چوہدری برادران پیپلز پارٹی اور گجرات

چوہدری احمد مختار کے امیدوار بننے پر ق لیگ میاں منظور وٹو کے خلاف اپنا امیدوار نامزد کر سکتی ہے۔


Asghar Abdullah February 24, 2013
[email protected]

یہ امر اب طے شدہ سمجھا جا رہا ہے کہ باوجود متعدد اختلافات کے، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی آیندہ انتخابات مشترکہ طور پر لڑنے جا رہی ہیں۔ یہ ''انتخابی اتحاد'' جو پہلے صرف اُن نشستوں پر ہو رہا تھا، جن پر 2008ء میں دونوں پارٹیاں جیت چکی ہیں، لیکن آثار یہ ہیں کہ اب یہ ''انتخابی اتحاد'' پورے پنجاب پر محیط ہو رہا ہے، اور 2008ء میں جن نشستوں پر ن لیگ جیتی تھی، اُن نشستوں پر بھی متفقہ اُمیدوار کھڑا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ یہ 'متفقہ اُمیدوار' مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے 'رنر اپ ' بھی ہو سکتے ہیں اور 'کوئی اور' بھی، بشرطیکہ ن لیگ کے مقابلہ میں اُن کی پوزیشن زیادہ بہتر ہو۔ پنجاب میں دونوں پارٹیوںکی انتخابی حکمتِ عملی کا ہدف صرف ن لیگ ہے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں پنجاب میں اکثریت حاصل کر لیتی ہیں، تو انتخابات کے بعد پنجاب میں مشترکہ طور پر حکومت سازی کریں گی اور اندازہ یہی ہے کہ پنجاب میں اس 'انتخابی اتحاد' کی کامیابی کی صورت میں وزیرِ اعلیٰ، ق لیگ کا ہو گا۔

چوہدری خاندان اور بھٹو خاندان کے تعلقات کی تاریخ پچھلے پچاس سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ دونوں خاندانوں میں ہمیشہ سے اختلافات رہے ہیں، اور یہ کہ پہلی بار 'لاڑکانہ' اور 'گجرات' ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں، تاہم حالات و واقعات اس کے برعکس ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی کم و بیش اکٹھے ہی ایوب خان دور میں قومی سطح پر نمایاں ہوتے ہیں۔کنونشن لیگ میں ابتدائی طور پر اکٹھے ہی سرگرم ِکار نظر آتے ہیں۔ بھٹو، اگر کنونشن لیگ حکومت کے وزیر ِخارجہ ہیں، تو چوہدری ظہور الٰہی پارلیمانی پارٹی کے جنرل سیکریٹری۔

ان ایام میں بطور وزیر ِخارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، چوہدری خاندان کی ایک شادی میں شریک ہونے کے لیے خصوصی طور پر ظہور پیلس گجرات پہنچتے ہیں۔ چوہدری ظہور الٰہی اور ذوالفقار علی بھٹو آگے پیچھے ہی کنونشن لیگ چھوڑ دیتے ہیں۔ اِدھر نواب آف کالا باغ سے اختلاف پر چوہدری ظہور الٰہی، اُدھر معاہدہء تاشقند پر ذوالفقار علی بھٹو، 'ایوب خان حکومت' سے راستہ الگ کر لیتے ہیں۔ اس پسِ منظر میں عام خیال یہ تھا کہ آیندہ سیاست میں بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی کے راستے کہیں نہ کہیں باہم مل سکتے ہیں۔1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی خواہش تھی کہ گجرات میں چوہدری ظہور الٰہی پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیں۔ چوہدری ظہور الٰہی نے کہا کہ وہ بہر صورت مسلم لیگ کی شناخت برقرار رکھیں گے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر ِاعظم منتخب کر لیے گئے، تو اس کے بعد بھی شروع شروع میں بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی کے سیاسی تعلقات بظاہر اچھے ہی رہے۔ بہت بعد میں یہ ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے، جب بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الٰہی کے درمیان طویل محاذ آرائی کے بعد چوہدری خاندان اور بھٹو خاندان کے درمیان اولین رابطہ 1988ء کے انتخابات کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور بالواسطہ طور پر یہ رابطہ کر رہی ہیں خود محترمہ بے نظیر بھٹو۔ اس طرح چوہدری خاندان اور بھٹو خاندان کے درمیان تعلقات کی از سر ِنو بحالی کا کریڈٹ بہر طور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی، نواز شریف کے خلاف وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا انتخاب لڑنے پر راضی ہوں تو محترمہ بے نظیر بھٹو اُن کی حمایت کریں گی۔ چوہدری برادران رضامند نہیں ہوتے، تاہم ذاتی سطح پر باہمی تعلقات بحال ہو جاتے ہیں۔

نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت (1990ء۔ 1993ء) میں جب بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر پے درپے مقدمات قائم ہو تے ہیں، تو بطور ِوزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین پوری کوشش کرتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو جیل کے اندر اور جیل کے باہر، وہ تمام سہولتیں ملیں، جو اُن کا آئینی اور قانونی حق ہیں۔ پھر، نواز شریف کے دوسرے دور (1997ء ۔ 1999ء) میں چیئرمین احتساب بیورو سیف الرحمان،بے نظیر بھٹو پر دبائو بڑھانے کے لیے آصف علی زرداری پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کی پوری تیاری کر چکے ہیں، لیکن بطور وزیر ِداخلہ چوہدری شجاعت حسین اس جعلسازی کا پول کھول کر یہ سازش ناکام بنا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہء واقعات اس امر کا شاہد ہے کہ چوہدری برادران اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی رواداری کا کلچر بتدریج فروغ پذیر تھا، لہٰذا موجودہ اتحادکوئی اچانک وقوع پذیر ہونے والا واقعہ نہیں۔ اور یہ جو کہانیاں ہیں کہ چوہدری ظہور الٰہی نے وہ قلم لے کر محفوظ کر لیا، جو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی رحم کی اپیل مسترد کرتے وقت استعمال کیا تھا، یہ سب گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔

پرویز مشرف دور میں، جب پنجاب میں چوہدری برادران کی حکومت تھی توبے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کے خلاف کوئی نیا سلسلہء مقدمات شروع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا انتخابی اتحاد اس مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں سر ِدست ن لیگ کا مقابلہ متحد ہو کر ہی کیا سکتا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان پنجاب کی بیشتر نشستوں پر معاملات طے پا گئے ہیں۔ جن اکا دکا نشستوں پر بات چیت جاری ہے، ان میں این اے 105گجرات کی نشست بھی ہے۔ اس نشست پر 2008ء میں چوہدری شجاعت حسین کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ لیکن، قبل ازیں چوہدری شجاعت حسین یہ نشست پانچ مرتبہ جیت چکے ہیں۔ اس نشست پر اس بار نائب وزیر ِاعظم چوہدری پرویز الٰہی اُمیدوار ہیں۔ وہ اس حلقہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر1985ء سے مسلسل کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔

چوہدری احمد مختار چاہتے ہیں کہ یہ نشست چوہدری برادران اُن کے لیے خالی چھوڑدیں۔ لیکن، چوہدری احمد مختار الیکشن لڑیں یا نہ لڑیں، اس امر کا ایک فی صد بھی امکان نہیں کہ چوہدری برادران اس نشست پر الیکشن نہ لڑیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے موجودہ صدر میاں منظور وٹو، جو اس نشست پر چوہدری احمد مختار کی وکالت کر رہے ہیں، 2008ء میں این اے 146 اوکاڑہ پر ق لیگ سے بمشکل جیت سکے تھے۔ میاں منظور احمد وٹو نے 46941، جب کہ ق لیگ کے راؤ محمد اجمل خاں نے 46006 ووٹ لیے تھے۔ مزید یہ کہ اس حلقہ میں میاں منظور احمد وٹو نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا، اور اُن کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ یافتہ امیدوار بھی تھا۔ اس طرح تکنیکی طور پر یہ نشست ' اوپن' قرار پا سکتی ہے۔

مطلب یہ کہ چوہدری احمد مختار کے امیدوار بننے پر ق لیگ اس بنیاد پر میاں منظور وٹو کے خلاف اپنا امیدوار نامزد کر سکتی ہے۔ لیکن یہ صرف تکنیکی بحثیں ہیں، کیونکہ ایک بار انتخابی اتحاد ہونے کے بعد یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی ہے کہ اتحاد میں شامل پارٹیاں، ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اس اصول کے تحت دونوں پارٹیاں، پارٹی لیڈر شپ کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔ بہر حال گجرات، اوکاڑہ، ملتان اور منڈی بہا الدین میں اکا دکا نشستیں کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں، ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے اس قطعی فیصلہ پر اس کا کوئی منفی اثر پڑتا نظر نہیں آ رہا کہ پنجاب میں آیندہ انتخابات ن لیگ کے خلاف مشترکہ طور پر لڑے جائیں گے۔ پنجاب کے اس انتخابی دنگل میں، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف فیکٹر کا فائدہ یا نقصان، کس فریق کو ہو گا، اس پر بحث آیندہ پیر کو ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں