فیض کا فیض…
فیض جس نظریے کی رفعت کے قائل ہوئے اسے فنی چابک دستی اور بلحاظ موقع نرمی یا درشتگی سے بیان کر دیا۔
شاعری ذات کے مکمل اظہارکا نام ہے۔ شاعری رد عمل نہیں بلکہ عمل کا نام ہے،کیوں کہ یہ مثبت ہوتی ہے۔ اور رد عمل کی کوئی طاقت کبھی مثبت نہیں ہوا کرتی،کہ اس میں تعصبات عمل انگیز کے طور پر شامل ہوتے ہیں۔
فیض کی شاعری رد عمل کی نہیں بلکہ اپنی ذات کا بر ملا اظہار ہے جس میں مشاہدے کی قوی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور اس میں مشاہدے کا شاعرانہ اظہار بھی موجود ہے ، بہت کم شعرا کو یہ صفت عطا ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ بہت کم شاعر کلاسک کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض احمد فیض اردو ادب کے کلاسک میں شامل ہیں۔ ہم عہد فیض میں جی رہے ہیں ۔اس قول کو حتمی کہا جائے ، مانا جائے یا نہ مانا جائے ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ فیض اس عہد کے سب سے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے کہ علماء اور دانشور بھی ان سے فیض حاصل کرتے ہیں اور بڑے بڑے شعرا بھی آج ان کے کلام سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ فیض کا فیض جاری ہے اور ایک طویل عرصے تک جاری رہے گا ۔
فیض خواب دیکھنے اور دکھانے کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو متحرک تھا اورکچھ کر دکھانا چاھتا تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ ،امن کا مسئلہ انصاف،مساوات،آزادی اور اجتماعی خوشحالی سے منسلک ہے۔ کسی بھی خطے میں ناراض لوگوں کو سماجی انصاف مناسب مواقعے اور مناسب روزگار،انھیں عزت نفس اور تحریر و تقریر کی آزادی فراہم کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
وہ یہ حقیقت جانتے تھے اس ہی لیے انھوں نے ان تمام سیاسی معاملات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا اور اس پیرائے میں بیان کیا کہ انقلاب آزادی نے ایک پری کا روپ دھارا جو ہر گھر کا پھیرا لگائے گی جو محرومیوں اور مجبوریوں کو چین و آرام سے آشنا کرے گی، انسانیت پرستی فیض کے بدن میں لہو کی طرح گردش کرتی تھی ۔ تقسیم کے نتیجے میں کشت و خون نے ان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔
ایک رات لاہور کے مال روڈ پر انھوں نے امان طلب کرتی ہوئی بے آسرا عورت کا رقص بسمل دیکھا ، انسانیت کی اس توہین پر ان کے کنج لب سے ایک نوحہ نکلا جس میں انھوں نے ''یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر،، کی بات کی ہے ان کا یہ نالہ دل گیر اس وقت کے حکمرانوں کے لیے نا قابل برداشت تھا ، ریاستی حلقوں میں فیض ایک ناپسندیدہ شخصیت ٹھہرے ۔ مذہب کے نام پر اپنے ہی گھر اور اپنے ہی شہر میں بے اماں ہوجانے والی عورت جس کا نام بھی وہ نہیں جانتے تھے ، اس کی آہ و بکا نے فیض کے ضمیر کو اس طرح مہمیز کیا اور ان کی شاعری میں انقلابی اور احتجاجی رنگ نمایاں ہوگیا اور اتنا گہرا ہوگیا کہ دنیا نے انھیں انقلابی شاعر مانا، سرکار ان کی منظوم سے نالاں رہتی تھی اور انھیں پابند سلاسل کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی آخرکار پنڈی سازش کیس میں انھیں قید و بند کی صعو بتیں جھیلنا پڑیں۔
فیض نے درد کے سمندر میں شاعری کی، اس شاعری کی اس شناوری میں جو لالہ و مرجان ان کے ہاتھ آئے اس نے ان کی شاعری کو گنج ہائے گراں مایہ بنا دیا۔ آزادی کے لیے بے قراری، وطن کی جدائی اور جلا وطنی، کسی ایک شخص کا تجربہ نہیں اپنے اپنے زمانوں میں اور اپنی اپنی زمینوں میں دنیا کے بہت سے انسان اس کرب سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اہرام مصر کے تعمیر کرنے والے پابہ زنجیر غلاموں کی پشت پر پڑنے والے چابک کی اذیت، پاکستان، ہندوستان، ویت نام، کوریا، فلسطین یا کوئی بھی دوسری سرزمین پر غلامی و بے توقیری کے کوڑے سے لہو لہان ہونے والوں کا درد اور ان کے سینوں سے ابلنے والا طیش کی آتش فشاں کی آگ ایک ہے ۔
فیض کی بڑائی اس میں ہے کہ انھوں نے ان معاملات کو کسی ایک زمین یا کسی ایک زمین کے رہنے والے لوگوں تک محدود نہیں کیا ، اسے گزرے ہوئے زمانے گزارنے والے زمانے اور آنے والے زمانوں تک پھیلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری دل کے درد پر شبنم کی طرح بچھتی ہے اور آزادی کے طلب گاروں کے لیے رجز بن جاتی ہے اور ذہنوں میں انقلاب کاشت کرتی ہے ۔ ان کی انقلابی شاعری کوئلے کی کان میں لگنے والی آگ کی طرح ہے جو دکھائی نہیں دیتی اندر ہی اندر پھیلتی چلی جاتی ہے ۔ اور اس کی تپش سے دھرتی کا سینہ تڑخنے لگتا ہے اور اس پر فر عون کی طرح چلنے والوں غاصبوں کے تلوے جلنے لگتے ہیں ۔
تنہائی کا رنگ ذاتی اور آفاقی ہوتا ہے، فیض تنہائی کے آفاقی رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ذاتی تنہائی کو انسان کی آفاقی تنہائی میں ڈھال دیا۔ انسانی تنہائی کا سب سے ظالمانہ رنگ جلا وطنی ہے انھوں نے جلا وطنی جھیلی تھی اور اسے انھوں نے ''میرے دل میرے مسافر'' میں اردو ادب کا بیش قیمت سفری سرمایہ بنا دیا ۔ان کی شاعری کے اس پہلو پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن روسی دانش ور اور فیض فہم ڈاکٹر میلاد سی لیوا ، نے اس کی تشریح اس طرح کی ہے ۔
وہ لکھتی ہیں کہ '' میرے دل میرے مسافر '' میں ایک اہم پہلو تنہائی کا ہے اس سلسلے میں فیض کے تمام اشعار یاد آتے ہیں جس میں تنہائی کے بارے میں خود کلامی ہے لیکن میرے دل میرے مسافر میں تنہائی کی قطعی دوسری کیفیت سے دوچار دکھائی دیتے ہیں، یہ گھر کی چار دیواری میں بند کردار کی تنہائی نہیں بلکہ ہجوم میں اور آباد شہروں میں بھٹکنے والے انسان کی جان لیوا تنہائی ہے ۔ بڑے شاعر خود کو کبھی محدود نہیں کرسکتے فیض جو بلا شبہ بڑے شاعر ہیں وہ جس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جس جذبے سے مغلوب ہوتے ہیں ، جس نظریے کی رفعت کے قائل ہوئے اسے فنی چابک دستی اور بلحاظ موقع نرمی یا درشتگی سے بیان کر دیا، آزادی کے ہمیشہ علمبر دار رہے ۔ نظم ''صبح آزادی '' فیض احمد فیض کی شہرہ آفاق تخلیق میں سے ایک ہے جو زبان زد عام رہی ہے۔
ان دنوں فیض صاحب لاہور میں مقیم تھے اور ملک کی بدلی ہوئی صورت حال سے واقف تھے، انھیں دکھ تھا کہ پاگل ہاتھوں نے ہیر رانجھا کی محبت بھری سر زمیں میں کشت و خون اور قتل و غارت گری کی روش ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے دھرتی خون سے لال ہوگئی ۔