بہرحال معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ عارضی اور افواہوں کا نتیجہ ہے ۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا بوجھ درآمد کنندگان پر بھی پڑے گا اور انھیں اپنی درآمدات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ نئی بات نہیں' ایسا سارا سال چلتا رہتا ہے۔ لیکن جب ملک میں سیاسی محاذ آرائی بڑھتی ہے تو ان حالات میں مختلف قسم کی افواہیں بڑھتی ہیں' یوں سٹے بازوں کی بن آتی ہے اور غیر ملکی کرنسی کی شرح تبادلہ بڑھ جاتی ہے' اسٹاک مارکیٹ میں طاقتور لابیاں حصص کی قیمت گرا دیتی ہیں۔
ان تبدیلیوں کا اثر دیگر کاروباری سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔ یوں معیشت جمود کا شکار ہوجاتی اور ملک میں افراتفری کا ماحول نظر آنے لگتا ہے۔ حکومت کے مالیاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کرنسی کی قیمت میں اضافے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مقتدر اسٹیک ہولڈرز کو بھی چاہیے کہ وہ موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں اور معیشت میں استحکام آئے۔ملک میں پہلے ہی بے روزگاری بہت زیادہ ہے۔ زرعی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔زرعی مزدور شہروں کی طرف نقل مکانی کررہا ہے، ایسے حالات میں معیشت کے اربن سیکٹر میں سست روی یا بے چینی معیشت کو مزید سست کرسکتی ہے۔