اگر ہم عالمی سپر پاور ہوتے

دنیا والو! اب بھی وقت ہے سوچ لو! ہم جیسی قیادت تمہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔


احمد نواز اسحاق October 02, 2017
عالمی سپر پاور کے درجے پر فائز ہونے کے لئے اور بھی بے شمار خوبیوں اور قابلیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

UNITED NATIONS: اگر مستقبل قریب میں سپر پاور ہمارے سپر ہاتھوں لگنے کا تھوڑا سا بھی اندیشہ ہوتا تو آج اِس نام نہاد مہذب دنیا کو یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اِس دنیا کے نظام پر کسی ڈھنگ کے بندے کی حکمرانی ہوتی۔ اِس تلخ حقیقت کے باوجود کہ ہمارا اپنا ہاتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس حوالے کافی تنگ چلا آرہا ہے، خدا کا شکر ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے حالات کبھی اتنے خراب بھی نہیں ہوئے جتنے آج کل بےچاری اکلوتی سپر پاور کے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اِس ضمن میں سنہری بالوں والے بابا جی کی ذہنی حالت دیکھ کر امریکہ کےلیے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ رہی بات اِس کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب سے زائد انسانوں کے پُرامن حال اور مستقبل کی، تو اینگری اولڈ مین کی سلامتی کونسل کی تقریر کے بعد اس کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔

اگر رضائے الہی اور عوام کی دعاؤں سے (محنت سے اور کوششوں چونکہ ایسا ہونا فی الحال تقریباً ناممکن ہے) آج ہم سپر پاور ہوتے تو دنیا میں امن و امان کی صورت حال، اور خصوصاً مسلمانوں کے (جن میں ہم خود بھی شامل ہیں) حالات اس قدر دل شکستہ نہ ہوتے۔ دنیا میں امن و امان اور خوشحالی یوں ناپید نہ ہوتے، عالمی طاقتیں اور انسانیت کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنی پراکسی جنگوں میں ہمارے جیسے ملکوں کو مس یوز کرکے موجیں نہ مار رہے ہوتے۔ برما، کشمیر، شام، عراق، یمن، فلسطین اور دنیا بھر کے بےگناہ انسان خصوصاً کمزور مسلمان، شیطان اور اُس کے چیلوں کے ہر شر سے محفوظ ہوتے۔ نفرت، تعصب اور نسل پرستی کے فرعون اور اُن کے اسپانسرڈ دہشت گرد اِس قدر بے لگام نہ ہوتے۔

دنیا کا امن اور مستقبل ٹرمپ، مودی اور اِس طرح کے دوسرے متعصب، جنونی اور حواس باختہ مسخروں کے ہاتھوں یرغمال نہ ہوتا ۔ آشن وروتھو اور آن سانگ سوچی جیسے درندوں کے ہاتھوں عالمی ضمیر کا منہ یوں باربار کالا نہ ہوتا۔ بلکہ کیا آشن وروتھو، داعش، ٹرمپ، مودی اور اِس طرح کے تمام چھوٹے موٹے سیلف میڈ اور ریڈی میڈ فرعون اب تک باقاعدہ انسان بن چکے ہوتے۔

اگر ہم سپر پاور ہوتے تو آج امریکہ ہمارے ہر معاملے میں یوں سرعام اور کُھلم کھلا ٹانگیں اڑَانے میں اس قدر فراخ دل نہ ہوتا۔ ٹرمپ اینڈ کمپنی اس وقت ہمیں ڈرانے دھمکانے اور الزامات لگانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانک کر شرم سے پانی پانی ہو رہے ہوتے۔ ان حالات میں ہم اپنے دیرنیہ اتحادی کو اپنی شرانگیز پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ شرم سے ڈوب مرنے جیسے مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔

ڈومور کے نام پر دنیا نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے ساری دنیا کو آگے لگایا ہوتا۔ ڈومور امریکہ کرتا اور ہم، ڈو نتھنگ۔ کیا اوبامہ، جارج بش اور ٹرمپ، سبھی ہمارے عظیم لیڈروں کے سامنے تابعدار درباریوں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے نظرآتے۔ آج امریکہ ہمارا دست نگر ہوتا اور ہم اِس کے مالی، سیاسی اور اقتصادی مربی اور سرپرست ہوتے۔

