عدل و احتساب کے نئے معیار
پیپلزپارٹی نے مجوزہ احتساب بل میں جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی شق شامل کرنیکا مطالبہ کر دیا
ملک میں بحران کی سی کیفیت ہے اور بلاشبہ اس پر دو رائے نہیں کہ یہ قانون کی حکمرانی کے فقدان کا منطقی نتیجہ ہے کیونکہ طاقتور طبقے ہمیشہ قانون سے بالاتر رہے، اہل اقتدار کی بدعنوانی، کرپشن، قانون سے بالاتر رہنے کی مستقل خواہش اور رعونت پر احتسابی گرفت کمزور رہی یہاں تک کہ احتساب کا لفظ داخل دشنام ہوگیا، لیکن حالیہ دنوں میں پاناما لیکس کیس کے باعث جوابدہی اور احتساب کا نیا حوالہ سیاسی اور عدالتی نظام سے منسلک ہوکر ملک کو کرپشن سے پاک سمت دینے کے مرحلہ میں ہے۔
چنانچہ احتساب کے موجودہ قانون کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا جمعہ کو اجلاس ہوا جس میں اگرچہ 'عوامی عہدے رکھنے والے' اور 'کرپٹ پریکٹس' کی تعریف طے ہونے اور مجوزہ قانون کے وفاق اور چاروں صوبوں میں یکساں اطلاق کے حوالے سمیت اہم نکات پر ایک بار پھر اتفاق رائے نہ ہو سکا، تاہم پیپلزپارٹی نے مجوزہ احتساب بل میں جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی شق شامل کرنیکا مطالبہ کر دیا جس کا حکومت کی طرف سے جائزہ لینے کی یقین دہانی بھی کرا دی گئی۔
میڈیا کے مطابق پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ میں احتساب قانون کی مخالفت پر اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، جمعہ کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس کمیٹی کے چیئرمین و وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان فرحت اللہ بابر، نوید قمر، شازیہ مری اور فاروق ایچ نائیک نے گزشتہ اجلاس میں وفاق کی جانب سے سندھ میں نیب کا قانون تحلیل کرنیکا اقدام غیرقانونی قرار دینے پر احتجاجاً شرکت نہیں کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے زاہد حامد نے کہا احتساب کے نئے قانون کے وفاق اور چاروں صوبوں میں یکساں اطلاق کے حوالے سے بھی کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ زاہد حامد نے کہا پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں تجویز دی تھی کہ نئے قانون کے دائرہ کار میں ججوں اور جرنیلوں کو بھی لایا جائے۔
واضح رہے قومی اسمبلی گزشتہ سال اتفاق رائے سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لیے ووٹنگ کر چکی تھی تاکہ احتساب ایکٹ میں ترمیم لا سکے جب کہ موجودہ اسپیکر ایاز صادق نے جنوری 2017ء میں دونوں ایوانوں کے اراکین پرمشتمل 20 رکنی کمیٹی قائم کی جسے تین ماہ میں اپنی رپورٹ دینا تھی مگر کمیٹی کو دائرہ اختیار کی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا رہا، ایک انگریزی روزنامہ کے مطابق کمیٹی کو یہ ایشو درپیش ہے کہ مجوزہ قانون کی جیورسڈکشن طے پاجائے تو قانون سازی جلد مکمل ہوگی۔
وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ قانون میں اہم تبدیلیوں کو حتمی شکل دی جاچکی ہے تاہم کمیٹی کو طے کرنا ہے کہ قانون سازی کااطلاق پورے ملک پر ہو یا صرف فیڈرل کیپٹل اور فیڈرل گورنمنٹ پر، تاہم اجلاس کے قریبی ذرایع کا کہنا ہے کہ کمیٹی اراکین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تمام فنکشنریز پر اس کا اطلاق ہواور اس میں ججزاور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں قانون سازی کے اس پہلو کو بھی دیکھا گیا کہ ججز کا احتساب سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے جب کہ ملٹری کا اپنا احتسابی نظام ہے، وزیر قانون نے یقین دلایا ہے کہ آیندہ اجلاس میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے ورنہ معاشرے میں انصاف کے قتل اور دہرے عمل کا ایک اندوہ ناک تاثر کا ابھرنا فطری ہوگا۔ غریب آدمی کو جلد اور فوری انصاف ملے تو اسے ملکی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوگی، یہ روایت بھی ختم ہوجائیگی کہ انصاف کے امیر وغریب کے لیے معیار اور پیمانے مختلف ہیں، اگر بااثر اشرافیہ اور طاقتور طبقات کے بلاامتیاز احتساب اور مراعات یافتہ طاقتور طبقات کی بددیانتی، سفید کالر جرائم اور بے پناہ دولت کے جائز و قانونی ماخذ کی جستجو میں عدالتی فعالیت کو اسی جذبہ سے رواں دواں رکھا گیا تو نتائج مثبت اور غیر معمولی ہوسکتے ہیں۔
جمہوری عمل کی کمزوری احتسابی عمل کے نا خوشگوار ماضی سے جڑی ہوئی ہے چونکہ بدعنوانی کے سدباب کے ادارے پہلے سے موجود ہیں، اینٹی کرپشن سیل قائم ہوئے، بد دیانت بیوروکریٹس کے نشیمنوں پر گزشتہ اور حالیہ دنوں میں چھاپے مارے گئے، مگر احتساب ادھورا رہا، بعض حسینائیں ضمانت پر ہیں، کچھ ملزمان بیرون ملک چلے گئے،آج بھی کوئی سرکاری کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا، اس لیے ادارہ جاتی احتساب کی نشاۃ ثانیہ ناگزیر ہے۔کوئی اَنٹچ ایبل سرکشی اور قانون کی آنکھوں میں دھول نہ جھونک سکے۔
جوابدہی وہ سیمنٹ ہے جو کمٹنٹ کو نتیجہ سے جوڑتاہے، معاشرے اور ریاست وحکومت کے انتظام میں بنیادی مغالطہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ قانون بناتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی قانون توڑتے ہوں تو ان سے کیا سلوک ہونا چاہیے، اسی اصول کی کلید پروفیشنلز، ججز، جرنیلوں، اشرافیائی اور مراعات یافتہ طبقات کی جوابدہی کے لیے پارلیمنٹ کی ذمے داری بنا دی جائے تو خود کو ہر احتساب سے بری الذمہ قرار دینے کی روایت اور کلچر از خود دم توڑ دیگا۔
یہ درست ہے کہ قانون کے اندھا ہونے کی کہاوت بہت پرانی ہے مگر عہد حاضر کے ججز کی بصیرت اور بصارت نے معاملہ الٹ کردیا ہے، آج کرپشن، وائٹ کالر جرائم، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور زر اندوزی کے اندھیروں میں قرائنی شہادتوں اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں فاضل ججز بولتے ہوئے فیصلے صادر کرچکے ہیں۔ بعینہ اسلامی تاریخ عدل وانصاف کے محض قصائص اور سینہ بہ سینہ روایتوں سے عبارت نہیں بلکہ عدل کی روح ہی مسلم معاشرے کے احیا اور بقا کی ہمیشہ ضمانت دیتی رہی ہے۔
چنانچہ احتساب کے موجودہ قانون کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا جمعہ کو اجلاس ہوا جس میں اگرچہ 'عوامی عہدے رکھنے والے' اور 'کرپٹ پریکٹس' کی تعریف طے ہونے اور مجوزہ قانون کے وفاق اور چاروں صوبوں میں یکساں اطلاق کے حوالے سمیت اہم نکات پر ایک بار پھر اتفاق رائے نہ ہو سکا، تاہم پیپلزپارٹی نے مجوزہ احتساب بل میں جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی شق شامل کرنیکا مطالبہ کر دیا جس کا حکومت کی طرف سے جائزہ لینے کی یقین دہانی بھی کرا دی گئی۔
میڈیا کے مطابق پیپلزپارٹی کے ارکان سندھ میں احتساب قانون کی مخالفت پر اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، جمعہ کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس کمیٹی کے چیئرمین و وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان فرحت اللہ بابر، نوید قمر، شازیہ مری اور فاروق ایچ نائیک نے گزشتہ اجلاس میں وفاق کی جانب سے سندھ میں نیب کا قانون تحلیل کرنیکا اقدام غیرقانونی قرار دینے پر احتجاجاً شرکت نہیں کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے زاہد حامد نے کہا احتساب کے نئے قانون کے وفاق اور چاروں صوبوں میں یکساں اطلاق کے حوالے سے بھی کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ زاہد حامد نے کہا پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں تجویز دی تھی کہ نئے قانون کے دائرہ کار میں ججوں اور جرنیلوں کو بھی لایا جائے۔
واضح رہے قومی اسمبلی گزشتہ سال اتفاق رائے سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لیے ووٹنگ کر چکی تھی تاکہ احتساب ایکٹ میں ترمیم لا سکے جب کہ موجودہ اسپیکر ایاز صادق نے جنوری 2017ء میں دونوں ایوانوں کے اراکین پرمشتمل 20 رکنی کمیٹی قائم کی جسے تین ماہ میں اپنی رپورٹ دینا تھی مگر کمیٹی کو دائرہ اختیار کی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا رہا، ایک انگریزی روزنامہ کے مطابق کمیٹی کو یہ ایشو درپیش ہے کہ مجوزہ قانون کی جیورسڈکشن طے پاجائے تو قانون سازی جلد مکمل ہوگی۔
وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ قانون میں اہم تبدیلیوں کو حتمی شکل دی جاچکی ہے تاہم کمیٹی کو طے کرنا ہے کہ قانون سازی کااطلاق پورے ملک پر ہو یا صرف فیڈرل کیپٹل اور فیڈرل گورنمنٹ پر، تاہم اجلاس کے قریبی ذرایع کا کہنا ہے کہ کمیٹی اراکین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تمام فنکشنریز پر اس کا اطلاق ہواور اس میں ججزاور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اجلاس میں قانون سازی کے اس پہلو کو بھی دیکھا گیا کہ ججز کا احتساب سپریم جوڈیشل کونسل کرتی ہے جب کہ ملٹری کا اپنا احتسابی نظام ہے، وزیر قانون نے یقین دلایا ہے کہ آیندہ اجلاس میں اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ احتساب بلاامتیاز ہونا چاہیے ورنہ معاشرے میں انصاف کے قتل اور دہرے عمل کا ایک اندوہ ناک تاثر کا ابھرنا فطری ہوگا۔ غریب آدمی کو جلد اور فوری انصاف ملے تو اسے ملکی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوگی، یہ روایت بھی ختم ہوجائیگی کہ انصاف کے امیر وغریب کے لیے معیار اور پیمانے مختلف ہیں، اگر بااثر اشرافیہ اور طاقتور طبقات کے بلاامتیاز احتساب اور مراعات یافتہ طاقتور طبقات کی بددیانتی، سفید کالر جرائم اور بے پناہ دولت کے جائز و قانونی ماخذ کی جستجو میں عدالتی فعالیت کو اسی جذبہ سے رواں دواں رکھا گیا تو نتائج مثبت اور غیر معمولی ہوسکتے ہیں۔
جمہوری عمل کی کمزوری احتسابی عمل کے نا خوشگوار ماضی سے جڑی ہوئی ہے چونکہ بدعنوانی کے سدباب کے ادارے پہلے سے موجود ہیں، اینٹی کرپشن سیل قائم ہوئے، بد دیانت بیوروکریٹس کے نشیمنوں پر گزشتہ اور حالیہ دنوں میں چھاپے مارے گئے، مگر احتساب ادھورا رہا، بعض حسینائیں ضمانت پر ہیں، کچھ ملزمان بیرون ملک چلے گئے،آج بھی کوئی سرکاری کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا، اس لیے ادارہ جاتی احتساب کی نشاۃ ثانیہ ناگزیر ہے۔کوئی اَنٹچ ایبل سرکشی اور قانون کی آنکھوں میں دھول نہ جھونک سکے۔
جوابدہی وہ سیمنٹ ہے جو کمٹنٹ کو نتیجہ سے جوڑتاہے، معاشرے اور ریاست وحکومت کے انتظام میں بنیادی مغالطہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ قانون بناتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی قانون توڑتے ہوں تو ان سے کیا سلوک ہونا چاہیے، اسی اصول کی کلید پروفیشنلز، ججز، جرنیلوں، اشرافیائی اور مراعات یافتہ طبقات کی جوابدہی کے لیے پارلیمنٹ کی ذمے داری بنا دی جائے تو خود کو ہر احتساب سے بری الذمہ قرار دینے کی روایت اور کلچر از خود دم توڑ دیگا۔
یہ درست ہے کہ قانون کے اندھا ہونے کی کہاوت بہت پرانی ہے مگر عہد حاضر کے ججز کی بصیرت اور بصارت نے معاملہ الٹ کردیا ہے، آج کرپشن، وائٹ کالر جرائم، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور زر اندوزی کے اندھیروں میں قرائنی شہادتوں اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں فاضل ججز بولتے ہوئے فیصلے صادر کرچکے ہیں۔ بعینہ اسلامی تاریخ عدل وانصاف کے محض قصائص اور سینہ بہ سینہ روایتوں سے عبارت نہیں بلکہ عدل کی روح ہی مسلم معاشرے کے احیا اور بقا کی ہمیشہ ضمانت دیتی رہی ہے۔