عورتوں کے تولیدی حقوق
مارگریٹ کا موقف تھا کہ بچے کی پیدائش سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار عورت کو ملنا چاہیے۔
عورتوں کے حقوق کی جنگ تولیدی حقوق کے حصول کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ۔عورتوں کے لیے تولیدی حقوق کے حصول کی لڑائی کا آغاز امریکا کی مارگریٹ سینجر نے کیا تھا۔لائف میگزین نے انھیں بیسویں صدی کی سو اہم ترین شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا۔مارگریٹ کا موقف تھا کہ بچے کی پیدائش سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار عورت کو ملنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ برتھ کنٹرول کے ذریعے بچوں اور عورتوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور انھیں غربت کے شکنجے سے نکالا جاسکتا ہے۔ مارگریٹ کی جدوجہد کے نتیجے میں جنس، جنسیت اور برتھ کنٹرول کے بارے میں معلومات کی اشاعت ممکن ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ محنت کشوں کے حقوق کے لیے بھی سرگرم رہیں۔ان کا خیال تھا کہ مزدورگھرانوں کو غربت سے نکالنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی ضروری ہے۔
1914ء کے اوائل میں انھوں نے ''باغی عورت'' کے نام سے اپنا ایک اخبار نکالا، اس کے پہلے ایڈیشن کا نعرہ تھا '' نہ دیوتا۔نہ مالک ''اس زمانے میں برتھ کنٹرول کے بارے میں مضامین شایع کرنا قانونی طور پر ممنوع تھا لیکن انھوں نے عہد کر رکھا تھا کہ انھیں اس حوالے سے جو بھی معلومات ملیں گی، وہ ضرور شایع کریں گی۔
وفاقی حکومت نے انھیں اخبار شایع کرنے سے منع کیا لیکن انھوں نے اس وارننگ کی پروا نہیں کی اور ڈاک کے ذریعے لوگوں کو پرچہ بھیجتی رہیں۔ چنانچہ اگست 1914ء میں انھیں گرفتارکر لیاگیا۔ انھیں اپنے دفاع کی تیاری کے لیے چھ ہفتے دیے گئے جو انھوں نے برتھ کنٹرول پر ایک کتابچہ لکھنے میں صرف کر ڈالے۔
ان کا کہنا تھا کہ امیر عورتوں کو تو یہ باتیں پہلے سے پتہ ہوتی ہیں مگر غریب عورتوں کو یہ باتیں بتانا ضروری ہے ورنہ وہ خطرناک طریقے اپنا کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ان کی کتاب کا نام 'خاندانی رکاوٹیں' تھا جو تیرہ مختلف زبانوں میں شایع ہوئی اور اس کی دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اسے برتھ کنٹرول کی ابتدائی تحریک کی بائبل کا درجہ حاصل ہو گیا۔
جب عدالت میں الزامات کا سامنا کرنے کا وقت آیا تو ان کے وکیل نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے جرم کا اعتراف کر لیں۔مارگریٹ کو ڈر تھا کہ ان کے سوشلسٹ اور انارکسٹ دوستوں کی طرح انھیں بھی سخت سزا سنائی جائے گی چنانچہ وہ ملک سے فرار ہو گئیں ۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، ویسے بھی ان کی مصروفیات ان کی عائلی زندگی کو متاثر کر رہی تھیں۔انگلینڈ میں انھوں نے برٹش میوزیم کے پاس ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ان کا گزارا اپنی کتاب سے ملنے والی رائلٹی پر ہوتا تھا۔وہاں وہ دن رات خاندانی منصوبہ بندی کی تاریخ کا مطالعہ کرتی رہیں۔انھوں نے یورپ کے دیگر ممالک کا بھی دورہ کیا اور معلومات اکٹھی کیں ۔ادھر امریکہ میں ان کے شوہر کو ان کی کتاب کسی ضرورت مند (جو دراصل ایجنٹ تھا) کو دینے پر گرفتار کر لیا گیا۔
انھیں ڈیڑھ سو ڈالر جرمانہ یا تیس دن کی قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے جیل جانے کا فیصلہ کیا ۔جس شخص نے ان پر مقدمہ دائر کیا تھا، اس کا نمونیا سے انتقال ہو گیا ۔ شوہر کے جیل جانے سے رائے عامہ مارگریٹ کے حق میں ہموار ہوگئی اور انھوں نے وطن لوٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ عوام ان کے ساتھ تھے لیکن ان کے قریبی ساتھیوں نے الگ سے اپنی ایک تنظیم نیشنل برتھ کنٹرول لیگ بنا کر ان سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں ۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ان کی چار سالہ بیٹی کا نمونیا سے انتقال ہو گیا ۔مارگریٹ یہ صدمہ کبھی نہیں بھلا پائیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے امریکا کا پہلا برتھ کنٹرول کلینک قائم کیا۔دس دن بعد ہی پولیس کو اس کلینک کا پتا چل گیا اور مارگریٹ اور ان کی دو ساتھیوں کوگرفتار کر لیا۔مارگریٹ اور ان کی ساتھیوں کو تیس دن جیل میں گزارنے پڑے۔ادھر وہ جیل میں عورتوں کو معلومات فراہم کر رہی تھیں، ادھر باہر عوام ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
بہر حال اب مارگریٹ اور ان جیسی دیگر خواتین کی کوششوں کے نتیجے میں28ستمبر کو دنیا بھر میں مانعیت حمل کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ایک پروگرام میں شرکت کا اتفاق ہوا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔معلوم ہوا کہ مانع حمل طریقوں کا استعمال کوئی جدید رحجان نہیں بلکہ تین ہزار سال قبل مسیح بھی ایسے طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔1850 قبل مسیح میں مصری رحم بند یا ڈایافرام کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ عربوں میں فیملی پلاننگ یا خاندانی منصوبہ بندی کے لیے عزل کا طریقہ رائج تھا ۔
اس کے برعکس امریکا جیسے ملک میں 1873بعد از مسیح تک برتھ کنٹرول پر قانونی پابندی تھی۔ جیسا اوپر ذکر ہوا ،امریکا میں مارگریٹ سینجر کو خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کا بانی سمجھا جاتا ہے اور ان کا شمار بیسویں صدی کی اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق مارگریٹ کے والد بھی کثیر العیال تھے۔مارگریٹ کو ملا کے ان کے گیارہ بچے تھے اور وہ ان کی ضروریات بمشکل پوری کر پاتے تھے۔ مارگریٹ بڑی ہوئیں تو خاندان کی غربت انھیں پریشان کرنے لگی۔ادھر ان کی والدہ گیارہ بچوں کو جنم دینے اور سات مرتبہ حمل ضایع ہونے کی وجہ سے بیمار رہنے لگیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے مارگریٹ کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے نرسنگ کا امتحان پاس کیا ۔
اس کے ساتھ ہی ان کی شادی ہو گئی جس کے بعد دو ایسے واقعات پیش آئے جو ان کی گورنمنٹ کے خلاف عمر بھر جدوجہد کا سبب بنے۔ایک انگریز ہیولاک ایلیس کی کتاب ''جنس کی نفسیات'' کی اشاعت اور صدر روزویلٹ کا یہ اعلان تھا کہ سفید فام، پروٹسٹنٹ، اینگلو سیکسن عورتوں کا برتھ کنٹرول کے طریقے استعمال کرنا ''نسلی خودکشی'' کے مترادف ہے۔دوسرا واقعہ 1911ء میں ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں آتشزدگی کا واقعہ تھا۔جس میں 146تارکین وطن سلائی کرنے والی خواتین پندرہ منٹ کے اندر جل کر مر گئی تھیں ۔باہر نکلنے والے راستوں پر آجروں نے تالے لگا رکھے تھے تا کہ مزدور خواتین باہر نکل کر سستا نہ سکیں۔
