ایسی شکست ناقابل قبول ہے
سری لنکا سے شکست نے پی سی بی کی پالیسیز کو بھی ایکسپوزکردیا
KARACHI:
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سری لنکا جیسی مسائل میں گھری ٹیم کے خلاف 136 رنز کا آسان ترین ہدف بھی عبور نہیں ہوگا، مجھے لگتا تھا کہ ایک، دو وکٹیں گنوا کر آسانی سے میچ جیت جائیں گے، مگر بیٹنگ کی روایتی تباہی دیکھ کر افسوس سے زیادہ غصے کا احساس ہوا، میں محسوس کر سکتا ہوں کہ اس وقت ایک عام کرکٹ شائق کی کیا حالت ہو گی، سوشل میڈیا پر سب دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور انھیں اس کا حق بھی حاصل ہے، یہ شکست واقعی ناقابل قبول ہے، اوپننگ سے لے کر آخر تک سب کچھ غلط ہوا، یہ درست ہے کہ چوتھی اننگز میں پچ بیٹنگ کیلیے آسان نہیں تھی مگر آپ کو قومی ٹیم کی نمائندگی کیلیے کروڑوں روپے ملتے ہیں، اچھا کھیلیں تو سپراسٹار کا اسٹیٹس بھی مل جاتا ہے، اس کے بعد ہر قسم کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا عادی ہونا چاہیے مگر بیٹسمین انجانے خوف کا شکار دکھائی دیے، شان مسعود پہلی اننگز میں نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے مگر جس طرح سوئپ شاٹ کھیلتے ہوئے بولڈ ہوئے اس سے تکنیکی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے، دوسری باری میں تو وہ بالکل ہی نہ چل سکے، سمیع اسلم نے بھی سخت مایوس کیا۔
پاکستان گزشتہ 15ٹیسٹ میں 6 اوپننگ پیئرز آزما چکا اس سے اندازہ لگا لیں کہ اس شعبے میں کتنے مسائل کا سامنا ہے، اظہر علی نے پہلی اننگز میں اچھی بیٹنگ کی مگر جب ضرورت تھی تو صفر پر وکٹ گنوا بیٹھے،اسی طرح اسد شفیق اور بابر اعظم بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، یوں صرف 36 رنز پر آدھی ٹیم رخصت ہو گئی، اس سے ایک بات واضح ہو چکی کہ دباؤ کی صورتحال میں ہمارے بیٹسمینوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، حارث سہیل اور سرفراز کی شراکت سے امیدیں زندہ ہوئیں مگر کپتان اسٹمپڈ ہو کر انھیں دوبارہ توڑ گئے، جب اسپیشلسٹ بیٹسمین کچھ نہ کر پائیں تو ٹیل اینڈرز سے کیا توقعات رکھیں، حارث سہیل نے تھوڑی جدوجہد کی پھر وہ بھی چلتے بنے، یوں فتح کا سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا، مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ینگ ٹیلنٹ سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ ابتدائی آزمائش میں تو ان پر پورا نہ اتر سکے، حالیہ کارکردگی کے لحاظ سے سری لنکن ٹیم اب زمبابوے سے اوپر ہی آتی تھی، میچ فکسنگ تنازعات و مسلسل شکستوں نے کھلاڑیوں کا اعتماد بیحد کم کردیا۔
کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردنے کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بیٹنگ لائن سیٹ نہیں ہو سکی، رواں سال سری لنکن ٹیم 8میں سے 6 ٹیسٹ میں ناکامی کا شکار ہوئی تھی، اب نویں میچ میں تیسری فتح ہاتھ آئی، ان سے قبل2 فتوحات بنگلہ دیش اور زمبابوے کیخلاف ملی تھیں، بنگال ٹائیگرز نے گال کے ہوم گراؤنڈ پر آئی لینڈرز کو 259 رنز سے زیر کیا تھا، اس کے باوجود پاکستانی ٹیم اپنے مضبوط قلعے ابوظبی میں اسے قابو نہ کر سکی جو افسوسناک ہے، بظاہر مضبوط بولنگ اٹیک کیخلاف سری لنکا نے پہلی اننگز میں419 رنز بنائے، یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ تھا، سب جانتے ہیں کہ یو اے ای کی وکٹوں پر فاسٹ بولرز سر پٹختے رہتے ہیں، اسپنرز کا زیادہ اہم کردار ہوتا ہے، اس کے باوجود ابوظبی میں سارا بوجھ اکیلے یاسر شاہ پر ڈالا گیا،انھیں بولنگ مشین کی طرح استعمال کیا گیا، پہلی اننگز میں57 ،دوسری میں27 یعنی مجموعی طور پر 84 اوورز کرائے گئے، اگر ایسا ہوتا رہا تو جلد ہی وہ گھٹنہ یا کمرپکڑ کر بیٹھ جائیں گے پھر ٹیسٹ کیسے جیتے جا سکیں گے؟
یاسر نے دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں لے کر فتح کا چانس بنایا جس سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا، اگر ایک اور اسپنر ساتھ ہوتا تو شاید مہمان ٹیم بڑا اسکور نہ بنا پاتی،کوچ مکی آرتھر شکوہ کر رہے ہیں کہ جیسی پچ کا کہا تھا وہ نہیں ملی یہ پی سی بی حکام کیلیے سوچنے کا مقام ہے، یو اے ای میں اتنی بھاری رقوم خرچ کرنے کے بعد من پسند پچ بھی نہ ملے تو کھیلنے کا کیا فائدہ، میچ میں عامر اور حسن علی پیس بولنگ کا جادو نہ جگا سکے البتہ عباس نے بہتر بولنگ کی، سلیکشن معاملات پر پہلے بھی کئی بار کہا جا چکا، اس وقت ملک میں میرٹ کا جو قتل عام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے کرکٹرز گراؤنڈ میں خود سوزی تک کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، انضمام الحق نے تین برس کے دوران ڈومیسٹک کرکٹ کے تیسرے کامیاب ترین بیٹسمین فواد عالم کو موقع نہ دیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ معاملات کس ڈگر پر چل رہے ہیں، حارث سہیل پر اتنا اعتماد کہ تین سال فرسٹ کلاس کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود ٹیم میں لے آئے اور جس کی پرفارمنس آنکھوں کے سامنے ہے اسے نولفٹ، یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
حارث نے اچھا پرفارم کیا مگر اس کی آڑ لے کر سلیکشن کمیٹی کے غلط فیصلوں کو چھپایا نہیں جا سکتا،میچ میں سرفراز احمد کی کپتانی بھی اتنی متاثر کن نہ رہی، انھیں آہستہ آہستہ ہی اندازہ ہوگا کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے مقابلے میں ٹیسٹ بالکل الگ فارمیٹ ہے، اس میں بولنگ میں تبدیلیاں و دیگر معاملات میں الگ سوچ اپنانا پڑتی ہے، لوگ مصباح پر تنقید کرتے تھے کہ دفاعی انداز اپناتے ہیں،مگر جارح مزاج سرفراز کی آمد سے بھی کوئی فرق دکھائی نہیں دیا، پہلی اننگز میں ٹیم نے بیحد دفاعی انداز اپنایا، اب لوگ چار روزہ ٹیسٹ کھیلنے والے ہیں اور ہم ابھی تک ماضی کی کرکٹ میں پھنسے ہیں، یہ نہیں کہ ہر گیند پر اندھا دھند شاٹس کھیلیں مگر دیگر ٹیموں کا انداز تو اپنانا چاہیے، یہ دفاعی انداز بعض اوقات بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔
شکست نے پی سی بی کی پالیسیز کو بھی ایکسپوزکردیا، نجم سیٹھی ٹی ٹوئنٹی سے پیسہ کمانے کے چکر میں ٹیسٹ فارمیٹ کو نظر انداز کر رہے ہیں، آپ سری لنکا جیسی ٹیم کو نہ ہرا پائیں تو سمجھ لیں کوئی بہت بڑی گڑبڑ ہے، اسے جلد درست نہ کیا گیا تو بڑی ٹیموں کے خلاف تو مزید مسائل کا سامناکرنا پڑے گا۔ خیر ابھی ایک ٹیسٹ باقی ہے، ٹیم کو خامیاں درست کرتے ہوئے دبئی میں فتح حاصل کرنی چاہیے تاکہ زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جا سکے۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سری لنکا جیسی مسائل میں گھری ٹیم کے خلاف 136 رنز کا آسان ترین ہدف بھی عبور نہیں ہوگا، مجھے لگتا تھا کہ ایک، دو وکٹیں گنوا کر آسانی سے میچ جیت جائیں گے، مگر بیٹنگ کی روایتی تباہی دیکھ کر افسوس سے زیادہ غصے کا احساس ہوا، میں محسوس کر سکتا ہوں کہ اس وقت ایک عام کرکٹ شائق کی کیا حالت ہو گی، سوشل میڈیا پر سب دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور انھیں اس کا حق بھی حاصل ہے، یہ شکست واقعی ناقابل قبول ہے، اوپننگ سے لے کر آخر تک سب کچھ غلط ہوا، یہ درست ہے کہ چوتھی اننگز میں پچ بیٹنگ کیلیے آسان نہیں تھی مگر آپ کو قومی ٹیم کی نمائندگی کیلیے کروڑوں روپے ملتے ہیں، اچھا کھیلیں تو سپراسٹار کا اسٹیٹس بھی مل جاتا ہے، اس کے بعد ہر قسم کی کنڈیشنز میں کھیلنے کا عادی ہونا چاہیے مگر بیٹسمین انجانے خوف کا شکار دکھائی دیے، شان مسعود پہلی اننگز میں نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے مگر جس طرح سوئپ شاٹ کھیلتے ہوئے بولڈ ہوئے اس سے تکنیکی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے، دوسری باری میں تو وہ بالکل ہی نہ چل سکے، سمیع اسلم نے بھی سخت مایوس کیا۔
پاکستان گزشتہ 15ٹیسٹ میں 6 اوپننگ پیئرز آزما چکا اس سے اندازہ لگا لیں کہ اس شعبے میں کتنے مسائل کا سامنا ہے، اظہر علی نے پہلی اننگز میں اچھی بیٹنگ کی مگر جب ضرورت تھی تو صفر پر وکٹ گنوا بیٹھے،اسی طرح اسد شفیق اور بابر اعظم بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، یوں صرف 36 رنز پر آدھی ٹیم رخصت ہو گئی، اس سے ایک بات واضح ہو چکی کہ دباؤ کی صورتحال میں ہمارے بیٹسمینوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، حارث سہیل اور سرفراز کی شراکت سے امیدیں زندہ ہوئیں مگر کپتان اسٹمپڈ ہو کر انھیں دوبارہ توڑ گئے، جب اسپیشلسٹ بیٹسمین کچھ نہ کر پائیں تو ٹیل اینڈرز سے کیا توقعات رکھیں، حارث سہیل نے تھوڑی جدوجہد کی پھر وہ بھی چلتے بنے، یوں فتح کا سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا، مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ینگ ٹیلنٹ سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ ابتدائی آزمائش میں تو ان پر پورا نہ اتر سکے، حالیہ کارکردگی کے لحاظ سے سری لنکن ٹیم اب زمبابوے سے اوپر ہی آتی تھی، میچ فکسنگ تنازعات و مسلسل شکستوں نے کھلاڑیوں کا اعتماد بیحد کم کردیا۔
کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردنے کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بیٹنگ لائن سیٹ نہیں ہو سکی، رواں سال سری لنکن ٹیم 8میں سے 6 ٹیسٹ میں ناکامی کا شکار ہوئی تھی، اب نویں میچ میں تیسری فتح ہاتھ آئی، ان سے قبل2 فتوحات بنگلہ دیش اور زمبابوے کیخلاف ملی تھیں، بنگال ٹائیگرز نے گال کے ہوم گراؤنڈ پر آئی لینڈرز کو 259 رنز سے زیر کیا تھا، اس کے باوجود پاکستانی ٹیم اپنے مضبوط قلعے ابوظبی میں اسے قابو نہ کر سکی جو افسوسناک ہے، بظاہر مضبوط بولنگ اٹیک کیخلاف سری لنکا نے پہلی اننگز میں419 رنز بنائے، یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ تھا، سب جانتے ہیں کہ یو اے ای کی وکٹوں پر فاسٹ بولرز سر پٹختے رہتے ہیں، اسپنرز کا زیادہ اہم کردار ہوتا ہے، اس کے باوجود ابوظبی میں سارا بوجھ اکیلے یاسر شاہ پر ڈالا گیا،انھیں بولنگ مشین کی طرح استعمال کیا گیا، پہلی اننگز میں57 ،دوسری میں27 یعنی مجموعی طور پر 84 اوورز کرائے گئے، اگر ایسا ہوتا رہا تو جلد ہی وہ گھٹنہ یا کمرپکڑ کر بیٹھ جائیں گے پھر ٹیسٹ کیسے جیتے جا سکیں گے؟
یاسر نے دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں لے کر فتح کا چانس بنایا جس سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا، اگر ایک اور اسپنر ساتھ ہوتا تو شاید مہمان ٹیم بڑا اسکور نہ بنا پاتی،کوچ مکی آرتھر شکوہ کر رہے ہیں کہ جیسی پچ کا کہا تھا وہ نہیں ملی یہ پی سی بی حکام کیلیے سوچنے کا مقام ہے، یو اے ای میں اتنی بھاری رقوم خرچ کرنے کے بعد من پسند پچ بھی نہ ملے تو کھیلنے کا کیا فائدہ، میچ میں عامر اور حسن علی پیس بولنگ کا جادو نہ جگا سکے البتہ عباس نے بہتر بولنگ کی، سلیکشن معاملات پر پہلے بھی کئی بار کہا جا چکا، اس وقت ملک میں میرٹ کا جو قتل عام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے کرکٹرز گراؤنڈ میں خود سوزی تک کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، انضمام الحق نے تین برس کے دوران ڈومیسٹک کرکٹ کے تیسرے کامیاب ترین بیٹسمین فواد عالم کو موقع نہ دیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ معاملات کس ڈگر پر چل رہے ہیں، حارث سہیل پر اتنا اعتماد کہ تین سال فرسٹ کلاس کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود ٹیم میں لے آئے اور جس کی پرفارمنس آنکھوں کے سامنے ہے اسے نولفٹ، یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
حارث نے اچھا پرفارم کیا مگر اس کی آڑ لے کر سلیکشن کمیٹی کے غلط فیصلوں کو چھپایا نہیں جا سکتا،میچ میں سرفراز احمد کی کپتانی بھی اتنی متاثر کن نہ رہی، انھیں آہستہ آہستہ ہی اندازہ ہوگا کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کے مقابلے میں ٹیسٹ بالکل الگ فارمیٹ ہے، اس میں بولنگ میں تبدیلیاں و دیگر معاملات میں الگ سوچ اپنانا پڑتی ہے، لوگ مصباح پر تنقید کرتے تھے کہ دفاعی انداز اپناتے ہیں،مگر جارح مزاج سرفراز کی آمد سے بھی کوئی فرق دکھائی نہیں دیا، پہلی اننگز میں ٹیم نے بیحد دفاعی انداز اپنایا، اب لوگ چار روزہ ٹیسٹ کھیلنے والے ہیں اور ہم ابھی تک ماضی کی کرکٹ میں پھنسے ہیں، یہ نہیں کہ ہر گیند پر اندھا دھند شاٹس کھیلیں مگر دیگر ٹیموں کا انداز تو اپنانا چاہیے، یہ دفاعی انداز بعض اوقات بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔
شکست نے پی سی بی کی پالیسیز کو بھی ایکسپوزکردیا، نجم سیٹھی ٹی ٹوئنٹی سے پیسہ کمانے کے چکر میں ٹیسٹ فارمیٹ کو نظر انداز کر رہے ہیں، آپ سری لنکا جیسی ٹیم کو نہ ہرا پائیں تو سمجھ لیں کوئی بہت بڑی گڑبڑ ہے، اسے جلد درست نہ کیا گیا تو بڑی ٹیموں کے خلاف تو مزید مسائل کا سامناکرنا پڑے گا۔ خیر ابھی ایک ٹیسٹ باقی ہے، ٹیم کو خامیاں درست کرتے ہوئے دبئی میں فتح حاصل کرنی چاہیے تاکہ زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جا سکے۔