سیاحت کی صنعت کا فروغ وقت کی ضرورت

سیاحتی اثاثوں کی تشہیر سے پاکستان سیاحوں کی جنت بن سکتا ہے!


شبینہ فراز October 01, 2017
ہمارے شمالی علاقہ جات انتہائی خوب صورت اور سیاحوں کے حوالے سے پر کشش ہیں۔ فوٹو : فائل

CHAKWAL: سیاحت کا عالمی دن ہر سال کی طرح اس برس بھی 27 ستمبر کو منایا گیا۔ اس سال یہ دن ''پائے دار سیاحت، ترقی کا ایک ذریعہ (آلہ)''Sustainable Tourism - a Tool for Development. کے عنوان سے منایا گیا۔

اقوام متحدہ کے تحت 2017 کا اس سال کا عنوان بھی پائے دار سیاحت (Sustainable Tourism) ہے اور دنیا بھر میں اسی حوالے سرگرمیاں جاری ہیں ۔ سیاحت اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے ترقی اور توسیع پذیر صنعت تصور کی جاتی ہے۔ سیاحت کی عالمی تنظیم World Tourism Organization (WTO) کے مطابق 2016 میں غیرملکی سیاحوں کی تعداد1.2بلین تھی گویا ان افراد نے سیاحت کی غرض سے ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کیا، جب کہ 5 بلین سے زیادہ تعداد مقامی سیاحوں کی تھی یعنی وہ افراد جنہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں ہی سیاحت کی۔

اگر صرف غیر ملکی سیاحوں کا ہی ذکر کریں تو ذرا غور کیجیے، ان ایک ارب سے زیادہ سیاحوں نے زیادہ تر جہازوں میں سفر کیا ہوگا، یہ افراد بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوں گے۔ نہانے، منہ دھونے اور دیگر ضروریات کے لیے دل کھول کر پانی کا استعمال کیا ہوگا۔ روزانہ بیڈشیٹس، کئی تولیے اور دیگر لوازمات غیرضروری طور پر تبدیل کیے جاتے رہے ہوں گے، ان سب آسائشات کے لیے پانی کا جتنا استعمال ہوا، وہ یقیناً قابل غور ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاحت زیادہ تر پانی یا آبی ذخائر کے کنارے کی جاتی ہے ۔ سمندر، دریا، ندی نالے، چشمے اور ان کے اردگرد کے خوب صورت نظارے سیاحوں کا مرکز نظر ہوتے ہیں۔

سیاحوں کی تفریح طبع کے لیے بڑے بڑے گولف کے میدان سرسبز رکھے جاتے ہیں، صرف گولف کھیلنے کے لیے ان میدانوں پر کروڑ ہا لیٹر پانی خرچ کیا جاتا ہے۔ آبی ذخائر کے کنارے آباد چھوٹے ہوٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاؤسز اپنا فضلہ فراخ دلی سے ان ہی آبی ذخائر میں بہادیتے ہیں ۔ کم از کم اپنے ہاں تو یہی رواج ہے ۔ اور دنیا میں بھی بہت کم ملک ایسے ہیں جہاں ہوٹلوں کا فضلہ ٹریٹ کرکے آبی ذخائر میں ڈالا جاتا ہو ۔

اس دن کے حوالے سے اگر جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی سیاحت کی صنعت توسیع پذیر تو ہورہی ہے۔ اندرون ملک بھی سیاحت کا چلن بڑھا ہے۔

سیاحت کے حوالے سے کام کرنے والی ایک تنظیم سسٹین ایبل ٹورزم فاؤنڈیشن کے سربراہ آفتاب رانا کا کہنا ہے کہ مقامی سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف گلگت بلتستان ہی میں اس سال گرمیوں کے سیزن میں دس لاکھ سیاح دیکھے گئے۔ اتنے ہی کاغان وغیرہ کی جانب دیکھے گئے ج بکہ سوات کی سرسبز وادیوں میں بھی 8 لاکھ سیاح گھومتے پھرتے پائے گئے۔ آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں بھی سیاحوں کا تخمینہ 8 سے 9لاکھ رہا۔

چترال کا علاقہ بھی سیاحت کے لیے بہت دل فریب ہے، لیکن چوںکہ وہاں کی سڑکیں اتنی اچھی نہیں ہیں، لہٰذا وہاں زیادہ سیاحوں نے رخ نہیں کیا۔ آفتاب رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر ملکی سیاحت میں تنزلی آئی ہے اور یہ کوئی آج کل کی بات نہیں ہے، نائن الیون کے بعد سے اب تک غیرملکیوں کی تعداد میں بہت کمی آئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس سے پہلے غیرملکیوں کی تعداد سالانہ 7سے 8 لاکھ ہوتی تھی۔

مقامی سیاحت تو بڑھی ہے لیکن مقامی لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کا فائدہ زیادہ تر دیگر علاقوں سے آنے والے انویسٹرز ہی اٹھا رہے ہیں۔ سوات کے ایک مقامی دکان دار حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ بڑے کاروبار مثلاً ہوٹل وغیرہ کی تعمیر سے دیگر علاقوں کے لوگ ہی وابستہ ہیں۔ مقامی لوگ چھوٹے موٹے کاروبار سے وابستہ ہیں کیوںکہ نہ ان کے پاس سرمایہ ہے اور نہ اہلیت۔ اس لیے زیادہ تر سرمایہ غیرمقامی افراد کی جیبوں میں چلا جاتا ہے، اگر حکومت ہمیں بلا سود قرضے جاری کرے تو مقامی افراد کا بھلا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ٹریننگ کی بہت ضرورت ہے، حکومت اس کا بھی انتظام کرے۔

مقامی سیاح اپنی سیاحت پر اوسطاً یومیہ 5 ہزار خرچ کرتا ہے اور اگر وہ پانچ دن رہے تو ایک سیاح سے 25000 آمدنی ہوتی ہے۔ اب اس کا حساب لاکھوں سیاحوں سے لگالیں، غیرملکی سیاحوں کے حوالے سے یہ تخمینہ دگنا ہوجاتا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ صنعت اب کتنی منافع بخش بن چکی ہے۔ بات صرف پیسے کی نہیں ہے، آفتاب رانا کا کہنا ہے کہ پیسہ تو آرہا ہے لیکن اس بڑھتی ہوئی سیاحت کی صنعت سے نقصان بھی بہت ہورہا ہے۔

غیرماحول دوست سرگرمیوں سے ہمارا ماحول تباہ ہورہا ہے۔ صاف شفاف آبی ذخائر آلودہ ہورہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹل اور ریستوراں اپنا کچرا اور آلودہ پانی ان ذخائر میں بہا دیتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ سیاحت کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کی حکومت نے سیاحت کی صوبائی پالیسی تیار تو کردی ہے اور یہ منظور بھی ہوچکی ہے لیکن عمل درآمد کے حوالے سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جب تک ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کام نہیں ہوگا صورت حال ایسی ہی رہے گی۔

چند سال پہلے جب نیپال کے ایک دریا بھوٹے کوشی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اس کے سفید اور جھاگ اڑاتے پانی کو دیکھ کر اپنا دریائے سوات یاد آگیا۔ نیپال کے لوگوں نے اپنے دریا کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ اس کے کنارے سیاحوں کے لیے خوب صورت ریزروٹ موجود ہیں جہاں کیمپنگ کی سہولت بھی موجود ہے، لیکن صفائی کا اعلیٰ انتظام بھی کیا گیا ہے ۔ یہ دریا رافٹنگ جیسے مہم جویانہ کھیل کے لیے بھی مشہور ہے۔

اگر ہم بھی صرف اپنے اس دریائے سوات، جس کی عالمی سطح پر تاریخی اور مذہبی حیثیت مسلمہ ہے، اگر صرف اس کی یہی حیثیت اجاگر کردیں تو سیاح جوق درجوق کھنچے چلے آئیں گے۔

دریائے سوات کو اگر تاریخ کی نظر سے دیکھیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دریا ہمیشہ سے اپنے انتہائی صاف وشفاف بلکہ سفید پانیوں کے لیے مشہور تھا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق سکندر کے ساتھ آنے والوں نے اس وادی کا ذکر اسی دریا کے حوالے سے کیا تھا۔ اس وقت یہ دریا ''سواستو'' کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ ''سویتا'' سے مشتق ہے جس کے معنی سپید کے ہیں۔

اسی طرح گیارہویں صدی عیسوی میں البیرونی نے بھی سوات کے شفاف پانی کا ذکر کیا ہے۔ مشہور چینی سیاح سنگ یون 502 چترال سے ہوتا ہوا جب سوات آیا تھا تو اس نے اپنے سفرنامے میں دریائے سوات کا ذکر ''دریائے سوٹو'' کے نام سے کیا ہے۔ بعض تاریخی کتب کے مطابق اس کے نام سواستی یا سوتی بھی تھا جو بدل کر سواد یا سوات میں تبدیل ہوگیا۔ دریائے سوات کو سنسکرت میں گوری کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اور رگ وید میں بھی اس کا ذکر ''سوساتوس'' کے نام سے موجود ہے۔ مہابھارت میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ یونانی سیاح ایرین کی تحریروں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ نام کوئی بھی ہو اس کے پانی کے صاف وشفاف ہونے میں کوئی دو رائے نہیں۔ جیسے جیسے آپ وادی سوات میں اوپر کی طرف بڑھیں گے تو اس کا پانی اور شفاف ہوتا چلاجاتا ہے۔

