اب بھی وقت ہے

وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تہذیبی نرگسیت کے سحر سے نکل کر آج کی دنیا کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔


Muqtida Mansoor February 24, 2013
[email protected]

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے حالیہ تین روزہ دورہ بھارت کے دوران بھارتی تاجروں کے لیے ایک دن میں ویزے کے اجراء کااعلان کیا۔دوسری طرف پاکستانیوں کے لیے دنیاکے ترقی یافتہ ممالک ایک طرف، کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی ویزے کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے۔گزشتہ 12برس سے دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں کوئی نہ کوئی پاکستانی ضرورملوث پایا جاتا رہا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک معاشی ترقی کے لیے منصوبہ بندی اور دوسرے ممالک سے مسابقت میں مصروف ہے۔جب کہ پاکستان میںیہ طے کرنے پر خون بہایا جارہاہے کہ کون سا فقہہ یا مسلک صحیح راستے پرہے اور ملک کے لیے کون سانظام حکمرانی درست ہے۔

برنارڈشانے کہاتھا کہ"Patriotism is the only refuge for scoundrels" ،یعنی حب الوطنی بدقماشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ حالانکہ تیسری دنیا کے ممالک کی قیادتوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اسی حب الوطنی کو نوآبادیاتی نظام کے خلاف مؤثر ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔مگر بعد ازاںان ممالک کے مراعات یافتہ طبقات نے اس جذبے کواپنے مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیااور اقتدارپر اپنی گرفت مضبوط کی۔ اہل پاکستان پراس جبرکی کئی اور جہتیں بھی مسلط کی گئیں۔ایک طرف عقیدے کے نام پران کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کی گئی،تودوسری طرف قومی سلامتی حق نمایندگی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ ساتھ ہی ماضی کی غلطیوں پرگفتگو بھی شجرہ ممنوعہ قرار پائی۔

معاملات بھارت میں بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ہماری طرح وہاں بھی نوآبادیاتیMindsetکی نوکرشاہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں روڑے اٹکاتی ہے۔وہاں بھی شیوسینااورRSSہمارے مذہبی شدت پسندوں کی طرح مذہب کوآلہ کار کے طورپر استعمال کرتے ہوئے ہر مثبت پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔بڑافرق یہ ہے کہ بھارت کا سیکیولرآئین تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت فراہم کرتاہے، جب کہ پاکستان میں ریاست کا مذہبی تشخص مذہبی اقلیتوں کو اس قسم کا تحفظ فراہم کرنے میں رکاوٹ ہے۔

اگر پاکستان میں جہادی تنظیمیںبھارت دشمنی کو فروغ دے رہی ہیں، تو بھارت میں بھی ایسی درجنوں تنظیمیں ہیں جو پاک بھارت تعلقات میں آڑے آتی ہیں۔لیکن یہ عناصر دونوں ممالک میں5فیصدسے زائد نہیں ہیں۔مگر دونوں جانب سے اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی اور آتشیں اسلحے کی بنیادپریہ شدت پسند قوتیں عوام کی زباں بندی کیے ہوئے ہیں،جن کی اکثریت بہتر تعلقات کی حامی ہے۔لیکن لبرل سیاسی جماعتیں مصلحتوں کا شکار ہونے کی وجہ سے انھیں منظم نہیںکر پارہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دونوں جانب صرف چند سماجی تنظیمیںخطے میںتنائوکے خاتمے،قیام امن اور عوام کے عوام سے رابطہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان تنظیموںکودونوں جانب کے شدت پسندوں کی دھمکیوںاورحملوںکامسلسل خطرہ لاحق رہتاہے۔ مگر انتہائی نامساعد حلات اور تمامتر خطرات کے باوجود اپنے مشن پر ڈٹے رہ کر یہ تنظیمیں عزم وہمت کی نئی تاریخ رقم کررہی ہیں،جن کے بارآور ہونے کی بہر حال امیدکی جاسکتی ہے ۔

مختلف سماجی تنظیمیں جن میں SAFMAجنوبی ایشیاء کے ذرایع ابلاغ کو جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے، تو پاکستان انڈیاپیپلز فورم برائے امن وجمہوریت عوام کے عوام سے رابطہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان پیس کولیشن (PPC)خطے کو مہلک ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم چلارہی ہے۔اسی طرح امریکا میں مقیم جنوبی ایشیاء کے شہری پریتم روہیلہ اپنی بیگم کندن روہیلہ اور چند دوستوں کے ساتھ مل کرگزشتہ بیس برس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سرگرداں ہیں۔ ان کی تنظیم Association of Communal Harmony in Asia (ACHA)اس خطے میں کمیونل ہم آہنگی کی حوصلہ افزائی کرنے کی خاطرہرسال خطے کے ان شہریوں کواسٹارایوارڈ دے رہی ہے، جوامن وآشتی کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ایوارڈکی یہ تقریب جنوبی ایشیاء کے کسی ایک ملک میں منعقد کی جاتی ہے۔اس برس یہ تقریب کراچی میں منعقد ہوئی،جس میں پاکستان سے معروف کوریوگرافرشیماکرمانی،بھارت کے سینئر صحافی لجاشنکرہردینا، سماجی سرگرم کارکن مظہر حسین اورپرمود شرماشامل تھے۔اس سے قبل یہ ایوارڈبھارت سے ڈاکٹراصغر علی انجینئر،پروفیسر رام پنیانی،ڈاکٹر لینن رنگھوونشی اورشبنم ہاشمی، پاکستان سے ڈاکٹربونی فیس مینڈیس،ڈاکٹر عبدالحمید نئیر،بی ایم کٹی،کرامت علی،سعیدہ دیپ،اویس شیخ اوراشفاق فتح جب کہ امریکا کے ڈاکٹرانڈرگ شیفر کو دیا جاچکاہے۔

یہ صحیح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات اوربداعتمادی کی تاریخ نئی نہیں ہے،جس کا آغاز تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان تنازعات کو بنیادبناکر جنگ بازی کے رجحانات کو فروغ دیاجائے، عوام کو ننگابھوکا رکھ کرمہلک ہتھیاروں کے انبارلگائے جائیں اور تاخیری حربوں کے ذریعے پرامن مذاکرات کا راستہ روکاجاسکے۔ اس سلسلے میں کسی ایک ملک کی اسٹبلشمنٹ کو موردِالزام نہیں ٹہرایاجاسکتا بلکہ دونوں جانب کے ریاستی منصوبہ ساز اس صورتحال کے ذمے دار ہیں،جو اپنے عوام اور خطے کے وسیع تر مفاد میں کوئی صائب فیصلہ کرنے سے گریز کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔اگر دونوں جانب نیک نیتی اور مسائل کو حل کرنے کاعزم ہوتا تو یہ مسئلہ ابتدائی دس برس کے اندر ممکن تھا۔

مگرتاخیری حربے تلخیوںمیں اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ان ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں نے ان کی معیشت اور سماجیFabricکو شدید نقصان پہنچایاہے۔ دونوں ملکوں نے خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حالت زار بہتر بنانے کے بجائے اپنے وسائل اسلحے کی دوڑ میں صرف کیے ۔ساتھ ہی دونوںمعاشروں میں شدت پسندوں نے اپنی جگہ بنائی ۔ پاکستان میں شدت پسندریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آئے توبھارت میں ہندوتوا کا نعرا بلند ہوا۔دونوں جانب کی ان شدت پسند تنظیموں نے اپنے اپنے عوام کو یرغمال بناکر پرامن بقائے باہمی کے عمل کونقصان پہنچارہے ہیں۔جس کے سب سے زیادہ اثرات دونوں ممالک کے غریب، محنت کش اور محروم طبقات پر مرتب ہوئے ہیں۔

انا، خودسری اور تنگ نظری کے شکار منصوبہ سازوں کے غیر لچک دار رویوں کی وجہ سے یہ خطہ جو اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کی بنیاد پر تیز رفتار ترقی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے،دنیا کے چند پسماندہ خطوں میں شامل ہوچکاہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت نے گزشتہ 20برس کے دوران تیز رفتار ترقی کی ہے۔لیکن آج بھی 50کروڑ افراد غربت ،افلاس اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ پاکستان کی حالت زیادہ ابتر ہے،جہاں 40فیصدآبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔متوسط طبقہ جو کسی ملک کی آبادی کا 40سے50فیصد کے درمیان ہوتا ہے، 20برس میں سکڑ کر25فیصد رہ گیاہے۔ توانائی کے بحران اور امن وامان کی ابتر صورتحال نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ جس کے نتیجے میں صنعتیں بندہورہی ہیں اور بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔

اگر یہ دونوں ممالک اپنے وسائل جنگ جویانہ سرگرمیوں پر صرف کرنے کے بجائے معاشی نمو اور سماجی ترقی پر صرف کریں تو عام آدمی کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میںحیدرآباد دکن (بھارت) میں سرگرم سماجی کارکن اورہمارے دوست مظہرحسین کی تحقیق کے مطابق گزشتہ بیس برس کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان اور بھارت کے منصوبہ ساز دانستہ طور پر ہرسال ستمبر سے مارچ تک تنائوکی فضاء کو ہوا دیتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا سالانہ بجٹ مارچ اور پاکستان کا جون میں پیش کیا جاتا ہے۔لہٰذا دونوں ممالک کی حکومتوں کو دفاعی بجٹ میںاضافے کا منطقی جواز مہیا ہوجاتا ہے اور عوام اس اضافے پر خاموش رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ریاستی منصوبہ ساز تہذیبی نرگسیت کے سحر سے نکل کر آج کی دنیا کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں ۔لیکن ساتھ ہی عوام کے عوام کے ساتھ رابطہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں ۔ویزا پالیسی کو نرم کریں اور شہروں کے بجائے پورے ملک کا ویزہ دیں، تجارت کے لیے ماحول کو ساز گار بنائیں ۔ اس خطے کی ترقی کا اس کے سواء کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں