’’تھیٹر میں فحاشی کے ذمہ دار مالکان اورآرٹس کونسلوں کے سربراہ ہیں‘‘

ہمارے فنکاروں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن آج انہیں اچھے ڈائریکٹر میسر نہیں: خالد عباس ڈار سے گفتگو

ہمارے فنکاروں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن آج انہیں اچھے ڈائریکٹر میسر نہیں: خالد عباس ڈار سے گفتگو۔ فوٹو : فائل

پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں بہت کم فنکار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے ذریعے لوگوںکو ایک یا دو نہیں بلکہ پانچ دہائیوں تک تفریح فراہم کی۔

ایسے باکمال فنکاروں میں ایک نام مزاح کے بادشاہ خالد عباس ڈارکا بھی ہے، جنہوں نے اپنے طویل فنی سفرکے دوران تھیٹر، فلم، ٹی وی اور بیرون ممالک منعقدہ پروگراموں میں پرفارم کرتے ہوئے پاکستان کا نام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔

آج کل خالد عباس ڈارایکسپریس نیوز پر مقبول ترین پروگرام ''ڈارلنگ'' پیش کررہے ہیں، جوگزشتہ کئی برسوں سے ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان اوربیرون ممالک آباد ہے اوروہ یہ خواہش رکھتی ہے کہ وہ جس طرح23 سال بعد ٹی وی پردوبارہ کام کررہے ہیں ، اسی طرح انہیں تھیٹرکی دنیا میں بھی واپسی کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس'' نے ان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، نذر قارئین ہے۔

خالد عباس ڈارنے کہا کہ تھیٹرسے میرا تعلق بہت پرانا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ 1956ء میں تھیٹرپر پرفارم کیا اور2000ء تک یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا۔ میرے والد، والدہ، بہن اوربیٹی کا انتقال ہوا توان کی تدفین کے بعد میں نے اسی شب سٹیج ڈرامہ پرپرفارم کیا، جومیری اس شعبے سے محبت کی انتہا تھی۔ بہت عرصہ کام کیا اورپھرتھیٹرکوایک ایسے مقام تک لے کرآئے، جس میں لوگ اپنی فیملیز کے ہمراہ سٹیج ڈرامہ دیکھنے کوترجیح دیتے تھے۔

150سیٹ والے تھیٹرکے شائقین کوآنے اورواپس جانے کا کرایہ بھی دیا جاتا تھا، جس سے اندازہ لگانا چاہئے کہ ہم نے تھیٹرکے فروغ کے لئے کس طرح کام کیا؟ یہ وہ دورتھا جب تھیٹرکے ساتھ اشفاق احمد، کمال احمد رضوی، منوبھائی، ڈاکٹرانورسجاد، بانوقدسیہ، نعیم طاہراورشعیب ہاشمی جیسے لوگ وابستہ تھے۔

ایسی عظیم شخصیات کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا اورتھیٹرکووہ مقام دلوایا ، جودنیا بھرمیں لائیوتھیٹرکوحاصل تھا۔ ہم نے مفت تھیٹر پیش کرکے اسے کواتنا مقبول بنایا کہ پھریہاں لوگ ٹکٹ خرید کرآنے لگے۔ بہت سے باصلاحیت فنکارہمارے ساتھ تھیٹرپرکام کرتے اورلوگوںکوہربار کوئی اچھا پیغام دے کرواپس بھیجتے۔ پھر ایک ایسا دوربھی آیا کہ ہمارے ہاں متعدد پرائیویٹ تھیٹر وجود میں آئے، جہاں پرسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا تو ان کی کمانڈ فنکاروں کے پاس ہی تھی ، جواس شعبے کی تمام ترباریکیوں سے واقف تھے، مگرپھرصورتحال تبدیل ہوئی اور حکومت کی عدم توجہی کے باعث تھیٹرکا ماحول بگڑنے لگا۔ جس جگہ کو فنون لطیفہ کا گہوارا مانا جاتا تھا اورفیملیز کی بڑی تعداد جہاں ہرروز آنا چاہتی تھی ، وہاں پرایک ایسا طبقہ آنے لگا جوکسی دورمیں بازار حسن میں جایا کرتے تھے۔

پہلے ان لوگوں کو ایک گانا سننے کے لئے ہزاروں روپے خرچ کرنا پڑتے تھے لیکن اب وہ دوہزار روپے میں رقص دیکھ لیتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھیٹرکے ماحول کوخراب اورفیملیز کوسٹیج ڈرامہ سے دورکرنے کی اصل ذمہ داری وزیراعلیٰ پریا چیف سیکرٹری پرعائد ہوتی ہے یا پھرفنکار اس کے اصل ذمہ دار ہیں ؟ تومیرے نزدیک اس کے ذمہ دار ایک طرف توحکومت اورچیف سیکرٹری ہیں اوران سے بھی بڑھ کروہ مالکان جواپنے تھیٹروں میں فحاشی، عریانی کوقابو پانے کے لئے اقدامات کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اگریہ لوگ تھوڑی سی سختی کریں اورفنکارکے خلاف خود سے ایکشن لیں توکسی بھی فنکاریا فنکارہ کی یہ مجال نہیں کہ وہ فحش گوئی کریں یا بے ہودہ رقص پیش کریں، کیوں کہ فنکارتومعصوم ہوتا ہے اوروہ اس کام کے علاوہ کوئی دوسرا کام بھی نہیں کرسکتا۔

بحیثیت فنکارمیں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ایک فنکارکوبہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ وہ شائقین سے داد پانے کیلئے فحش گوئی بھی کرتا ہے اوربیہودہ رقص بھی ، مگراس کوایسا کرنے سے روکنے کیلئے اگرتھیٹرکا مالک فوری ایکشن لے اوراس فنکارکوسخت الفاظ میں وارننگ جاری کردے تووہ فنکاردوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گا۔ جہاں تک بات سٹیج ڈراموںکو مانیٹرکرنے والی ٹیموں کی ہے تو میں ان کی کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں ہوں۔


اگرحکومت نیک نیتی سے سٹیج ڈراموںکو مانیٹرکرنا چاہتی ہے تواس کی ٹیم میں فنکاروں کوشامل کرنا چاہئے جوفن اداکاری کوسمجھتے ہوں۔ جوٹیم آج کل سٹیج ڈراموںکو مانیٹرکررہی ہے اس کے اہلکار تواب خود پروڈیوسربن چکے ہیں۔ اگر مانیٹرنگ ٹیم میں شمولیت سے پہلے اور آج ان کے اثاثے دیکھے جائیں توواضح فرق ہوگا۔ مانیٹرنگ ٹیم والے فنکاروںکو بین کرتے ہیں، جوکہ درست نہیں ہے۔ فنکارفحاشی اور عریانی کا ذمہ دارنہیں ہے، اسے جس بات سے روکا جاتا ہے وہ آئندہ ایسا نہیں کرتا۔

ایک سوال کے جواب میں خالد عباس ڈارنے بتایا کہ سٹیج ڈرامے کے بگاڑکی سب سے پہلی وجہ اس کے اوقات کار ہیں۔ اس کوتبدیل کرنے پرفوری عملدرآمد ہونا چاہئے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ تھیٹرکا کاروبار ترقی کرے اوراس کو دیکھنے والوںکی تعدادمیں اضافہ ہوتوہمیں سب سے پہلے اس کے اوقات کار شام سات بجے سے رات دس بجے تک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرایسا ہوجائے توپھرایک خاص طبقہ کی بجائے فیملیز کی بڑی تعداد تھیٹرمیں دکھائی دیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ گھرگھرستی اوردفاترمیں کام کرنے والی خواتین صرف ڈرامے کی ٹائمنگ کی وجہ سے سٹیج ڈرامہ دیکھنے کے لئے نہیں آتیں۔ جب تھیٹرمیں خواتین کی بڑی تعداد دکھائی دے گی توپھرتھیٹرکے ماحول میں خود بخود تبدیلی اوربہتری آئے گی۔ فحش گوئی کرنے والے فنکاربھی خواتین کا احترام کریں گے ، کیوں کہ ان کے گھروں میں بھی توماں ، بہن ہیں۔ یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے مگرذمہ داری سے کام کرنے کی ضروری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سٹیج ڈرامے کوٹھیک کرنے کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملک بھرکی آرٹس کونسلوںکا احتساب کیا جائے۔ ریذیڈنٹ ڈائریکٹرز اگرچاہئیں توآرٹس کونسلوں میں پیش کئے جانے والے ڈراموں کا معیار سب سے بہترہوسکتا ہے۔ اب جہاں آرٹس کونسلز میں پیش کئے جانے والے ڈراموں میں بلاوجہ رقص شامل کیا جاتا ہے، وہاں پرائیویٹ تھیٹروں کی نگرانی کون کرے گا ؟ میرے نزدیک تو تھیٹرمیں فحاشی اور عریانی کوفروغ دینے کی سب سے زیادہ ذمہ داری تھیٹرمالکان اورآرٹس کونسلز کے سربراہان پرعائد ہوتی ہے۔

اگریہ لوگ دیانتداری سے کام لیتے تویہ فنکارسکرپٹ اور ڈائریکٹرکی ہدایات کے مطابق ڈرامہ پیش کرتے۔ اس سلسلہ میں فحاشی کوفروغ دینے والے تھیٹروںکے مالکان کواگرتھانوں میں بند کیا جائے اوران کے لائسنس معطل کئے جائیں تو پھردوبارہ کوئی بھی جراٗت نہیں کرے گا، اسی طرح آرٹس کونسلوں کے سربراہان کی بھی نگرانی ہونی چاہئے۔ اس وقت اگرتھیٹروںکو سیمی نائٹس کلب کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح نان پروفیشنل لوگوںکی وجہ سے فلم کا بیڑہ غرق ہوا، اسی طرح نان پروفیشنل لوگوںکی وجہ سے تھیٹرآگے بڑھنے کی بجائے پستی کی جانب گامزن ہے۔ اگرایسا نہ ہوتا توتھیٹرپرکام کرنے والے کبھی ٹی وی چینلز پردکھائی نہ دیتے۔

خالد عباس ڈارنے ڈراموں میں ڈانس پربات کرتے ہوئے کہا کہ اگرکہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق رقص ضروری ہے تو اس کوپیش کرنا چاہئے، مگراب توڈرامہ میں ڈانس نہیں بلکہ ڈانس میں ڈرامہ شامل کرنے کا رواج ہے۔ یہ طریقہ کاردرست نہیں ہے۔ میں رقص کے خلاف نہیں ہوں، کیونکہ یہ بھی فنون لطیفہ کی ایک اہم ترین صنف ہے ،مگراس کا استعمال کیسے ہورہا ہے، وہ دیکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فنکاروں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ، مگران کواب اچھے سکرپٹ اورڈائریکٹرمیسرنہیں ہیں، اگرآج بھی انہیں سکرپٹ اوراچھی ڈائریکشن کے ساتھ پرفارم کرنے کا موقع ملے تووہ اچھا کام کریں گے۔

انٹرویو کے آخر میں خالد عباس ڈارنے سٹیج کی دنیا میں کیری پیکرکا خطاب پانے والے علی عیسیٰ اینڈ کمپنی کے روح رواں سخی سروربٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس نے بڑی محنت کے ساتھ فنکاروںکواندھیروں سے نکال کرروشنی میں زندگی گزارنے کا موقع دیا۔

ایک فنکارکی سب سے پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ اس کے پاس اچھا گھر اورگاڑی ہو تو یہ سب کچھ سخی سرورکی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔ وگرنہ ایک فنکارتمام عمر بھی کام کرتا رہے تووہ گھراورگاڑی نہیں لے سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اکیلے شخص نے تھیٹرکی ترقی میں بہت اہم کردارادا کیا ، اس پربے جا تنقید درست نہیں۔ اس نے اس شعبے میں آکرایک کمپنی بنائی اورفنکاروں کواس کے بینرتلے کام کرنے کیلئے سائن کیا۔ آج توہمارے بہت سے فنکاران کی کمپنی کے باقاعدہ پارٹنرہیں۔ میرے نزدیک ان کی تھیٹرکیلئے خدمات قابل ستائش ہیں۔ میں دعا گوہوں کہ تھیٹرکا ماحول بہترہو اوریہاں دوبارہ سے فیملیز انٹرٹین ہونے کے لئے آنے لگیں۔ اس سلسلہ میں ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔
Load Next Story