دریائے سوات کوہ ہندوکش کی اوٹ میں واقع سوات کوہستان کے علاقوں سے نکلتا ہے اور مختلف مقامات پر اس میں ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ دریا کالام سے مدین تک تنگ گھاٹیوں اور بڑی بڑی چٹانوں میں سے گزرتاہوا کہیں شور مچاتا، کہیں دھیمی لے میں اور کہیں دھاڑتا ہوا گزرتا ہے۔ مدین کی وادی میں اس کا پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے۔ یہاں اس میں مشرق کی سمت سے آتا ہوا دریائے بشی گرام بھی شامل ہوجاتا ہے۔ مینگورہ تک پہنچتے ہوئے اس دریا میں مزید ندی نالے شامل ہوتے ہیں اور ضلع چارسدہ میں یہ دریائے کابل میں ضم ہوجاتا ہے۔

سوات میں بدھ مت کے دور عروج میں اس کے کنارے سیکڑوں خانقاہیں اور بدھ مت کے علمی مراکز قائم تھے، جن میں بدھ مت کے ہزاروں طالب علم اکتساب علم کرتے تھے۔ ان بدھ خانقاہوں اور عبادت خانوں کا ذکر مشہور چینی سیاحوں نے بھی اپنے سفرناموں میں کیا ہے۔ چینی سیاح سنگ یون کے مطابق ''رات کے وقت خانقاہوں میں اتنی کثرت سے گھنٹیاں بجتیں کہ تمام فضا گونج اٹھتی۔''

دریائے سوات کا ذکر اس کی مچھلیوں کے بغیر ادھورا ہے۔ ان مچھلیوں میں مہاشیر اور ٹراؤٹ مشہور ترین اقسام ہیں۔ ٹراؤٹ مچھلی انتہائی بلندی پر شفاف پانیوں میں پائی جاتی ہیں۔ ذائقے میں انتہائی لذیذ ہوتی ہے۔ ہمیں بھی سوات میں متعدد بار یہ مچھلی کھانے کا موقع ملا۔

ٹراؤٹ مچھلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پانچ ہزار فٹ سے اوپر دریا کے شفاف پانیوں میں رہنا پسند کرتی ہے۔ سوات میں ٹراؤٹ ایک غیرمقامی مچھلی سمجھی جاتی ہے ، اس مچھلی کی نسل سوات کے حکم راں (والی صاحب) کے زمانے میں یورپی ممالک سے منگوائی گئی تھی، جو آج کل دریائے سوات کے برفیلے پانی میں مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی کو ٹھنڈے اور بہتے پانی کی باسی ہونے کے علاوہ ایک حساس مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں شکاریوں کی پسندیدہ یہ مچھلی صرف صاف و شفاف اور بہتے پانی میں ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مچھلی 9 سے15 ڈگری درجہ حرارت تک کے پانی میں بہترین نشوونما پاتی ہے ۔

ٹراؤٹ مچھلی کی سوات بھر میں بہت مانگ ہے۔ سسٹین ایبل ٹورازم فاؤنڈیشن کے صدر آفتاب الرحمان رانا نے مزید بتایا کہ ان کے ادارے کے ایک سروے کے مطابق 1990 کی دہائی کے درمیانی حصے میں سوات میں ٹراؤٹ مچھلی کی سالانہ کھپت 60 میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی جس سے ہونے والی آمدنی کا محتاط تخمینہ 20 ملین ڈالر سے زیادہ ہی لگایا جاتاہے۔ لیکن اب دریا کے پانی کی آلودگی نے اسے بقا کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہ مچھلی 3000 کلو بھی بڑی مشکل سے دست یاب ہے۔

دریائے سوات اور اس کے اردگرد کا علاقہ غیرملکی سیاحوں کی جنت سمجھا جاسکتا ہے، یہاں گندھارا آرٹ مہاتما گوتم بدھ کے مختلف مجسموں اور پتھروں کے نقوش میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ گندھارانہ صرف ایک فن کا نام ہے بل کہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔

اگرچہ حالیہ دنوں میں گندھارا کے آثار والے یہ تمام علاقے مثلاً سوات، پشاور ، دیر اور ہمارے دیگر پہاڑی علاقے دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے خبروں کا موضوع بنتے چلے آرہے ہیں لیکن اگر ہم چاہیں اور تھوڑی سی کوشش کریں تو یہی علاقے گندھارا آرٹ اور بدھ مت کے آثار کے حوالے سے عالمی سطح پر مشہور ہوسکتے ہیں۔ یہ تمام علاقے اور یہ آثار ہمارا وہ بیش بہا سرمایہ ہیں کہ اگر ہم ان کی صحیح طرح سے پبلسٹی کرلیں تو دنیا بھر کے سیاح یہاں جوق در جوق آنے لگیں گے۔

جاپان اور چین میں بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کو چین کی سیاحت کی صنعت سے استفادہ کرنا چاہیے جو بیرونی سفر پر اخراجات کے حوالے سے دنیا میں چوتھی بڑی صنعت ہے۔ ذرائع کے مطابق دو کروڑ پانچ لاکھ چینی ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق یہ تعداد 2020 تک دگنی ہوجائے گی۔ جس سے ہر سال 590 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ ہم اپنے ان علاقوں کی عالمی سطح پر تشہیر کے ذریعے ان سیاحوں کو یہاں آنے کے لیے مائل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں چین کے ساتھ مل کر کوئی جامع منصوبہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح ہم بھی سیاحت کو سماجی اور معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے ذریعے کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

کوریا کے ایک مذہبی راہ نما مونک جیون وون ڈیوک جو 2007 میں پاکستان آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان صرف تخت بائی کے کھنڈرات ہی کو بحال کردے تو یہ ہمارے لیے اتنے ہی مقدس اور متبرک ہیں جیسے کسی مسلمان کے لیے شہر مکہ، انہوں نے کہا کہ چین، جاپان اور کوریا کے ہزاروں بدھ مت کے پیروکار ان علاقوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔

یہ سب تبھی ہوگا جب ارباب اقتدار سنجیدگی سے سیاحت کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے، اس حوالے سے خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی توجہ اور دلچسپی شرط اولین ٹھہرے گی کیوںکہ یہ سب علاقے اسی صوبے میں موجود ہیں اور یہ بھی کہ 18 ترمیم کے بعد سیاحت اب صوبوں کا مسئلہ ہے۔

آفتاب الرحمان رانا جو سیاحت کے فروغ کے لیے بہت کوشاں رہتے ہیں، نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملا کر ایک نیشنل ٹورازم بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ صوبوں کے درمیان رابطے بڑھائیں اور مضبوط کریں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد چوںکہ سیاحت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے لہٰذا پاکستان کی اس حوالے سے شناخت کمزور پڑتی جاری ہے۔ غیرملکی سیاح سندھ، پنجاب یا کے پی کے کا سفر نہیں کرتے بلکہ وہ ''پاکستان'' آتے ہیں لہٰذا سیاحت کی صنعت کے فروغ کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کی پہچان کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ نیشنل ٹورزم بورڈ میں وفاقی، صوبائی اور نجی شعبے کی نمائندگی ضروری ہے کیوںکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سیاحت صوبوں کا مسئلہ ضرور ہے لیکن بہت سے کام وفاق کی سطح پر کیے جانا چاہیے۔ مثلاً پاکستان کا امیج بہتر سے بہتر کرنا۔ پڑوسی ممالک سے بہتر روابط رکھنا اور اپنے سیاحتی اثاثوں کی تشہیر وغیرہ۔

آفتاب صاحب کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ سیاحت اور ماحول کا تحفظ ساتھ ساتھ ہو، کیوںکہ ہمارے ہاں ماحول دوست سیاحت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہم اپنے وسائل کو خود ہی برباد کررہے ہوتے ہیں۔ آج جھیل سیف الملوک کا حال دیکھ لیں، فیری میڈوز کو دیکھ لیں۔

ہمیں آفتاب صاحب کی بات سے سو فی صد اتفاق تھا کیوںکہ یہ دونوں مقامات اتنے صاف اور شفاف تھے کہ لوگ ان کی خوبصورتی کی مثالیں دینے کے لیے پریوں کی تشبیہ پیش کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ جھیل سیف الملوک پر پریاں اترتی ہیں اور فیری میڈوز کو تو پریوں کا دالان بھی کہا جاتا ہے۔

ہمارے شمالی علاقہ جات انتہائی خوب صورت اور سیاحوں کے حوالے سے پر کشش ہیں۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے بیرونی مارکیٹوں میں اپنے سیاحتی اثاثوں کی تشہیر مناسب طور پر نہیں کی ہے۔ مناسب تشہیر سے یہ علاقے غیرملکی سیاحوں کی جوق در جوق آمد کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ بہترین بنیادی سہولتوں اور فول پروف حفاظتی انتظامات کے بغیر سیاحوں کی آمد ایک خواب تو ہوسکتی ہے، تعبیر نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں