خدمت اور خدمت گزار
جب عمل کرنے سے ہی پہلو تہی کی جائے تو کہاں کی خدمت اور کہاں کے دعوے۔
لفظ ''خدمت'' بظاہر اپنے اندر بڑی عجز و انکساری لیے نظر آتا ہے اور حقیقتاً ایسا ہی ہے کہ خدمت کرنے والے یعنی خدمت گار کے ساتھ ایک ایسا ہی تاثر ابھرتا ہے جو بڑے ادب سے یا خوف سے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور اب جو بھی انھیں حکم دیا جائے گا سر جھکائے بلاچوں و چراں کیے بجا لائیں گے۔ پرانے بادشاہوں کے زمانے سے لے کر آج تک خدمت گزاروں اور خدمت کے معنوں میں ویسے تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی لیکن اسے جس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر دل جلتا ہے۔
مثلاً ہمارے سیاست دان جو خیرسے بڑی بڑی ایئرکنڈیشنز گاڑیوں میں پہرے داروں یا خدمت گزاروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں، اچھا کھانے اور تعیشات کے ساتھ مزے کی زندگی گزارنے کے باعث ان کے چہروں کی رنگت کھلی جاتی ہے اور وزن میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے اور ان میں سے اکثریتی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جیسے وہ جدی پشتی خاندانی اور رئیس بھی ہیں جب ڈائس پر کھڑے ہوکر غریب عوام کے سامنے ہاتھ لہرا لہرا کر تقریر کرتے عوام کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کس قدرعجیب سا لگتا ہے۔
الفاظ میں خدمت کے سحر سے نکل کر جب عمل کرنے تک بات آتی ہے تو سارے دعوے بھک سے اڑ جاتے ہیں کیونکہ دراصل عمل میں نیک نیت، عزم اور ارادے کا شامل ہونا بھی ضروری ہے اور جب عمل کرنے سے ہی پہلو تہی کی جائے تو کہاں کی خدمت اور کہاں کے دعوے۔ ہمارے معاشرے میں خدمت گزاروں کی لمبی فہرست ہے۔ ہم اکثر اس خدمت کی فہرست میں بڑے بڑے نام دیکھتے ہیں۔
جب جنید جمشید کا انتقال ہوا تو ان کے چاہنے والوں کے ساتھ گلوکاروں نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا اور ظاہر ہے کہ جس انداز سے جنید اس دنیا سے رخصت ہوئے وہ بہت اذیت ناک تھا، ایک گلوکار جو ماضی میں پاپ میوزک کے حوالے سے مشہور تھے اوران کی اسلامی قلب ماہیت بے مثال انداز میں ہوئی۔تاہم ان کے ساتھی فنکار جو اب کینیڈا میں مقیم ہیں اپنے اس دکھ کو کسی ایسے ہی ٹاک شو یا تعزیتی پروگرام میں شیئر کرتے ہوئے اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ انھیں جنید کی موت کا بہت دکھ ہوا اور وہ انھیں زندگی بھر بھلا نہیں سکتے وغیرہ وغیرہ۔
میزبان نے پوچھا کہ اچھا آپ بتائیے کہ آپ آج کل کینیڈا میں کیا کر رہے ہیں؟ موصوف جو بقول ان کے گلوکاری چھوڑ چکے ہیں فرماتے ہیں کہ ہم یہاں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اس خدمت میں ان کے لیے کس حد تک بھلائی ہے پھر اس کا واویلا کرنا عجیب سی بات ہے ۔
ہمارے یہاں اکثر حضرات جن کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے یہ لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں ۔ خدا جانے اس خدمت کا استعمال پہلی بار کس موصوف نے کیا تھا مثلاً بہت سے آرٹسٹ ساری زندگی اپنی مرضی سے ٹی وی اسٹیشن کے چکر لگاتے رہے، فلم اسٹوڈیوز کی خاک چھانتے رہے، اداکاری کرنا ان کا اپنا شوق اپنا جنون ہے۔ آپ ذرا سوال کرکے تو دیکھیے کہ بھائی صاحب! آپ کو اتنے برسوں اس نگری کی خاک چھان کر کیا ملا، تو آپ کو جواب ملے گا۔ ہم تو جی فن کی خدمت کر رہے تھے۔
چاہے اس خدمت کی چکی میں اس فنکار کے گھر والے پستے پستے تھک چکے ہوں۔ بیوی اپنے بچوں کو لے کر میکے چلی گئی ہو، مکان مالک نے گھر کا سامان سڑک پر پھینک دیا ہو، دوستوں نے قرض نہ دینے کی علت سے بچنے کے لیے سلام دعا بھی ترک کردیا ہو لیکن جواب میں فن کی خدمت شامل ہی رہے گا۔
ویسے اب تو ٹی وی چینلز کی بھرمار نے خدمت کے معنوں میں خاصی وسعت پیدا کردی ہے۔ یعنی اس خدمت میں جس کی قسمت چمک جائے پھر کچھ اس طرح بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ فلاں فلاں کی عمر، تعلیم اور ماہانہ آمدنی سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ہم نے سوچا کہ ذرا دیکھیں تو کس قدر ہوش اڑتے ہیں تو کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا کہ حساب کتاب کرنے والے نے خوب باریک بینی سے خدمت گزاری کا معاوضہ تحریر کیا تھا اور اس معاوضے کو پڑھ کر اب لوگوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ کوئی بری بات تو ہے نہیں۔ فن کی خدمت کر رہے ہیں۔
اتنی ساری خدمتوں میں ادب کی خدمت بھی تو ہے۔ کچھ عرصے پہلے ہم بھی اس قسم کی خدمت سے متاثر ہوکر کسی کی تحریر کردہ ناولز خریدنے پہنچ گئے۔ اب خریدے تھے تو سوچا پڑھ بھی ڈالیں۔ خیر جیسے تیسے کرکے پڑھ لیے، پھر ایک شوقین کو بھی یہ کتابیں تھما دیں کہ اس سے استفادہ کریں یقین جانیے شروع کے چند صفحات پڑھ کر ہی لوٹا دی گئیں ۔
خیر اب کیا کہیں کہ ادب کی خدمت کا ذکر بھی تھا تو موصوف اپنی مرضی سے اپنے شوق سے اسٹیج پر اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھاتے ہیں۔ دھڑا دھڑ کتابیں بھی لکھتے ہیں اور ان سارے ادبی کاموں کے علاوہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ کام بھی کرتے ہیں ۔ آمدنی قلیل ہے، بچے زیادہ ہیں ماشا اللہ! کرائے کا گھر ہے، ان کا شوق اور لگن دیکھ کر تو ہم بھی بہت متاثر ہوئے تھے اسی لیے تو ان کی تحریر کردہ ناولز خریدنے بھی پہنچ گئے تھے لیکن جب بات ادب کی خدمت کی ہوتی ہے تو کوفت سی سوار ہوجاتی ہے۔
اب ذکر ہوجائے مشہور شاعر فانی بدایونی کا جن کا تقابل تو ان خدمت گزار قسم کے ادیب سے ہرگز نہیں کیا جاسکتا لیکن عظیم لوگوں کی بڑی باتیں۔ فانی کی رفیق حیات کا جب انتقال ہوا تو فانی کے پاس ان کی تجہیز و تکفین کے لیے بھی کچھ نہ تھا کہ ساری جمع پونجی ان کے علاج پر صرف ہوچکی تھی ایسے موقعے پر ان کے ایک مخلص جاگیردار دوست نے ان کی مددکرنا چاہی تو فانی نے بجائے اس کے کہ شکریہ کے ساتھ قبول فرماتے اپنے خاص انداز میں فرمایا ''آپ ایسے نازک موقعے پر مجھ کو خریدنا چاہتے ہیں آپ کی اس محبت کا بے حد ممنون ہوں۔
اگر آپ کومیری مدد کرنی ہی منظور ہے تو آپ یہ کرسکتے ہیں کہ عرفانیات فانی (جو اس وقت تازہ شایع ہوئی تھی) کے چند نسخے خرید لیں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا ان کتابوں سے جو روپیہ جمع ہوا اس سے تجہیز و تکفین ہوئی ایسے نازک لمحات اور اتنی کردار کی انفرادیت یہ ایک عظیم شاعر ہی کرسکتا تھا شاید اسی لیے آج بھی ہم سب فانی بدایونی کے نام کو خوب پہچانتے ہیں۔فانی بدایونی کا شعر ہے،
دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا