پی ٹی وی اور عبدالکریم بلوچ

پورے سروس پیریڈ میں وہ اپنے فنکاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور دوستوں میں بیحد مقبول اور مشہور رہے۔

KARACHI:
دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں بھلانا بڑا مشکل ہوتا ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جن کا اخلاق بلند ہو اور انھوں نے لوگوں کی خدمت کی ہو۔ ان انسانوں میں ایک بھلا آدمی عبدالکریم بلوچ بھی تھا جس سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پی ٹی وی کراچی سینٹر کے جنرل منیجر تھے اور میں ایک انگریزی اخبار میں شوبزکی رپورٹنگ کرتا تھا۔ وہ زمانہ تھا جب صرف پی ٹی وی تھا اور پرائیویٹ چینلزکا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

اکثر ڈراموں اور دوسرے پروگرامزکے بارے میں پریس کانفرنس ہوا کرتی تھی جس میں ہماری ملاقات عبدالکریم بلوچ سے ہوتی رہتی تھی۔ بلوچ صاحب کے بڑے بلوچستان سے آکر سندھ کے شہرکوٹری میں آباد ہوئے جہاں پر انھوں نے یوسف بلوچ کے نام سے ایک گاؤں قائم کیا۔

عبدالکریم کے والد جو انگریزوں کی حکومت میں ریلوے میں ملازم تھے جس کی وجہ سے انھیں کبھی کدھر کبھی کدھر تبادلہ کرکے بھیجا جاتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ بغداد بھی گئے جہاں پر انھوں نے ایک کرد عورت سے شادی کرلی اور پھر کراچی کے علاقے لیاری میں آگئے اور فدا حسین شیخا روڈ کی ایک گلی میںاپنی فیملی کے ساتھ وہاں رہنے لگے۔ لالو گینڈا اس وقت کا بہترین فٹبالر اور علاقہ کا دبنگ بندہ تھا، عبدالکریم کا جنم بغدادی لیاری میں 1938 میں ہوا اور وہ 5 جماعتیں پاس کرنے کے بعد کوٹری واپس آگئے۔

ان کے بڑے بھائی اداکار ساقی جس کا اصلی نام عبداللطیف تھا وہ فلموں میں کام کرتے تھے اور بڑے مشہور اور مقبول کیریکٹر اداکار تھے۔ انھیں دیکھ کر بلوچ صاحب کو بھی یہ شوق ہوا کہ وہ ریڈیو پر کام کریں۔ جب 1955 میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا قیام ہوا تو وہ اس میں کام کرنے لگے۔ اسی دوران ایک پروگرام فتح خان کی کچہری گاؤں کے لوگوں کے لیے سید صالح محمد شاہ پیش کرتے تھے جو بہت مقبول پروگرام تھا۔

اس پروگرام میں عبدالکریم بلوچ گھنور خان کے کردار میں صدا کاری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ریڈیو پاکستان کراچی سے سندھی میں بچوں کے لیے پیش ہونیوالے پروگرام بارن جی باری میں ماما ملوک کا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کے طور پر تقرر پا گئے جسکی وجہ سے انھوں نے سندھی پروگراموں اور فنکاروں کو بڑا موقعہ دیا جسکی وجہ سے ان میں چھپا ہوا ٹیلنٹ نکھر کر ابھر آیا۔ انھیں سندھی کلچر اور موسیقی سے عشق تھا اور میوزک کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتے تھے جسکی وجہ سے موسیقی میں مزید بہتری آئی۔

ان کے خاندان میں بڑا ٹیلنٹ تھا اور ہے جسکی وجہ سے اداکار ساقی، عبدالکریم خود، ان کے کزن علی بابا، ان کے بھتیجے ہارون رند نے پی ٹی وی پر کام کرکے انمٹ نقش چھوڑے ہیں۔ عبدالکریم بلوچ کے اب بھی خاندان کے لوگ کیمرہ مین ، ایڈیٹنگ اور ہدایتکاری میں اپنا نام روشن کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خاندان میں سے اچھے ڈرامہ نگار بھی ہیں۔

عبدالکریم بلوچ نے کوٹری میں آکر میٹرک کا امتحان پاس کیا پھر انٹر، بی اے پھر سندھ یونیورسٹی سے ایم اے سندھی لٹریچر میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ جب پی ٹی وی قائم ہوا تو پاکستان میں ایک انقلاب سا آگیا اور لوگوں کو گھر بیٹھے خبریں، حالات حاظرہ اور ڈراموں کو دیکھنے کا موقعہ ملا۔ اب سندھی شعبہ کام کرنے لگا تو کراچی سینٹر کے لیے کئی لوگ انٹرویو دینے آئے جس میں عبدالکریم بلوچ کو ان کی تعلیم، تجربے اور ذہانت کی بنا پر پہلے سندھی پروڈیوسرکے طور پر مقرر کردیا گیا۔ اب دن رات محنت، مشقت اور نئے نئے آئیڈیازکو استعمال کرکے انھوں نے کئی کامیاب اور مقبول سندھی پروگرام پیش کیے جس کی وجہ سے سندھی پروگراموں کے اوقات اور دنوں میں اضافہ کردیا گیا۔


وہ 1967 میں پی ٹی وی میں پروڈیوسر بنے، 1973 میں پروگرام منیجر کے طور پر انھیں ترقی دی گئی اور کچھ ہی سالوں کے بعد وہ جنرل مینجر بن گئے اور انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 19 سال جنرل منیجر کے عہدے پر فائز رہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس دوران وہ مختلف مراکز میں تعینات رہے اور آخر میں 1999 میں بطور ڈائریکٹر پی ٹی وی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

پورے سروس پیریڈ میں وہ اپنے فنکاروں، ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں اور دوستوں میں بیحد مقبول اور مشہور رہے۔ میری یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ جب بھی بلوچستان جاتے تو واپسی پر لاڑکانہ سے کچھ چیزیں خریدنے کے لیے آتے اور ہمیشہ مجھ سے ملاقات ہوتی، مگر وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہوتے تھے لہٰذا میری چائے یا کھانا نہیں کھاسکے۔ ان کی زندگی بڑی مصروف رہی تھی اور انھوں نے کام کو اپنے لیے عبادت سمجھا اور ایک ان کی اچھی عادت یہ تھی کہ وہ کہیں بھی ہوں لیکن عید کرنے کے لیے کوٹری آجاتے تھے اور اپنے چھوٹے بڑے رشتے داروں سے گھل مل جاتے جس سے انھیں بڑی خوشی ملتی تھی۔

ان کی زندگی میں ایک بہت برا حادثہ ان کے چھوٹے بیٹے فیروزکی موت تھی جو حیدرآباد میں ایک نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا تھا، جسکی وجہ سے وہ بڑے افسردہ رہتے تھے۔ ان کے 6 بیٹے اور 2 بیٹیاں تھیں۔ شروع میں ان کی فیملی میں لڑکیوں کو تعلیم دلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا مگر انھوں نے آخر اپنے خاندان میں لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے کام کیا۔ عبدالکریم بلوچ نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر کام کرنے کے دوران کئی بڑے فنکاروں کو متعارف کروایا جس میں مشتاق جسکانی، محمود صدیقی، نور محمد لاشاری، شفیع محمد شاہ، انور سولنگی، گلاب چانڈیو، فرید نواز بلوچ، غزالہ رفیق، قربان جیلانی، منظور قریشی اور بہت سارے سنگرز شامل ہیں۔

ان کے دور میں جنگل اور دیواریں جیسے کامیاب ڈرامے پیش ہوئے جس میں سندھی فنکاروں کو چانس دیا گیا اور وہ اچھی پرفارمنس کی وجہ سے مرکزی لیول تک پہنچ گئے اور کئی پی ٹی وی اور حکومتی ایوارڈز حاصل کیے۔ ان کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے انھیں 2007 میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ جب کہ وہ 1999 میں پی ٹی وی سے ریٹائر ہوچکے تھے۔

جب وہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر بنے تو انھوں نے کئی اچھے پروگرامز دیکھنے والوں کے لیے پیش کیے جس میں خاص طور پر سندھ سینگار، روشن تارہ، رس ریھان، مہران رنگ، میوزیکل شوز اور پروگرامز، ٹاک شوز، ناٹک رنگ، ڈاکومنٹریز اور سب سے بہتر ڈرامہ ''زینت'' پیش کیا جسے سندھ کے مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نگار مرزا قلیچ بیگ نے لکھا تھا۔

پی ٹی وی کے مارکیٹنگ شعبے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے انھوں نے نیلام گھر پروگرام کا آئیڈیا دیا جس سے پی ٹی وی کو بڑا مالی فائدہ ہوا اور مقبولیت ملی۔ اس نے ایک کردار اور بھی ریڈیو پر کیا تھا جس میں وہ چاچا چنیسر بنے تھے۔ سندھی موسیقی کا ساز چنگ ہے جسے وہ بڑی مہارت سے بجاتے تھے۔انھیں اپنے کام سے محبت تھی اور وہ گھر میں بیٹھ کر اپنے آپ کو ضایع نہیں کرنا چاہتے تھے اور پھر لوگوں کی بے لوث خدمت کی وجہ سے انسانیت کا جذبہ بھی انھیں کام کرنے پر مجبور کر رہا تھا لہٰذا وہ بلدیاتی الیکشن میں اپنے علاقے نانگو لائن سے ناظم کے طور پر منتخب ہوگئے اور زیادہ تر علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں رہتے۔

کام کی زیادتی کی وجہ سے وہ شوگر کے مریض بن گئے اور پھر انھیں لیاقت نیشنل اسپتال کراچی میں داخل کیا گیا جہاں پر گردوں نے بھی کام کرنا بند کردیا جسکی وجہ سے وہ 6 اگست2008 کو اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ ان کے جسم خاکی کو اپنے خاندانی قبرستان کوٹری میں آخری آرام گاہ میں سپردخاک کیا گیا۔ نماز جنازہ میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ہر آنکھ نم تھی جو گواہی دے رہی تھی کہ لوگ اس سے کتنا پیار اور عزت کرتے تھے۔

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
Load Next Story