اے پی سی سے کیرانی روڈ تک
دہشت گردی کو طاقت فراہم کرنے والے محترم لوگ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ یہ آسیب نہ قومی ہے نہ علاقائی۔
پاکستان پچھلے دس برسوں سے دہشت گردی کے جس جہنم میں جل رہا ہے، اس میں صوبہ خیبر پختونخوا دو حوالوں سے زیادہ مظلوم ہے۔ اول یہ کہ اسی کے علاقوں میں دہشت گردی کی کاشت ہورہی ہے اور یہی صوبہ سب سے زیادہ قتل وغارت گری کا شکار ہے۔ عام آدمی تو جہاں ہر روز خودکش حملوں، ٹائم بم، بارودی گاڑیوں سے قتل ہو ہی رہا ہے لیکن بات عمومی قتل سے نکل کر اب صوبے کے اہم ترین سیاسی رہنماؤں کے قتل تک پہنچ گئی ہے، خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات کے جواں سال بیٹے کے بعد سینئر وزیر اور اے این پی کے سینئر رہنما بشیر بلور کے قتل نے پختون رہنماؤں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
خیبر پختونخوا سمیت سارے ملک خصوصاً کوئٹہ اورکراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے پیش نظر نہ صرف وفاقی حکومت سیاستدانوں،مذہبی رہنماؤں اور فوجی سربراہوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھتے اور دہشت گردی کے حال اور مستقبل پر سایہ فگن اثرات کا جائزہ لے کر اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دیتے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کی یہ ذمے داری بنتی تھی کہ قوم کی ساری اہم قوتوں کو اکٹھا کرتی،لیکن اسے ہم وفاق کی نااہلی کہیں یاکچھ اور کہ وفاق نے یہ ذمے داری پوری نہیں کی اور خیبر پختونخوا کو یہ ذمے داری پوری کرنا پڑی۔ اس کی کوششوں سے پشاور میں اے پی سی بلائی گئی۔
اس سے قبل کے ہم اے پی سی کے حاصلات اس کی کامیابی اور ناکامی پر نظر ڈالیں، دہشت گردی کی نظریاتی بنیاد اور ملک میں پائے جانے والے متصادم نظریات کا ایک سرسری جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں، پاکستان میں ابھی تک جمہوریت کے نام پر جو وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے، اس نظام نے اپنے مفادات کی خاطر ملک کے پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ بنانے سے گریز ہی نہیں کیا بلکہ پسماندہ فکرکو فروغ دینے کی مسلسل کوشش بھی کی ۔ ضیاء الحق نے امریکی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے ساری دنیا کے دہشت گردوں کو پاکستان میں جمع کیا۔ اس کا حاصل شمالی اور جنوبی وزیرستان کی فکر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ۔ یہ ایک رجعت پسندانہ فکر تھی اس کے مقابلے میں دوسری فکر ترقی پسندانہ ہے جسے بوجوہ ہمیشہ پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی،یہ دو متضاد فکروں کا تصادم ہے۔
پشاور میں منعقد ہونے والی اے پی سی کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب روس کی قیادت میں سوشلسٹ بلاک سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ بننے لگا اور پسماندہ ملکوں میں ترقی پسند نظریات کو فروغ حاصل ہونے لگا تو امریکی سرمایہ کے استعمال کے ذریعے ساری دنیا میں ترقی پسند فکر اور سیکولرزم کے خلاف ایک عالمگیر مہم چلائی گئی کہ ترقی پسندی اور سیکولرزم دونوں نظریات لادینی ہیں اور ان نظریات سے مذہب کو خطرات لاحق ہیں۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک فکری انتشار اور فکری تصادم کا آغاز ہوا حالانکہ امریکا اور اس کی ترقی چند نظریات ہی کی مرہون منت ہے اور امریکا سیکولرزم ہی کی وجہ سے متحد اور مضبوط ہے۔چونکہ مذہبی انتہاپسندی کا بنیادی تعلق پسماندہ فکر ہی سے ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ترقی پسندی اور رجعت پسندی کے فکری تضاد پر بھی ایک نظر ڈالیں، مثال کے طور پر رجعت پسندانہ فکر ''زمین ہی کو کل کائنات سمجھتی ہے'' اور ترقی پسندی ''ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں'' پر یقین رکھتی ہے۔
آج اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اپنی آنکھوں، اپنی زبانوں پر یہی سوال لیے پھر رہے ہیں، لیکن ان کے اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں، میں پشاور میں ہونے والی اے پی سی کے حاصلات پر غور کر رہا تھا۔ ہر لکھاری کا ایک وژن ، ایک فکری پس منظر ہوتا ہے، کسی بھی مسئلے کے تجزیے میں اس وژن، اس فکری پس منظر کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ لکھاریوں کی طرح ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران بھی مختلف بلکہ متضاد فکری پس منظر رکھتے ہیں۔ معاشرے کی رہنمائی کرنے والوں کے اس فکری تضاد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی اہم قومی مسئلے پر بھی اتفاق رائے تک نہیں پہنچ پاتے۔
اس فکری تضاد میں جب سیاسی مفادات، عقائدی اختلافات در آتے ہیں تو عوام دشمن قوم و ملک دشمن طاقتوں کو حوصلہ اور طاقت ملتی ہے، پشاور کی اے پی سی ان ہی فکری تضادات کا شکار رہی اور کسی ٹھوس لائحہ عمل، کسی منصوبہ بند پروگرام تک پہنچنے کے بجائے ایک بچکانہ اور انتہائی احمقانہ اعلامیے پر ختم ہوئی جس کا اظہار ان لفظوں میں کیا گیا کہ ''دہشت گرد طاقتوں سے مذاکرات ہونے چاہئیں''۔ یہ مہان فرض ادا کرکے اے پی سی کے محترم شرکاء اپنے اپنے ''غریب خانوں'' کو چلے گئے اور آنے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے کرپشن اور جوڑ توڑ کی سیاست میں کھوگئے کسی کو یہ خیال نہ رہا کہ دہشت گردی کو ان کے اس بزدلانہ اور مصلحت پسندانہ اعلامیے سے کس قدر طاقت اور حوصلہ ملا۔
اسی طاقت، اسی حوصلے کو ہم کوئٹہ کی ہزارہ بستی اور کیرانی روڈ پر ننگا ناچتے دیکھ رہے ہیں، جہاں ہزارہ والے شیعہ طبقہ فکر کے بچے، بڑے، عورتیں، مرد خون جما دینے والی سردی میں اے پی سی کے ''سفید خون ہولڈروں'' کی عقل اور مفاد پرستی کا ماتم کرتے ہوئے 90 جنازے لے کر تین دن تک بیٹھے رہے، ٹی وی چینل پر شور برپا رہا کہ کیرانی روڈ پر بیٹھے ہوئے بچوں، عورتوں، بوڑھے، جوانوں کے بے آسرا مایوس ہجوم اور ان کے درمیان رکھے 90 جنازوں کی پکار نہ حکمران سن رہے ہیں نہ سیاستدان نہ مذہبی اکابرین۔ چینلوں کی پھٹکار سے گھبرا کر ہمارے محترم وزیر اعظم نے ایک 6 رکنی وفد کوئٹہ کی کیرانی روڈ بھیجا جو فوٹو سیشن اور کچھ جھوٹے وعدے کرکے کچھ مگرمچھ کے آنسو بہاکر اپنی حکومتی ذمے داریاں پوری کرکے چلا گیا اور 90 شہیدوں کے لواحقین لاشوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے انھیں سپردخاک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیا ان لاشوں کے ساتھ ہماری سیاست بھی رزق خاک ہوگئی؟ یہ آج کا سب سے بڑا قومی سوال ہے جو مرنے والوں کی آنکھوں میں اور ان کے لواحقین کی زبانوں پر مچل رہا ہے۔
دہشت گردی کو طاقت فراہم کرنے والے محترم لوگ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ یہ آسیب نہ قومی ہے نہ علاقائی۔ یہ ساری تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو پار کرکے امریکا سمیت کئی ملکوں افریقہ کے کئی شہروں کو روندتا ہوا، چین کے صوبے سنکیانگ، روس کے علاقے داغستان تک جا پہنچا ہے۔ ہم اس کے خلاف ہونے والے ڈرون حملوں کا ماتم کر رہے ہیں اور کیرانی روڈ کوئٹہ پر بیٹھے اور ملک کے درجنوں شہروں میں حکومتی اور سیاسی بے حسی پر دھرنا دیے خواتین وحضرات کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے شہیدوں کے لیے انصاف مانگنے بین الاقوامی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے دروازوں پر دستک دیں گے۔
یہ مایوس لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیٹو کی مدد لیں گے۔ کیا ڈرون حملوں کا ماتم کرنے والوں کے بہرے کانوں میں یہ خوفناک آوازیں پہنچ رہی ہیں؟ کیا سیاسی اندھے ان 90 تابوتوں کو دیکھ رہے ہیں جو کیرانی روڈ پر تین دنوں تک انصاف کے منتظر رہے؟ مجھے ڈر ہے کہ اگر اب بھی ''ذمے دار لوگ'' نیند سے نہ جاگے تو ہر شہر کی سڑک علمدار اور کیرانی روڈ بن جائے گی اور ان سڑکوں پر ''ہزارہوال'' کے بجائے بے حس ''سیاست وال'' کے تابوت رکھے ہوں گے اور ان تابوتوں میں سونے والوں کی آنکھوں میں کوئی سوال نہیں ہوگا، صرف اور صرف شرمندگی ہوگی، پچھتاوا ہوگا۔