غم کو اپنا ہتھیار بنایئے…
جوان تھا تو ہر دل کی دھڑکن، کرکٹ کھیلی تو ایسے جھنڈے گاڑے کہ دنیا میں کرکٹ کی پہچان عمران خان تھا.
نواز شریف کی مقبولیت ایک حقیقت ہے، خاندانی وضع داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،روپے پیسے کی بھی کمی نہیں، ایسے میں کون سو چ سکتا ہے کہ نوازشریف کی زندگی میں کبھی کوئی محرومی،دکھ ،پچھتاوا اور غم رہاہوگا، ایک مکمل طور پرکامیاب انسان جس کے نام کے نعرے لگانے والے لاکھوں کی تعداد میں ہوں اور جو دودفعہ ملک کے طاقت ور ترین عہدے پر رہ چکا ہو،کیا مثالی زندگی ہے، یہ سوال اکثر ذہنوں میں آتا ہے کہ ایسے بڑے لوگوں کی زندگی میں کوئی غم بھی ہوتا ہے؟
کسی سیانے کا کہنا ہے کہ جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے، اتنا ہی بڑا اس کا غم ہوتا ہے، راقم کے ذہن میں اکثر یہ سوال آتا تھا کہ نواز شریف کی زندگی میں کیا غم ہے، اس پائے کے انسان کوکبھی کیا مسئلہ ہوا ہوگا، سیاست میں اونچ نیچ کو یہ شخص خاطرمیں لانے والا نہیں ہے، کسی کی وفاداری بدلنے سے اس کو کیا فرق پڑتا ہے،اگرکوئی عہدہ چھن بھی گیا تو نواز شریف کو معلوم ہے کہ پھر اس نے ہی آنا ہے ،کچھ دنوں پہلے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے ایک عجیب بات کہی، ان کا کہنا تھا کہ جب میرے والد کا انتقال ہوا تو میں اور شہباز شریف سعودی عرب میں تھے، ہمیں اپنے والد کاآخری دیدار تک نہیں کرنے دیا گیا، ہم اپنے باپ کی میت کو قبر تک میں نہ اتارسکے، یہ سب بتاتے ہوئے نواز شریف کے لہجے میں عجیب سا کرب تھا، آواز لرز رہی تھی۔
اس تقریرمیں نواز شریف نے پرویز مشرف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب چیزیں سیاست میں نہیں لانی چاہئیں، نواز شریف نے اس دوران اپنے والد کی یادیں بھی تازہ کیں، کہنے لگے کہ جب میں وزیراعظم تھا تو والد کہا کرتے تھے کہ نواز کبھی آٹا مہنگا نہیں کرنا،غریب کو روٹی ملنی چاہیے، نوازشریف نے اپنے خاندان میں والد کے احترام کا بھی ذکر کیا، یہ سب سن کر مجھے لگا کہ میں نے نواز شریف کے دکھ کو ڈھونڈ لیا ہے، ایک ایسا شخص جو ملک کا دودفعہ وزیراعظم رہ چکا ہو، اس کا باپ مر جائے اور وہ دیارغیر میں تڑپتا رہے، اپنے پیارے بابا کا آخری دیدار تک نہ کرسکے، کتنا درد ہے اس احساس میں اور نواز شریف اس احساس سے گزرا ہے،ہرکامیاب آدمی گزرتا ہے، انسان جتنا کامیاب ہوتا ہے، اس کا درد بھی اتنا گہرا ہی ہوتا ہے۔
عمران خان کی بھی کیا آئیڈیل زندگی ہے، جوان تھا تو ہر دل کی دھڑکن، کرکٹ کھیلی تو ایسے جھنڈے گاڑے کہ دنیا میں کرکٹ کی پہچان عمران خان تھا، لڑکیاں اس پر مرتی تھیں، پوری دنیا اس کی دیوانی تھی، وہ سب کا ہیرو تھا، آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ نوجوان جس کی زندگی میں ہر صفحے پر ایک عروج کی داستان لکھی ہے، کیا غم ہوگا اس کی زندگی میں ،ہر قدم پر چاہتیں، اس کے حریف اس پر عاشق تھے، اس کی اداؤں کے دلدادہ تھے، عمران خان... کامیابیوں کی ایک داستان ہے، اس کی آئیڈیل اس کی ماں تھی، بیگم شوکت خانم نے اس کو پڑھنے بھیجا، اس کو اس قابل بنایا کہ وہ دنیا کے دلوں کو فتح کرسکے اور جب یہی ماں کینسر کے ہاتھوں سسک سسک کر مرگئی تو کیاگزری ہوگی عمران خان پر...کیا کوئی سوچ سکتاہے... شوکت خانم عمران خان کی زندگی تھی اور وہی زندگی عمران خان کے سامنے گھل گھل کر ختم ہوگئی،وہ کچھ نہ کرسکا، دنیا کاکامیاب ترین آدمی بے بسی کے عالم میں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال تک بھاگتارہا،لندن ،امریکا ہر جگہ گیا مگر ایک سال۔۔صرف ایک سال میں اس کی آئیڈیل ماں زندگی کی بازی ہار گئی،عمران خان کی ساری صلاحیتیں دھری کی دھری رہ گئیں، سب تعلقات ہوا ہوگئے، وہ اپنی ماں کو کینسرسے نہ بچاسکا، کتنا درد ہے اس احساس میں اور عمران خان اس احساس سے گزرا ہے،ہر کامیاب آدمی گزرتا ہے ، انسان جتنا کامیاب ہوتا ہے ، اس کا درد بھی اتنا ہی گہرا ہوتا ہے
الطاف حسین ایک ایسا کرشماتی لیڈر جو ایسی تحریک کی قیادت کرتا ہے جس کی منزل وہ خودہے، کوئی ہے دنیا میں ایسی مثال ۔ الطاف حسین کو اس کے کارکن پوجتے ہیں، اس کی خاطرجان دینے میں لمحہ بھر بھی ہچکچاہٹ کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، الطاف حسین ایسے لوگوں کا قائد ہے ، جن کے نزدیک اپنے بھائی اور باپ کی بات بعد میں ہے، پہلے الطاف حسین ہے، دنیا میں بہت سے لوگوں کو مقبولیت ملی ہے مگر اس جیسی پذیرائی شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو، یہ سچ ہے کہ الطاف حسین کراچی میں کھمبے کو بھی اپنا امیدوار بنا کرکھڑا کردے تو لوگ اس کو ووٹ دیں، الطاف حسین کو اگر لندن میں چھینک آجائے تو کراچی میں یرحمک اللہ کی آوازیں سنائی دیں، یہ لندن میں بیٹھ کر اشارہ کردے تو کراچی کی نبض تھم جائے، ایک طلسماتی کردار...جس سے کسی کو بھلے سے کوئی بھی اختلاف ہو مگر اس شخص کا اپنے چاہنے والوں سے تعلق مثالی ہے، کیا زندگی ہے۔
وقت کا وزیراعظم بھی اس کی آشیرواد کا منتظر ہے، ہر حکومت کو اس کی حمایت درکار ہے، پاکستان اور الطاف حسین کے درمیان میلوں مسافت ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ یہیں ہے، اس جیسی پذیرائی کا تصورتک محال ہے ، ایک بے انتہاطاقت ور انسان...مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ اس طاقت ور انسان کے بھائی اور بھتیجے کی لاشیں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن سے ملیں، یہ طاقت ور انسان ان کے لیے کچھ نہ کرسکا، اس کے اپنے اس سے جدا کر دیے گئے، جس طاقت کا ابھی آپ نے تصور کیا اب اسی طاقت کے ساتھ اس بے بسی کو بھی ذہن میں لائیے،الطاف حسین اپنوں کو نہ بچا سکا، اس کی طاقت اس کے بھائی اوربھتیجے کو زندگی نہ دے سکی، کتنا درد ہے اس احساس میں اور الطاف حسین اس احساس سے گزرا ہے،ہر کامیاب آدمی گزرتاہے،انسان جتنا کامیاب ہوتا ہے ، اس کا درد بھی اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔
درد اور کامیابی کے درمیان ایک عجیب سا رشتہ ہے، نواز شریف اگراپنے والد ، عمران خان اپنی آئیڈیل ماں اور الطاف حسین اپنے بھائی اور بھتیجے کے درد کو اپنی طاقت نہ بناتے تو آج شاید مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف اورمتحدہ قومی موومنٹ کی یہ طاقت نہ ہوتی، یہ سب اپنے اپنے غموں کو اپنے کلیجے سے لگائے کسی کونے میں آہ وبکا کررہے ہوتے، ان لوگوں کے مقاصد، نظریات، طریقہ کارسے کوئی بھی اختلاف کرسکتاہے مگران کے مقام سے انکارممکن نہیں ،یہ اور ان جیسے تمام کامیاب لوگوں کی زندگی ایک سبق ہے کہ غم کو اپنا ہتھیاربنا کرکیسے جنگ لڑی جاتی ہے، غم کا شکارہونے والوں کا کوئی قصہ نہیں ہوتا، ان کی کوئی کہانی نہیں ہوتی، ان میں کوئی الطاف حسین،عمران خان اور نواز شریف نہیں ہوتا۔
ٹھوکر انسان کو مضبوط کرتی ہے،آگے بڑھاتی ہے اور گرا بھی دیتی ہے، یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے،راقم کی میڈیا میں پہلی نوکری ایک مقامی روزنامے میں لگی، کراچی کے علاقے برنس روڈ پر روزانہ بذریعہ بس دفتر جانا ہوتا تھا، کراچی کی مشہورہری مسجد کے سامنے فٹ پاتھ پر کسی زمانے میں ایک الیکٹرک پول نصب تھا جسے انتظامیہ نے کچھ ایسی بدانتظامی سے اکھاڑا تھا کہ اس پول کا سرا زمین سے قدرے باہر رہ گیا تھا، ایک دفعہ راقم دفتر جارہاتھا کہ اس ابھرے ہوئے حصے سے پیر کو ٹھوکر لگی، خود کوسنبھالنے کی کوشش میں قدموں میں اس قدر تیزی آگئی کہ دس بارہ قدم پھرتی کے ساتھ آگے چلاگیا، جب اوسان بحال ہوئے تو پہلا خیال یہی آیاکہ ٹھوکر انسان کو آگے بڑھاتی ہے، اگر اس سمے حواس خطاکردیتا تو شاید گرجاتا مگر گرنے سے بچنے کی کوشش کے دوران آگے بڑھ گیا اور یہ چھوٹا سا واقعہ زندگی کو ایک اہم سبق دے گیا،اپنی مشکل کو اپنے آگے بڑھنے کا سہارا بنایئے، اس غم کو اپنے اوپر حاوی مت ہونے دیں، یہ آپ کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، آپ کو لگنے والی ہر ٹھوکر ایک ایسی ضرب ہے جو آپ کو تراشتی ہے، غم زندگی کا حاصل ہے،اس سے فرارممکن نہیں، اس سے بھاگیں نہیں،غم کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کریں۔