تیسری جنگ عظیم یا فیڈریشن
یوں لگتا ہے جیسے کہ ہم اس وقت تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا جس آرڈر میں آئی ماسوائے چھوٹی بڑی تبدیلیوں کے آج بھی دنیا کا نقشہ وہی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی اسی طرح دنیا کے نقشے کی ترتیب ہوئی تھی ۔ عرب ایک قوم ہے۔ ان کی زبان، تاریخ اور ثقافت ایک ہے مگر درجنوں ریاستوں کے درمیان بٹی ہوئی ہے ، ایسی کئی ریاستیں ہیں جو فطری نہیں۔
فطری ریاست وہ ہوتی ہے جس کی تاریخ، زبان اور ثقافت یکساں ہو اور ساتھ ہی مختلف طبقے کی اقلیتوں کو برابرکے حقوق فراہم کرکے ریاست آگے بڑھے ۔ بہت سی ریاستیں ایسی بھی ہیں جو اکائیوں پر بنی ہیں یعنی تاریخی اعتبار سے مماثلت تو رکھتی ہے لیکن زبان اور ثقافت کے حوالے سے مختلف ہیں ۔ ایسی طرز پر بنی ریاستوں کو وفاقی ریاستیں کہا جاتا ہے۔
جیسے کہ پاکستان اور اس حقیقت کو پاکستان کا آئین بھی تسلیم کرتا ہے۔ مگر ہم اس حقیقت کو 1958 اور 1962 کے آئین میں نہیں مانتے تھے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو چند نئے نقشے بنے اس میں پاکستان ایک نئے وجود کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جو نقشے 17 اگست 1947 میں ریڈ کلف لائن کے نام سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بنے وہ اس وقت نو کروڑ ہندوستانی آبادی کا بٹوارہ تھا جس کا کل رقبہ چار لاکھ پچاس ہزار کلومیٹر پر مبنی تھا اور پھر اس بٹوارے میں ایک اور بٹوارہ ہوا وہ ہے بنگلادیش اورکچھ بٹوارے غیر فطری انداز میں روک دیے گئے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟
ریاستوں کے درمیان تضادات ورثے میں چلے جاتے ہیں ۔ ریاستیں کتنی ہی جمہوری ہوں لیکن گھومتی وہ ایک بیانیے کے ارد گرد ہیں۔ بیانیہ عام لوگوں کی خواہشوں کا عکاس نہیں ہوتا۔ یہ بیانیہ شرفا کے مفادات کا ترجمان ہوتا ہے۔ خود ریاست کیا ہے؟ کال مارکس ریاست کو شرفا کے مفادات کا گٹھ جوڑ سمجھتے ہیں ۔ اتنی بساط ہی نہیں اس دنیا کی شاید کہ جتنی ریاستوں کا وجود اس میں سمایا ہوا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یا شاید پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے بڑی ریاستیں چھوٹی ریاستوں پر غالب رہی ہیں ۔ ان ادوار میں بھی کلاسیکل وفاقی نوعیت کے معاہدے ہوا کرتے تھے، آج جس کو ہم Europeon Union کہتے ہیں، یہ قدیم رومن ایمپائر کی ماڈرن شکل ہے۔ ملوکیت ، خلافت یا قسطنطنیہ کیا تھا؟ یہ بھی ایک وفاقی نوعیت کا معاہدہ تھا جس میں مذہب ایک تھا اور اکائیاں بہت خود مختار ۔
آپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے تو واقف ہیں یہ اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار تھے، وہ کرد تھے۔ وہ کردستان جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ، آج چار ملکوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس طرح ہوئی تھی سرحدوں کی تقسیم دوسری جنگ عظیم کے بعد جس نے کردوں کے چار ٹکڑے کردیے ۔ ایران، ترکی، عراق اور شام ۔ کرد قوم اپنی روح ، تاریخ، تہذیب و تمدن میں ایک ہے مگر ان کے درمیان دیواریں ہیں جو ریاست کی سرحدیں ہیں۔ ایسے کئی بٹوارے ہیں تضادات سے بھرے، نا انصافی کا عکس کہ جیسے ظلمت کدے میں کوئی شب غم۔ ایک ایسی چلمن جو بجھتی بھی نہیں اور تیز لو سے جلتی بھی نہیں کہ سنگم ہو۔ یہی ماجرہ کشمیر کا ہے۔
پہلی جنگ عظیم یا دوسری کیا تھی؟ کیوں تھی؟ بٹواروں اور سرحدوں پر محاذ آرائی ، جب حل نہ ہوئی تو یہ محاذ آرائی تضادات کی شکل اختیارکرتی گئی ۔ کروڑوں لوگوں کی جان کا زیاں، لاکھوں ماؤں کی گود اجڑی ، بچے اور بوڑھے مارے گئے ۔ اس درد کے پس منظر جو ادب تخلیق ہوا اس نے بین الاقوامی تحریک کو جنم دیا۔ فرد نے کہا کہ میں دنیا کا شہری ہوں اور میرے اس شہری ہونے میں میری ریاست خود ایک اختلاف ہے۔ میں برابر کا شہری ہوں ! قانون مجھے برابری کی آنکھ سے دیکھے ۔
آج جب عراق کے کردش ریجن نے ریفرنڈم کے ذریعے آزادی کا مطالبہ کیا تو اس خطے میں ایک بہت بڑے ٹکراؤ نے جنم لیا ۔ ترکی کے اردگان نے کہا کہ عراق کے کرد اگر آزاد ہوئے تو یہ خود ایک دعوت جنگ ہوگی کیونکہ اگر عراق کے کرد آزاد ہونگے تو کل ترکی کے کرد بھی آزادی کی تحریک میں کامیاب ہونگے اور پھر ایران اور شام کے کرد بھی آزادی کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ تمام کردش علاقے آزاد ہو جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ شاید ان چاروں کرد علاقوں کو ملا کر ایک نئی وفاقی ریاست دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوگی۔
وفاقی اس لیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سرحدی دوریاں ان کردوں کے درمیان رہیں اس فرق کو کم کرنے کے لیے اس ریاست کا وجود وفاقی رہے گا۔ ماضی قریب میں دوسری جنگ عظیم کا ایک اور وجود میں لایا ہوا نقشہ بھی تبدیل ہوا تھا وہ ہے مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان بٹوارہ یہاں تک کہ برلن بھی بٹ گیا ۔
مشرقی اور مغربی جرمنی ، دو بھائیوں کے درمیان ایک سرحدی لکیر ، جس میں ایک طرف بیانیہ کچھ اور لکیر کی دوسری طرف بیانیہ کچھ اور ۔ ایک جرمنی سوویت یونین کے بلاک میں تھا اور دوسرا امریکا کے بلاک میں ۔ مشرقی جرمنی کے لوگ ، مغربی جرمنی کی ترقی سے اس طرح متاثر تھے جس طرح نارتھ کوریا کے لوگ ساؤتھ کوریا کی ترقی سے۔
جرمنی کا الحاق اس لیے ممکن ہوا کہ وہ خطہ پر امن تھا اور Chancellor Helmut Joseph Michael kohl جیسے لوگ اس کی قیادت کر رہے تھے ، اور مشرقی جرمنی کا گاڈ فادر ، سوویت یونین اپنے اندر ٹوٹ رہا تھا، مگر یہ حالات کردوں کے معاملے میں نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ خطہ بہت Volatile ہے۔
کرد قوم کی آزادی پورے خطے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے جس طرح کشمیر کی آزادی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ کردوں کی آزادی حق تو ہے لیکن حقیقت نہیں۔ دنیا میں ایسی کئی آزادیاں اور نقشوں میں تبدیلیاں سرد خانوں کی نذر ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایسے لیڈر بھی نہیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دور میں تھے یا سرد جنگ کے زمانے میں تھے ۔
اقوام متحدہ اور ایسے کئی بین الاقوامی معاہدے اور قوانین اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ ہم اس وقت تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہیں۔ اگر دنیا خدانخواستہ تیسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی تو یہ جنگ پہلی دو عظیم جنگوں سے سو گنا زیادہ بھیانک ہوگی۔ اس جنگ سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پوری دنیا وفاقی طرز پر یورپی یونین کی طرح فیڈریشن بن جائے۔ ہم اپنی ریاستی خودمختاریاں قدراً تحلیل کریں تاکہ قوموں کے درمیان فاصلے کم ہوں اور دنیا ایک بھیانک جنگ سے بچ سکے۔
فطری ریاست وہ ہوتی ہے جس کی تاریخ، زبان اور ثقافت یکساں ہو اور ساتھ ہی مختلف طبقے کی اقلیتوں کو برابرکے حقوق فراہم کرکے ریاست آگے بڑھے ۔ بہت سی ریاستیں ایسی بھی ہیں جو اکائیوں پر بنی ہیں یعنی تاریخی اعتبار سے مماثلت تو رکھتی ہے لیکن زبان اور ثقافت کے حوالے سے مختلف ہیں ۔ ایسی طرز پر بنی ریاستوں کو وفاقی ریاستیں کہا جاتا ہے۔
جیسے کہ پاکستان اور اس حقیقت کو پاکستان کا آئین بھی تسلیم کرتا ہے۔ مگر ہم اس حقیقت کو 1958 اور 1962 کے آئین میں نہیں مانتے تھے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو چند نئے نقشے بنے اس میں پاکستان ایک نئے وجود کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جو نقشے 17 اگست 1947 میں ریڈ کلف لائن کے نام سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بنے وہ اس وقت نو کروڑ ہندوستانی آبادی کا بٹوارہ تھا جس کا کل رقبہ چار لاکھ پچاس ہزار کلومیٹر پر مبنی تھا اور پھر اس بٹوارے میں ایک اور بٹوارہ ہوا وہ ہے بنگلادیش اورکچھ بٹوارے غیر فطری انداز میں روک دیے گئے۔ پھر کیا ہوتا ہے؟
ریاستوں کے درمیان تضادات ورثے میں چلے جاتے ہیں ۔ ریاستیں کتنی ہی جمہوری ہوں لیکن گھومتی وہ ایک بیانیے کے ارد گرد ہیں۔ بیانیہ عام لوگوں کی خواہشوں کا عکاس نہیں ہوتا۔ یہ بیانیہ شرفا کے مفادات کا ترجمان ہوتا ہے۔ خود ریاست کیا ہے؟ کال مارکس ریاست کو شرفا کے مفادات کا گٹھ جوڑ سمجھتے ہیں ۔ اتنی بساط ہی نہیں اس دنیا کی شاید کہ جتنی ریاستوں کا وجود اس میں سمایا ہوا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یا شاید پہلے یا شاید اس سے بھی پہلے بڑی ریاستیں چھوٹی ریاستوں پر غالب رہی ہیں ۔ ان ادوار میں بھی کلاسیکل وفاقی نوعیت کے معاہدے ہوا کرتے تھے، آج جس کو ہم Europeon Union کہتے ہیں، یہ قدیم رومن ایمپائر کی ماڈرن شکل ہے۔ ملوکیت ، خلافت یا قسطنطنیہ کیا تھا؟ یہ بھی ایک وفاقی نوعیت کا معاہدہ تھا جس میں مذہب ایک تھا اور اکائیاں بہت خود مختار ۔
آپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے تو واقف ہیں یہ اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار تھے، وہ کرد تھے۔ وہ کردستان جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ، آج چار ملکوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس طرح ہوئی تھی سرحدوں کی تقسیم دوسری جنگ عظیم کے بعد جس نے کردوں کے چار ٹکڑے کردیے ۔ ایران، ترکی، عراق اور شام ۔ کرد قوم اپنی روح ، تاریخ، تہذیب و تمدن میں ایک ہے مگر ان کے درمیان دیواریں ہیں جو ریاست کی سرحدیں ہیں۔ ایسے کئی بٹوارے ہیں تضادات سے بھرے، نا انصافی کا عکس کہ جیسے ظلمت کدے میں کوئی شب غم۔ ایک ایسی چلمن جو بجھتی بھی نہیں اور تیز لو سے جلتی بھی نہیں کہ سنگم ہو۔ یہی ماجرہ کشمیر کا ہے۔
پہلی جنگ عظیم یا دوسری کیا تھی؟ کیوں تھی؟ بٹواروں اور سرحدوں پر محاذ آرائی ، جب حل نہ ہوئی تو یہ محاذ آرائی تضادات کی شکل اختیارکرتی گئی ۔ کروڑوں لوگوں کی جان کا زیاں، لاکھوں ماؤں کی گود اجڑی ، بچے اور بوڑھے مارے گئے ۔ اس درد کے پس منظر جو ادب تخلیق ہوا اس نے بین الاقوامی تحریک کو جنم دیا۔ فرد نے کہا کہ میں دنیا کا شہری ہوں اور میرے اس شہری ہونے میں میری ریاست خود ایک اختلاف ہے۔ میں برابر کا شہری ہوں ! قانون مجھے برابری کی آنکھ سے دیکھے ۔
آج جب عراق کے کردش ریجن نے ریفرنڈم کے ذریعے آزادی کا مطالبہ کیا تو اس خطے میں ایک بہت بڑے ٹکراؤ نے جنم لیا ۔ ترکی کے اردگان نے کہا کہ عراق کے کرد اگر آزاد ہوئے تو یہ خود ایک دعوت جنگ ہوگی کیونکہ اگر عراق کے کرد آزاد ہونگے تو کل ترکی کے کرد بھی آزادی کی تحریک میں کامیاب ہونگے اور پھر ایران اور شام کے کرد بھی آزادی کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ تمام کردش علاقے آزاد ہو جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ شاید ان چاروں کرد علاقوں کو ملا کر ایک نئی وفاقی ریاست دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوگی۔
وفاقی اس لیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سرحدی دوریاں ان کردوں کے درمیان رہیں اس فرق کو کم کرنے کے لیے اس ریاست کا وجود وفاقی رہے گا۔ ماضی قریب میں دوسری جنگ عظیم کا ایک اور وجود میں لایا ہوا نقشہ بھی تبدیل ہوا تھا وہ ہے مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان بٹوارہ یہاں تک کہ برلن بھی بٹ گیا ۔
مشرقی اور مغربی جرمنی ، دو بھائیوں کے درمیان ایک سرحدی لکیر ، جس میں ایک طرف بیانیہ کچھ اور لکیر کی دوسری طرف بیانیہ کچھ اور ۔ ایک جرمنی سوویت یونین کے بلاک میں تھا اور دوسرا امریکا کے بلاک میں ۔ مشرقی جرمنی کے لوگ ، مغربی جرمنی کی ترقی سے اس طرح متاثر تھے جس طرح نارتھ کوریا کے لوگ ساؤتھ کوریا کی ترقی سے۔
جرمنی کا الحاق اس لیے ممکن ہوا کہ وہ خطہ پر امن تھا اور Chancellor Helmut Joseph Michael kohl جیسے لوگ اس کی قیادت کر رہے تھے ، اور مشرقی جرمنی کا گاڈ فادر ، سوویت یونین اپنے اندر ٹوٹ رہا تھا، مگر یہ حالات کردوں کے معاملے میں نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ خطہ بہت Volatile ہے۔
کرد قوم کی آزادی پورے خطے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے جس طرح کشمیر کی آزادی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ کردوں کی آزادی حق تو ہے لیکن حقیقت نہیں۔ دنیا میں ایسی کئی آزادیاں اور نقشوں میں تبدیلیاں سرد خانوں کی نذر ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایسے لیڈر بھی نہیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دور میں تھے یا سرد جنگ کے زمانے میں تھے ۔
اقوام متحدہ اور ایسے کئی بین الاقوامی معاہدے اور قوانین اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کہ ہم اس وقت تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہیں۔ اگر دنیا خدانخواستہ تیسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی تو یہ جنگ پہلی دو عظیم جنگوں سے سو گنا زیادہ بھیانک ہوگی۔ اس جنگ سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پوری دنیا وفاقی طرز پر یورپی یونین کی طرح فیڈریشن بن جائے۔ ہم اپنی ریاستی خودمختاریاں قدراً تحلیل کریں تاکہ قوموں کے درمیان فاصلے کم ہوں اور دنیا ایک بھیانک جنگ سے بچ سکے۔