اس واقعے نے مارگریٹ کو محنت کشوں کے حقوق کی سرگرم کارکن بنا دیا، انھوں نے جلسے جلوسوں میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر سوشلسٹ پارٹی کی رکن بن گئیں ۔ تب ہی ان کی ایما گولڈ مین سے دوستی ہوئی جو عورتوں کے اور تولیدی حقوق کے حوالے سے ان کی گرو ثابت ہوئیں اور مارگریٹ مزدور تحریک کے تین بنیادی اصولوں کے لیے کام کرنے لگیں۔
٭مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہے۔
٭ مردوں کے مساوی کام کرنے والی عورتوں کو معاوضہ بھی مردوں کے مساوی ملنا چاہیے۔
٭ ہر شخص ڈیسنٹ معیار زندگی کا حقدار ہے۔
1912ء میں مارگریٹ سینجر نے نیو یارک سٹی کے زیریں مشرقی حصے میں وزیٹنگ نرس کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ان کی مریض خواتین میں بڑی تعداد یہودی اور اطالوی پناہ گزین خواتین کی ہوتی تھی ۔ وہ دیکھتی تھیں کہ ایک وقت میں پچاس عورتیں لائن میں کھڑی ہوتی تھیں ، جو پانچ ڈالر دے کر اسقاط حمل کرانا چاہتی تھیں کیونکہ ان کی برتھ کنٹرول کے طریقوں تک رسائی نہیں تھی۔ جو عورتیں پانچ ڈالر دینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتی تھیں ، وہ اسقاط حمل کے اور بھی خطرناک طریقے استعمال کرتی تھیں اور شدید بیمار پڑ جاتی تھیں۔
مارگریٹ ان بیمار عورتوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ان عورتوں کو دیکھ کر مارگریٹ کو غربت میں گزرا ہوا اپنا بچپن اور ماں کی بیماری یاد آ جاتی تھی ۔ ایسی ہی ایک عورت کی موت نے جس نے اپنے طور پر اسقاط حمل کی کوشش کی تھی، مارگریٹ کو اس موضوع پر کہانیاں اور مضامین لکھنے پر اکسایا ۔ان کے پہلے مضمون کا عنوان تھا ''وہ باتیں جن کا علم ہر لڑکی کو ہونا چاہیے'' انھوں نے لڑکپن سے بلوغت کے سفر کے بارے میں بتایا ۔عورتوں کی جنسی اور تولیدی صحت کے بارے میں مضامین لکھے لیکن 1913ء میں رسالے کے مدیر نے ان کے مضامین کی اشاعت ممنوع قرار دے دی کیونکہ اس کے نزدیک جنسی بیماریوں کا ذکر فحاشی کے زمرے میں آتا تھا۔
بات کا آغاز مانعیت حمل کے دن سے ہوا تھا ، اس لیے یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بنگلہ دیش، ایران اور انڈونیشیا بھی اسلامی ممالک ہیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے عمل میں وہ پاکستان سے بہت آگے ہیں۔ اس ضمن میں بنگلادیش کے مولویوں کے تعاون کو نہ سراہنا زیادتی ہو گی جو مسجدوں سے اعلان کرتے ہیں ''بیبیو! گولی کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے''(حوالہ: اشفاق علی شاہ، ڈائریکٹر، پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ،سندھ) ڈائریکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ بنگلادیش کے مولوی صاحبان بہت طاقتور ہیں ۔
وہ مساجد میں اسکول چلاتے ہیں اور اگر کوئی بچہ اسکول نہ آئے تو گھر جا کے والدین کی پٹائی کر دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں مساجد میں اسکول چلانے کا تجربہ نا کام رہا۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ یعنی خاندانی منصوبہ بندی ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔یوں اقتصادی ترقی کا عمل تیز ہوگا اور حکومت کو بھی تعلیمی، شہری، آب و ہوا میں تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