ہم بوڑھے ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے اور وہ آنکھیں جھکا کر، پوری دنیا میں کامیابی سے فساد اور لڑائی جھگڑے کروانے پر ہم امریکہ کو دہشت گردی کے نوبل انعام سے نوازنے کی سفارش کرتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر ہم سپر پاور ہوتے تو عالمی معاملات میں ہمارا کردار بھی بڑا منصفانہ اور غیرت مندانہ ہوتا۔ ہم دنیا کو امن اور جمہوریت کے نام پر اِس قدر ذلیل و خوار نہ کرتے جتنا اِس وقت کیا جارہا ہے۔

ہم عالمی امن کو اتنا ہی سنجیدہ لیتے جتنا غیر سنجیدہ امریکہ (اپنے ملک کے علاوہ) بدامنی اور انتشار کو لیتا ہے۔ حتٰی کہ ہم عالمی امن کےلئے وہ دو چار ضروری کام بھی کر گزرتے جنہیں سوچ کر ہی امریکہ اور دوسری طاقتوں کو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ ان میں سے پہلا کوما میں پڑے ہوئے عالمی ضمیر کو زندہ کرنا، دوسرا مسلمانوں کے معاملے میں بھنگ پی کر سوئی اقوام متحدہ کو ہوش میں لانا، اور تیسرا کام آپس میں برسر پیکار مسلم امہ کو خواب غفلت سے جگانے کا ہے۔

اور اِس ضمن میں ہم خاص طور پر مسلم ممالک کی سوئی غیرت کو جگانے کا خصوصی اہتمام کرتے۔ عالمی بے ضمیروں کو اچھی طرح جھنجھوڑنے اور کلمہ حق کہنے کی اخلاقی جرأت وہی ملک کرسکتا ہے جس کا اپنا ضمیر انسانیت کےلیے پہلے سے ہی زندہ ہو۔ جو اپنے شہریوں کے علاوہ باقی دنیا کے لوگوں کو بھی انسان سمجھتا ہو، جو محض اپنا اسلحہ بیچنے کےلیے دنیا میں نئے نئے تنازعات کےلیے باقاعدہ متحرک، دعاگو اور متمنی نہ رہتا ہو۔ جو صرف اپنی دادا گیری کو برقرار رکھنے کے لیے دنیا کے امن کو خطرے میں نہ ڈال دیتا ہو، اور جو افغاستان اور عراق جیسے ملکوں پر صرف وسائل کی لوٹ مار کےلیے حملہ آور نہ ہوجاتا ہو۔ جو مسلمانوں کےلیے بے تحاشا تعصب نہ رکھتا ہو اور جس کا اپنا وجود پوری دنیا کےلیے مجموعہ شر اور مجموعہ تباہی نہ ہو۔

ہمارے علاوہ اِس میرٹ پر اور کون سا ملک پورا اترتا ہے؟ یہ تو ہم نہیں جانتے، لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ عالمی سپر پاور کے درجے پر فائز ہونے کے لئے اور بھی بے شمار خوبیوں اور قابلیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کاش ہمارے اب تک آنے والے تمام مسیحاؤں نے پاکستان کو اسلام اور انسانیت کا قلعہ کہنے کے ساتھ وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ، دولت مند اور طاقت ور بنانے پر بھی توجہ دی ہوتی۔

کسی اللہ کے بندے نے دو چار عالمی معیار کی یونیورسٹیاں بنائی ہوتیں، خلوص نیت سے سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہوتی، اقتصادی طور پر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے جان ماری ہوتی اور اس طرح چند اور اچھے کام کئے ہوتے تو آج ہم بغیر کسی اگر مگر کے اصل سپر پاور ہوتے۔

اگر آج ہم واقعی سپر پاور ہوتے تو امریکہ کے دل پر کیا گزرتی؟ اس کا تو نہیں معلوم، لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ دنیا اس میں بسنے والے باقی تمام انسانوں کے ساتھ ساتھ خود امریکیوں کےلیے بھی ایک پُرامن جگہ ہوتی۔ لہذا دنیا والو! اب بھی وقت ہے سوچ لو، ہم جیسی قیادت تمہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں