مذہبی اقلیتوں کے مسائل

سندھ کے عام جاگیرداروں کے نجی قید خانوں سے آزاد ہونے والے 100 فیصد کولھی(دلت) لوگ ملیں گے جوکہ سب ہندو ہیں،


Zuber Rehman February 24, 2013
[email protected]

ویسے تو ہمارے ملک کی اقلیت سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں جو انتہائی ظالم، بزدل اور پسماندہ ذہنیت کے حامل ہیں اور 99 فیصد اکثریت محنت کش عوام ہیں، یعنی یہی پیداواری قوتیں ہیں اور انقلابی فکر رکھتی ہیں۔ مگر یہاں بات ہورہی ہے مذہبی اقلیتوں کی۔ ان میں بھی سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں، مگر یہاں بھی 99 فیصد محنت کش ہیں۔ پاکستان کی 18 کروڑ کی آبادی میں تقریباً ایک کروڑ عیسائی، 50 لاکھ ہندو، باقی سکھ، آتش پرست، جین اور بہائی ہیں۔

عیسائیوں کی تعداد زیادہ پنجاب میں ہے۔ ان میں کاشت کار اور خاکروب ہیں۔ انجمن مزارعین پنجاب کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر کریسٹوفر عیسائی ہیں۔ یہ مزارعین کبھی گرجا میں تو کبھی کسی اور جگہ اپنا اجلاس کرتے رہتے ہیں۔ ان میں کوئی متعصبانہ سوچ بھی نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بہت سے امیر عیسائیوں نے امارت چھن جانے کے بعد روزگار کے لیے لاہور، پنڈی، پشاور اورکراچی کا رخ کیا ۔ بیشتر جگہوں پر خاکروبی کا کام جلد مل گیا، پھر انھوں نے یہ کام شروع کردیا۔ لہٰذا یہ عیسائی خاکروب صدیوں سے خاکروب نہیں ہیں۔ جیساکہ پہلے مسلمان خاکروب نہیں ہوا کرتے تھے، مگر اب کراچی میں مسلمان خاکروب (خاص کر سرائیکی اکثریت میں) کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ ہندو سندھ اور خاص کر تھرپارکر میں ملیں گے۔ یہاں 80 فیصد ہندو ہیں اور ان ہندوؤں میں90 فیصد شیڈول کاسٹ یعنی دلت (محنت کش) ہیں۔ سندھ کے عام جاگیرداروں کے نجی قید خانوں سے آزاد ہونے والے 100 فیصد کولھی(دلت) لوگ ملیں گے جوکہ سب ہندو ہیں، یہاں قدیم آبادی یعنی ہمارے آباؤ اجداد یہی کولھی یعنی دراویڑین ہیں اور انھی کو نیچ ذات کہا جاتا ہے، یہ ہے طبقاتی نظام، برصغیر پاک و ہند میں پہلے طبقاتی نظام نہیں تھا۔ جب آرین یہاں آئے تو اپنے ساتھ اپنا خدا ''براھما'' کو بھی ساتھ لائے۔ ان کے مذہبی عقیدے کے لحاظ سے برھما کے سر سے براھمن یعنی پجاری، سینے سے کھتری یعنی فوج، گھٹنے سے ویش یعنی کسان اور پاؤں سے شودر یعنی دلت لوگ پیدا ہوئے ۔ سندھ میں تو آئے روز کوئی خوبصورت لڑکی اگر کسی جاگیردار کو پسند آجاتی ہے تو اسے لالچ، خوف یا دھونس دھمکی دے کر مسلمان بنانے کا بہانہ بناکر شادی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ گواہوں کی بنیاد پر قانون بھی جاگیرداروں کا ہی ساتھ دیتا ہے۔

نجی جیل سے ہندو ہاریوں کو رہا کرانے کے بعد عدالت انھیں آزاد زندگی گزارنے کی اجازت تو دے دیتی ہے، جب کہ قید کرنے والے جاگیرداروں کو کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ بلوچستان میں تو ہندوؤں خاص کر ہندو تاجروں کو ملیٹینٹ اغواء کرکے اکثر تاوان لے کر چھوڑ دیتے ہیں اور ادا نہ کرنے پر انھیں قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ کام قلات، خضدار، وڈ، مستونگ، کوئٹہ سمیت بیشتر علاقوں میں ہوتا ہے۔ فاٹا کے علاقے میں تقریباً 50 ہزار اقلیت بستی ہے۔ یہ ایک صدی سے یعنی 1914 سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں زیادہ تر عیسائی ہیں، مگر ان کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی ہیں۔ مگر ایک صدی گزرجانے کے باوجود یہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام نے خود متعین کیا ہوا ہے۔ یہ اقلیتیں دیگر قبائلی ایجنسیوں یعنی کرم، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان،اورکزئی، مہمند اور باجوڑ میں عیسائیوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور دیگر بھی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ لگ بھگ ایک صدی سے یہاں آباد ہیں۔ آج انھیں ڈومیسائل کی سہولت میسر نہیں۔ لنڈی کوتل خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے بھی ایک صدی سے یہاں رہائش پذیر ہونے کے باوجود انھیں صرف ریزی ڈینشل سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کو فاٹا کے کوٹے سے داخلہ ملتا ہے اور نہ ملازمت۔

پولیٹیکل ایجنٹ کہتے ہیں کہ یہ لوگ یہاں کے اصلی باشندے نہیں ہیں جب کہ یہ لوگ یہاں ایک صدی سے رہ رہے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد یہیں دفن ہیں۔ انھیں یہاں صرف خاکروبی کی ملازمت تک محدود رکھا گیا ہے جب کہ یہاں کے قبائلی پشاور، اسلام آباد، لاہور، کراچی یا ملک کے دیگر شہروں میں جاکر آباد ہوتے ہیں تو انھیں وہاں کا ڈومیسائل مل جاتا ہے۔ حالانکہ انھیں 2/4 سال کا عرصہ بھی گزارنا نہیں پڑتا۔ یہ کیسی ریاست ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ڈومیسائل نہیں ملتے۔ وفاقی وزارت اقلیتی امور میں ترقیاتی فنڈز چاروں صوبوں میں اقلیتی آبادی کے تناسب سے خرچ کیے جاتے ہیں، اسی طرح چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی اقلیتی برادری کے لیے خصوصی فنڈز رکھے جاتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد سے آج تک وفاقی وزارت اقلیتی امور نے فاٹا میں اقلیتی قبرستان اور کمیونٹی ہالز کی تعمیر کے لیے کوئی فنڈ خرچ کیے ہیں اور نہ وزارت اقلیتی گورنر، سیکریٹریٹ یا پولیٹیکل ایجنٹ کے فنڈ میں قبائلی اقلیتوں کے لیے کوئی فنڈ یا ان کا کوٹہ مقرر کیا ہے۔ فاٹا میں بسنے والی قدیم اقلیتوں کو زمین خریدنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان اقلیتوں کو اپنی رہائش گاہ کے لیے بھی زمین خریدنے کا حق نہیں جب کہ ان کے آباؤ اجداد یہاں کا قومی شناختی کارڈ رکھتے ہیں، ہر کسی کا ووٹ متعلقہ قبائلی ایجنسی میں درج ہے اور ایف بی آر کا اطلاق ان پر بھی کیا جاتاہے۔ 10/15 سال قبل عیسائی خاندانوں کی استانیوں کو کوٹے پر مختلف اسکولوں میں نئی آسامیاں ملنے پر مطمئن کیا جاتا تھا جو آج کل بند ہے۔ اقلیتوں کے ایم این اے، ایم پی اے اور وزراء منتخب نہیں بلکہ نامزد کیے جاتے ہیں، ان کے قبرستان میں مزید جنازے دفنانے کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔

اقلیتوں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ زیر زمین پانی نہیں ہے جب کہ جیولاجیکل سروے نے ثابت کیا ہے کہ یہاں زیرزمین پانی موجود ہے۔ مسئلہ نکالنے کا اور ترسیل کا ہے۔ یہاں اقلیتوں کے لیے زمین کی کمی ہے اور نہ مکان بنانے میں کوئی دقت۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری طور پر انھیں ملکیت کے حقوق اور زمین خریدنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یہاں کے عیسائی اقلیت یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ایک کالونی کے طور پر ساتھ رہیں۔ پورے فاٹا میں اقلیتوں کے لیے کوئی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ نہیں ہے جہاں وہ کوئی ہنروفن حاصل کرکے عوام کی خدمت کرسکیں اور روزگار حاصل کرسکیں۔

متعدد بار فاٹا کی اقلیتوں نے وفاقی وزارت قانون، وزارت داخلہ، سیکریٹری فاٹا، وزارت انسانی حقوق غرضیکہ سب کو یہاں کی اقلیتی برادری کی تنظیم (کاڈس) کرسچیئن اویئرنس اینڈ ڈویلپمنٹ سوسائٹی (Christian Awareness And Devlopment Society) کے رہنما ارشد مسیح نے بارہا اپیلیں اور درخواستیں ارسال کی ہیں، مگر اب تک کوئی مثبت ردعمل نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ فاٹا میں بسنے والے 99 فیصد غریب محنت کش ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے آج بھی محروم ہیں۔ فاٹا کے عیسائی محنت کشوں کو اپنے بنیادی حقوق کے لیے ضرور جدوجہد کرنی چاہیے لیکن ان سب کے مسائل کا واحد حل ایک غیرطبقاتی نسل انسانی کی ایسی برادری کی تشکیل ہو جو انقلاب کے ذریعے امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے جہاں کوئی امیر ہو اور نہ کوئی غریب۔ دنیا اور خطوں کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہو۔ کوئی کسی کی محنت پہ نہ پلے۔

رنگ و نسل، طبقہ، فرقہ، سرحدیں، اسمبلیاں ، صدارت، عدالت، فوج، وکیل، کرنسی نوٹس، جیل اور سرحدی محافظین کا خاتمہ ہوجائے، ہر علاقے میں اپنی ضرورتوں کے مطابق خودکار انجمنیں اپنا اپنا روزمرہ کا کام انجام دیں گی۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق اجناس اور ضروریات زندگی فراہم کی جائے گی اور پیداواری قوتوں کا پیداوار پر قبضہ ہو۔ اس لیے کہ ذخیرہ کیے ہوئے اناج اور غلہ بھوکوں کی امانت ہے۔ جب ذخیرہ نہیں ہوگا تو کوئی بھوکا بھی نہیں مرے گا۔ لوقا کے حوالے سے حضرت عیسیٰ کی ایک حدیث ہے کہ ''تمہاری پلیٹ میں جو روٹی ہے وہ بھوکوں کی امانت ہے''۔ پھر انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کہتا ہے کہ ''قدرت نے ہر انسان کو انسان بنایا۔۔۔۔۔تم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا، مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی، تم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں