صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسین
حسینؓ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے آنے والوں کو یہ بتادیا کہ باطل کے مقابل اس درجہ قربانیاں بھی دی جاسکتی ہیں۔
کربلا تاریخ انسانیت کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس واقعے کا محرک حسینؓ ہے۔ ایسا حوصلہ، ایسا جذبہ، ایسا صبر، ایسا استقلال، ایسی فہم و فراست، ایسی رضا، کب کسے نصیب ہوئی حسینؓ ایک ہی تھا اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔
حسینؓ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے آنے والوں کو یہ بتادیا کہ باطل کے مقابل اس درجہ قربانیاں بھی دی جاسکتی ہیں۔ حق کے لیے سرفرازی کی ان منزلوں سے گزرا جاسکتا ہے۔انسان خدا کا نائب ہے تو اس کے مقام کا تقاضا ہے کہ وہ صعوبتوں کے پہاڑوں سے ٹکرا جائے۔ حبیب جالب کا شعر ہے:
سچ کی راہوں میں جو مر گئے ہیں
فاصلے مختصر کر گئے ہیں
یہ جو سچ کی راہوں میں مرکر، آنے والوں کے لیے فاصلے مختصر کرگئے ہیں اور ہم ہیں کہ ہم سے یہ مختصر فاصلے کبھی طے نہیں ہوپارہے۔ حسینؓ ایسے عظیم لوگ تو عظیم تھے مگر ہم بعد کو آنے والے اسوۂ حسینؓ پر دو قدم بھی نہ چل سکے اور ہم نے ہر یزید وقت کے ہاتھ پر بیعت کرلی، ہر آمر، جابر، ظالم، قابض، جھوٹے، فریبی کی ''مجلس ٰ'' میں گھس بیٹھے۔ نام نبیؐ کا لینے والے، نام علیؓ کا لینے والے، نام حسینؓ کا لینے والے نام صحابہؓ کا لینے والے، الفت سے بیگانے کیوں؟ حسینؓ کا نام لینے سے پہلے اس کا ذکر کرنے سے پہلے اپنا اپنا من صاف کرو۔ حسینؓ انسانیت کا علم بردار ہے، حسینؓ کہیں بھی موجود ہوسکتا ہے۔ حسینؓ کی کوئی حدود نہیں ہیں، وہ انسانیت کا اعلیٰ ترین استعارہ ہے، جو حسینؓ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا در اصل وہی حسینی ہے۔ حضرت جوش ملیح آبادی نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
اتنا بڑا نام اور مقام ہے جناب حسینؓ کا کہ ہر قوم انھیں اپنا کہے گی ۔ حسینیت اور یزیدیت یہ دو سوچیں ہیں، یہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیںگی۔ بس جو صعوبتیں اٹھائیںگے وہی حسینیت کے وارث ہیں اور جو ظلم، جبر، بربریت، خلق خدا کو بھوکوں ترساتے رہیںگے وہ یزیدیت کے پیروکار ہیں۔ کربلا والے یزید ہی پر لعنت ملامت نہیں! آج کے یزیدوںکی بھی ملامت کرو۔ ''نام نبیؐ کا لینے والے الفت سے بے گانے کیوں'' یہ آج کے یزید ہی تو ہیں جو تانیہ خاصخیلی کے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں برساتے ہیں، وہ مرجاتی ہے، دسویں جماعت کا طالبہ سولہ سترہ سال کی لڑکی علاقے کا وڈیرا اسے اپنی جاگیر سمجھتا ہے، تانیہ نے انکار کیا، یزیدی وڈیرے سے انکار برداشت نہ ہوا، وڈیرے نے اسلحہ اٹھایا اپنے ساتھیوں کو لیا اور تانیہ کو مار ڈالا۔
اے تانیہ ''تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیوںکر! سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے؟''
وڈیرے نے قتل کیا اور صوبہ بلوچستان کے سردار کے گھر چلا گیا۔ صحافیوں نے، حسینؓ کے ماننے والوں نے شور مچایا، شور زیادہ بڑھا تو سندھ کے حکمرانوں نے قاتل وڈیرے کو باعزت گرفتار کرلیا اور سنا ہے کہ قاتل وڈیرے اور اس کے ساتھیوں کو پولیس جیل سے ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بٹھاکر باوقار طریقے سے عدالت لائی۔
یہ ہے یزیدیت جو پورے ''شب شبھا'' کے ساتھ آج بھی جاری ہے اس یزید کے خلاف حسینؓ کھڑا ہوا تھا جو یہ حسینی کردار تو کار مسلسل ہے، آج کے یزیدوں کے خلاف کون حسین ہے جو ان یزیدیوں کا مقابلہ کرے۔ یہ یزیدی غریب ہاریوں، کسانوں کے دونوں ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، اپنے خونخوار شکاری کتے غریبوں پر چھوڑ دیتے ہیں، اپنی پنچائیتوں میں انسانیت سوز فیصلے سناتے ہیں۔ اسمبلیاں ان یزیدوں کی، عدالتیں ان کی، تھانے کچہریاں ان کی، اﷲ کی زمین پر یہ قابض اور سیاہ و سفید ان کے۔
حسینؓ مدینہ سے سوئے کربلا چلے تھے، چلو حسینؓ کے نام پر موجودہ یزیدوں کے محلوں، فارم ہاؤسوں، کھیت کھلیانوں کی طرف چلیں، کربلا میں حسینؓ کے خیمے جلے تھے، حسینؓ کے گھر والے جلتے خیموں سے نکل کر پناہ کی تلاش میں دشتِ کربلا میں ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے اور...
میں پھر کہوںگا حسینیت کار مسلسل ہے، حسینیت میں صعوبتیں ہیں، مگر عزتیں محفوظ ہیں، یزیدیت میں آسائشیں ہیں مگر حیوانیت ہے، درندگی ہے، بے غیرتی ہے۔ لوگ ہیں کہ پل دو پل کے عیش کی خاطر، یزیدیت کے ساتھ چل دیتے ہیں، حالانکہ آخر سب نے مرجانا ہے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا ہے مگر یہی پل دو پل بڑے رنگین ہوتے ہیں اور لوگ انھی رنگینیوں میں کھوجاتے ہیں۔ ظالموں کے ہمنوا بن جاتے ہیں، خدا اور رسولؐ کو بھول کر حکمرانوں کے درباروں میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
ایران کے بعد شمالی کوریا بھی امریکا کو للکار رہا ہے، چین پہلے ہی ایک خود مختار، آزاد ملک کے طور پر سامنے ہے، برما میں مہاتما گوتم بدھ کے ماننے والے انسانوں پر گوتم کی تعلیمات کے برعکس عمل میں مصروف ہیں۔
دنیا میں جو نیک بندے پیدا ہوئے وہ تو سبھی اچھے تھے، ہم ان کے پیروکار برے لوگ ہیں، ہم نے ان نیک بندوں کی تعلیمات کو یکسر فراموش کردیا۔
علی سردار جعفری کا شعر سن لیجیے اور سمجھ لیجیے!
ہے ہمیشہ سے یہی افسانۂ پست و بلند
حرف باطل زیب منبر، حرف حق بالائے دار
جناب حسینؓ بہت بڑے انسان تھے، ان کی یادیں مناتے ہوئے آج کے یزیدوں کو بھی دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے، حسینؓ نے یزید کے خلاف اس کے کردار کے خلاف جنگ لڑی تھی، ہمیں بھی موجود یزیدوں کے خلاف جنگ ہی لڑنا ہوگی۔ حبیب جالب کے اشعار پر مشتمل سلام حضرت حسینؓ کی خدمت میں:
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
میرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں میرا رخ بدلنے کو
دل ونگاہ میں وہ سر زمین آج بھی ہے
صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