آنسو پسینے اور تھوک سے بھی بجلی بنائی جائے گی

یہ وہی پروٹین ہے جو قدرتی ماحول میں جرثوموں کی خلوی دیواریں توڑ کر انہیں ناکارہ بنانے کا کام کرتا ہے۔


ویب ڈیسک October 03, 2017
یہ پروٹین ہمارے آنسوؤں، پسینے اور تھوک کے علاوہ دودھ اور انڈے کی سفیدی میں بھی شامل ہوتا ہے جبکہ اسے لائسوزائیم کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

LAHORE: آئرلینڈ کی یونیورسٹی آف لمیرک کے سائنسدانوں نے بجلی بنانے کےلیے ایک ایسا مفید پروٹین دریافت کرلیا ہے جو ہمارے آنسوؤں، پسینے اور تھوک کے علاوہ دودھ اور انڈے کی سفیدی میں بھی شامل ہوتا ہے جبکہ اس پروٹین کو ''لائسوزائیم'' (lysozyme) کہا جاتا ہے۔

اپنے قدرتی ماحول میں یہ پروٹین جرثوموں کی خلوی دیواریں پھاڑ کر انہیں ناکارہ بنانے اور ہماری حفاظت کرنے کا کام کرتا ہے۔ البتہ آئرلینڈ کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ یہی پروٹین اپنی خالص اور قلمی (کرسٹلائن) حالت میں ''پیزو الیکٹرک ایفیکٹ'' نامی اصول سے استفادہ کرتے ہوئے بجلی بنانے کا کام بھی کرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ وہ پہلا قدرتی نامیاتی (آرگینک) مادّہ ہے جس میں پیزو الیکٹرک خصوصیات پائی گئی ہیں۔



واضح رہے کہ پیزو الیکٹرک ایفیکٹ یا ''داب برق اثر'' کے تحت کسی مادّے پر دباؤ بڑھانے یا اسے بھینچنے پر بجلی پیدا ہوتی ہے جبکہ ہر قسم کی ''ٹچ اسکرین'' کے کام کرنے کا راز بھی یہی پیزو الیکٹرک اثر ہے۔ تاہم اس مقصد کےلیے ''کوارٹز'' کہلانے والی قلمیں استعمال کی جاتی ہیں جو غیر نامیاتی مادّوں میں شمار ہوتی ہیں؛ یعنی کوارٹز قلموں کو کسی جاندار کے جسم میں بجلی بنانے والے کسی آلے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے برعکس لائسوزائیم کی خالص قلمیں چونکہ قدرتی حیاتیاتی نظام کا حصہ ہیں لہٰذا انہیں استعمال کرتے ہوئے بجلی بنانے والے ایسے داب برق نظام (پیزو الیکٹرک سسٹمز) تیار کیے جاسکیں گے جو جسم کے اندر پیوند کیے جانے والے آلات کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکیں گے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ لائسوزائیم قلموں سے (پیزو الیکٹرک ایفیکٹ کے تحت) تقریباً اتنی ہی بجلی پیدا ہوتی ہے جتنی کوارٹز قلموں سے بنتی ہے۔



یونیورسٹی آف لمیرک کے ماہرین نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے جس میں لائسوزائیم قلموں کو دو پتلے شیشوں کے درمیان دبا کر ان سے بجلی پیدا کی گئی۔ انہوں نے اپنی اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ''اپلائیڈ فزکس لیٹرز'' کے تازہ شمارے میں شائع کروائی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