چوہدری برادران اورترین کی قرضہ معافی درست قرار

740میںسے222کیسوںمیں وصولی کی سفارش، معافی کا طریقہ ناقص ہے، جوڈیشل کمیشن


Ghulam Nabi Yousufzai February 25, 2013
740میںسے222کیسوںمیں وصولی کی سفارش، معافی کا طریقہ ناقص ہے، جوڈیشل کمیشن فوٹو: فائل

لاہور: ملک میں 1971 سے لے کر اب تک معاف کیے گئے قرضوں کی انکوائری کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں 740 میں سے 222 کیسوں میں معاف کیے گئے قرضوں کی وصولی کی سفارش کی ہے۔

جسٹس (ر) جمشید علی شاہ کمیشن نے قرضوں کی معافی کے عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرضے جاری کرنے اور معاف کرنیکا طریقہ کار ناقص اور غیرمنصفانہ ہے ۔ کمیشن نے بعض قرضوں کی معافی کو واقعاتی طور پر درست بھی قراردیا ہے جن میں چوہدری برادران کی پنجاب شوگرملز ، سابق گورنرخواجہ طارق رحیم ، سابق وفاقی وزیرہارون اختر اور جہانگیر ترین کے قرضے شامل ہیں۔ چوہدری برادران نے 1990میں7کروڑ29لاکھ کا قرضہ لیا اور اصل زر واپس کرنے پر ان کے ذمے واجب الادا 4کروڑ68لاکھ روپے کا سود معاف ہوا ۔

6

پنجاب شوگر ملز 2007 میں کالونی گروپ کو فروخت کی گئی۔ کمیشن نے جن افراد کے معاف کیے گئے قرضوں پر اعتراض کیا ہے ان میں نواب کالاباغ فیملی کا10کروڑ ،پاکستان اسٹیل ملز میں مبینہ کرپشن کیس سے معرو ف ہونیوالے ریاض لال جی کا 21 کروڑ سے زائد، لغاری فیملی کی چوٹی ٹیکسٹائل ملزکا30 کروڑ 47 لاکھ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر اسلام الدین شیخ کی3 کمپنیوں کا24 کروڑ روپے کا قرضہ شامل ہے۔ کمیشن نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اوران کی اہلیہ کی نقی بیوریجز کے قرضے کی معافی پر بھی سوالکیا ہے اور ان سے ساڑھے چارکروڑ روپے کی وصولی کی سفارش کی ہے۔ انھوں نے یہ قرضہ 1994میں حاصل کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں