دریائے نیل تیار ہے
پاکستان وہی رہے گا، قدریں بدلیں گی، ذہن بدلیں گے، ظلم ختم ہوگا اور لوگ اطمینان کا سانس لیں گے
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان مملکت خداداد ہے تو یہ بات بہت سے لوگوں کو کھٹکتی ہے اور وہ بڑبڑاتے ہیں اور اس بات کو غیر اہم سمجھتے ہیں، اس میں وہ لوگ بھی ہیں جو قیام پاکستان کے وقت خالی ہاتھ آئے تھے کیونکہ وہاں بھی کچھ نہیں تھا اور جن کے پاس تھا اور جو لٹے برباد ہوئے اس تقسیم کے سبب وہ خاموشی سے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو کہیں ملازم ہوگئے اور اس مملکت نے انھیں بھی روزی روٹی دے دی۔
دوسرا گروپ وہ ہے چاروں صوبوں میں، جس نے نقل مکانی کرنیوالے غیر مسلموں کی زمین جائیداد پر قبضہ کرلیا اور سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اور نہ جانے کیا کیا بن بیٹھے۔ سندھ اسمبلی میں سیاست دان خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جو درست عمل نہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے اور ان لوگوں کی ''حب الوطنی'' بھی تذکرے کے قابل ہے۔ یہ 20 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے کسی کے والد صاحب کی جاگیر نہیں ہے!
حکمرانوں سے خدا حساب ضرور لے گا ۔ اعلیٰ عہدوں پر انتہائی کرپٹ لوگ لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ اعتراض نہ کرسکیں اور تلوے چاٹتے رہیں ان کے۔ ان کی صفوں میں سے یہ بات آئی کہ انھیں پارٹی میں غلام چاہئیں۔ پاکستان کے آگے بڑھنے کے لیے اس کے مزید صوبے بننے چاہئیں تاکہ صوبائی آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مزید صوبے بن کر نہ پاکستان کی زمین تقسیم ہوگی نہ لوگ، سب اپنی جگہ رہیں گے۔ ''کھانے کمانے'' کا سیاسی دھندا ختم ہوجائیگا۔
ملک کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، نمائشی علاقوں سے پاکستان دکھایا جاتا ہے، اصل پاکستان اس کے پیچھے ہے، دیہاتوں میں بیت الخلا تک کا تصور کم کم ہے، سندھ کے واہی پاندھی کے علاقے نہیں، ہم یہ دیکھ آئے ہیں ابھی تک وہاں یہ تصور پختہ نہیں ہوا ہے۔کھیتوں میں آبرو ریزی کے واقعات اب تک رپورٹ ہورہے ہیں۔
سسٹم قائم ہے، غریب عدالت نہیں پہنچ سکتا، اس کے راستے محدود ہیں، کہاں تک سوموٹو لیا جائے، عدالت تک بھی سارے سلامت نہیں پہنچ پاتے، وہ کیا کرے۔
ایک سیاسی چال یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد سے بھی شاید زیادہ ہے، اس وجہ سے وہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں زیادہ ہیں اس وجہ سے پاکستان پر حکمرانی کا حق مستقلاً پنجاب کے پاس ہے، اقتدار کی بندر بانٹ ہے اور مسلم لیگ تو اب اس کے لیے بھی تیار نہیں، بس ہماری باری، ویسے بھی سندھ سے آنے والے وزرائے اعظم بھی ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکے، کیونکہ کرنا وہی پڑتا ہے جو پنجاب کے سیاسی اکابرین چاہتے ہیں۔ اکابرین کا لفظ اب عام ہے۔
پاکستان کی ترقی اس 60 فیصد کو تقسیم کرنے میں پوشیدہ ہے، صرف لاہور، اسلام آباد پاکستان نہیں ہے، ملتان، بہاولپور بھی پاکستان ہیں، دو صوبائی اسمبلی بننے سے پنجاب کا فائدہ ہوگا عوام کا کام ان کے مسائل حل ہوں گے، احمد پور شرقیہ نہیں ہوگا۔
حالانکہ زیادہ صوبے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر موجودہ سیاسی قیادتیں ایسے نہیں مانیںگی اور آنے والی نسلیں اس غلط فیصلے پر ان کی مذمت کریںگی۔ ملک بدل رہا ہے ،جو آج ہیں وہ بھی جائیں گے، اب فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں، وہاں جہاں کی لاٹھی بے آواز ہے، چل پڑی ہے لاٹھی اور سب کچھ درست کرکے ہی رکے گی، کوئی نہیں روک سکے گا، کس نے سوچاتھا کہ عدالت نکال دے گی، ابھی اور لوگ نکالے جانے والے ہیں۔
''اقامہ'' سنبھال کر رکھیں، آخر اس کی ضرورت پڑے گی، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ میں کیا کروں مجھ سے Safe Column نہیں لکھا جاتا، میں گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھ سکتا، نہ گل کی کوئی قدر ہے نہ بلبل آزاد۔
شاید یہ باتیں لوگوں کو عجیب لگیں مگر حقیقت میں خون ناحق بول رہا ہے اور اللہ پاک نے دراز رسی کھینچنے کا فیصلہ کرلیا ہے، کوئی زر والانہ بچے گا ۔ پاکستان کی دولت پاکستان کو واپس مل جائے، خدا کرے مل جائے تو قرضوں سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
یہ ملک غریب نہیں ہے، کیا نہیں ہے اس میں، بے ایمانوں نے ملک کو لوٹا اور لوٹ رہے ہیں، ریلوے کی پٹڑیاں، باؤنڈری میں چلی گئیں کسی نہ کسی راستے سے، ملک پر مافیا کا راج ختم ہونے والا ہے، چند برس کی بات ہے اندھیرے چھٹ جائیں گے، مودی اور اس کے ہمدردوں کو شکست ہونی ہے ہوکر رہے گی، پاکستان کو دنیا میں ابھرنا ہے ضرور ابھرے گا اس ملک کو غیروں نے نہیں اپنوں نے زخموں سے چور چور کیا ہے۔
مگر قدرت کا فیصلہ سامنے ہے، سارے حساب کھلیں گے سب کے حساب کھلیں گے اور دیکھا جائے گا کس نے کیا کیا؟ اور کون کیاکر رہا ہے۔
پاکستان وہی رہے گا، قدریں بدلیں گی، ذہن بدلیں گے، ظلم ختم ہوگا اور لوگ اطمینان کا سانس لیں گے وہ سچی صبح تو ضرور آئے گی، یہ ایمان بھی ہے اور یقین بھی۔ اس پستی میں یہ قوم کارنامے کردیتی ہے تو بلندی میں کیا عالم ہوگا۔
ذہن سیاسی زندانوں سے آزاد ہونے والے ہیں اور پرواز کو تیار ہیں! پاکستان کی بہترین ایئرلائن کو زمین بوس کرکے نیلی پرواز کو بلند کرنے والا سزا کے قریب ہے، یہ سزا وہ دے گا جو موسیٰ کودھتکارنے والوں کے شہر میں اس سے ایک بوسیدہ دیوار سیدھی کرواتا ہے اور نئی کشتی میں سوراخ کروادیتا ہے، پاکستان کے بدخواہوں کے لیے ''دریائے نیل تیار ہے''۔
دوسرا گروپ وہ ہے چاروں صوبوں میں، جس نے نقل مکانی کرنیوالے غیر مسلموں کی زمین جائیداد پر قبضہ کرلیا اور سرمایہ دار، وڈیرے، جاگیردار اور نہ جانے کیا کیا بن بیٹھے۔ سندھ اسمبلی میں سیاست دان خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جو درست عمل نہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے اور ان لوگوں کی ''حب الوطنی'' بھی تذکرے کے قابل ہے۔ یہ 20 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے کسی کے والد صاحب کی جاگیر نہیں ہے!
حکمرانوں سے خدا حساب ضرور لے گا ۔ اعلیٰ عہدوں پر انتہائی کرپٹ لوگ لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ اعتراض نہ کرسکیں اور تلوے چاٹتے رہیں ان کے۔ ان کی صفوں میں سے یہ بات آئی کہ انھیں پارٹی میں غلام چاہئیں۔ پاکستان کے آگے بڑھنے کے لیے اس کے مزید صوبے بننے چاہئیں تاکہ صوبائی آمریت کا خاتمہ ہوسکے۔ مزید صوبے بن کر نہ پاکستان کی زمین تقسیم ہوگی نہ لوگ، سب اپنی جگہ رہیں گے۔ ''کھانے کمانے'' کا سیاسی دھندا ختم ہوجائیگا۔
ملک کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، نمائشی علاقوں سے پاکستان دکھایا جاتا ہے، اصل پاکستان اس کے پیچھے ہے، دیہاتوں میں بیت الخلا تک کا تصور کم کم ہے، سندھ کے واہی پاندھی کے علاقے نہیں، ہم یہ دیکھ آئے ہیں ابھی تک وہاں یہ تصور پختہ نہیں ہوا ہے۔کھیتوں میں آبرو ریزی کے واقعات اب تک رپورٹ ہورہے ہیں۔
سسٹم قائم ہے، غریب عدالت نہیں پہنچ سکتا، اس کے راستے محدود ہیں، کہاں تک سوموٹو لیا جائے، عدالت تک بھی سارے سلامت نہیں پہنچ پاتے، وہ کیا کرے۔
ایک سیاسی چال یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی 60 فیصد سے بھی شاید زیادہ ہے، اس وجہ سے وہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹیں زیادہ ہیں اس وجہ سے پاکستان پر حکمرانی کا حق مستقلاً پنجاب کے پاس ہے، اقتدار کی بندر بانٹ ہے اور مسلم لیگ تو اب اس کے لیے بھی تیار نہیں، بس ہماری باری، ویسے بھی سندھ سے آنے والے وزرائے اعظم بھی ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکے، کیونکہ کرنا وہی پڑتا ہے جو پنجاب کے سیاسی اکابرین چاہتے ہیں۔ اکابرین کا لفظ اب عام ہے۔
پاکستان کی ترقی اس 60 فیصد کو تقسیم کرنے میں پوشیدہ ہے، صرف لاہور، اسلام آباد پاکستان نہیں ہے، ملتان، بہاولپور بھی پاکستان ہیں، دو صوبائی اسمبلی بننے سے پنجاب کا فائدہ ہوگا عوام کا کام ان کے مسائل حل ہوں گے، احمد پور شرقیہ نہیں ہوگا۔
حالانکہ زیادہ صوبے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر موجودہ سیاسی قیادتیں ایسے نہیں مانیںگی اور آنے والی نسلیں اس غلط فیصلے پر ان کی مذمت کریںگی۔ ملک بدل رہا ہے ،جو آج ہیں وہ بھی جائیں گے، اب فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں، وہاں جہاں کی لاٹھی بے آواز ہے، چل پڑی ہے لاٹھی اور سب کچھ درست کرکے ہی رکے گی، کوئی نہیں روک سکے گا، کس نے سوچاتھا کہ عدالت نکال دے گی، ابھی اور لوگ نکالے جانے والے ہیں۔
''اقامہ'' سنبھال کر رکھیں، آخر اس کی ضرورت پڑے گی، ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ میں کیا کروں مجھ سے Safe Column نہیں لکھا جاتا، میں گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھ سکتا، نہ گل کی کوئی قدر ہے نہ بلبل آزاد۔
شاید یہ باتیں لوگوں کو عجیب لگیں مگر حقیقت میں خون ناحق بول رہا ہے اور اللہ پاک نے دراز رسی کھینچنے کا فیصلہ کرلیا ہے، کوئی زر والانہ بچے گا ۔ پاکستان کی دولت پاکستان کو واپس مل جائے، خدا کرے مل جائے تو قرضوں سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
یہ ملک غریب نہیں ہے، کیا نہیں ہے اس میں، بے ایمانوں نے ملک کو لوٹا اور لوٹ رہے ہیں، ریلوے کی پٹڑیاں، باؤنڈری میں چلی گئیں کسی نہ کسی راستے سے، ملک پر مافیا کا راج ختم ہونے والا ہے، چند برس کی بات ہے اندھیرے چھٹ جائیں گے، مودی اور اس کے ہمدردوں کو شکست ہونی ہے ہوکر رہے گی، پاکستان کو دنیا میں ابھرنا ہے ضرور ابھرے گا اس ملک کو غیروں نے نہیں اپنوں نے زخموں سے چور چور کیا ہے۔
مگر قدرت کا فیصلہ سامنے ہے، سارے حساب کھلیں گے سب کے حساب کھلیں گے اور دیکھا جائے گا کس نے کیا کیا؟ اور کون کیاکر رہا ہے۔
پاکستان وہی رہے گا، قدریں بدلیں گی، ذہن بدلیں گے، ظلم ختم ہوگا اور لوگ اطمینان کا سانس لیں گے وہ سچی صبح تو ضرور آئے گی، یہ ایمان بھی ہے اور یقین بھی۔ اس پستی میں یہ قوم کارنامے کردیتی ہے تو بلندی میں کیا عالم ہوگا۔
ذہن سیاسی زندانوں سے آزاد ہونے والے ہیں اور پرواز کو تیار ہیں! پاکستان کی بہترین ایئرلائن کو زمین بوس کرکے نیلی پرواز کو بلند کرنے والا سزا کے قریب ہے، یہ سزا وہ دے گا جو موسیٰ کودھتکارنے والوں کے شہر میں اس سے ایک بوسیدہ دیوار سیدھی کرواتا ہے اور نئی کشتی میں سوراخ کروادیتا ہے، پاکستان کے بدخواہوں کے لیے ''دریائے نیل تیار ہے''۔