’’بنانا ری پبلک‘‘
ایک قانون، ایک حکومت والی بات تو سمجھ آتی ہے مگر بنانا ری پبلک اور استعفیٰ والی بات سمجھ سے بالاتر ہے
پیر کو ایک اور ''ناخوشگوار'' واقعہ دیکھنے میں آیا، جب وزیر داخلہ احسن اقبال کو احتساب عدالت میں ''داخل'' ہونے سے روک دیا گیا،پھر غصہ تو فطری تھا۔ موصوف بولے یہ ''بنانا ری پبلک'' نہیں،ایک ملک میں دوریاستیں نہیں چل سکتیں، سول ایڈمنسٹریشن کو بے بس کر دیا گیا، یہاں ایک قانون ہوگا، ایک حکومت ہوگی،کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں رہوںگا، استعفیٰ دے دوںگا۔
ایک قانون، ایک حکومت والی بات تو سمجھ آتی ہے مگر بنانا ری پبلک اور استعفیٰ والی بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ان ہی حکمرانوں کی گزشتہ سوا چار سال سے حکومت ہے، بلکہ گزشتہ 30برسوں سے انھی خاندانوں کی حکومت چلی آرہی ہے تو وطن عزیز کو ''بنانا ری پبلک '' کس نے بنایا ہے؟
''بنانا ری پبلک''کی اصطلاح سب سے پہلے 1904 میںایک امریکی ادیب ہنری نے اپنی کتاب KINGS & Cabbages میں استعمال کی۔ جس میں بتایا گیا کہ کیلا یورپ کی منڈیوں تک کیسے پہنچا اور کیلے کو بیچنے والوں نے کس کس طرح حکومتوں پر اپنے اثرو رسوخ قائم کیے۔ 1870میں ''لورنزو ڈی بیکر'' نامی ایک تاجر کیلے کو وسطی امریکا سے بوسٹن لے گیا اور وہاں لے جا کر اسے ایک ہزار فیصد منافع پر فروخت کیا۔
یہ بات ریل کی پٹڑیاں بچھانے والے امریکی ماہرین کیتھ اور اس کے چچا کو معلوم ہوئی جنہوں نے ریلوے لائنوں کے دونوں اطراف کیلے کے پیڑ اس لیے لگوا رکھے تھے کہ دور دراز علاقوں میںپٹڑیوں پر کام کرنیوالے مزدوں کے لیے کھانا لانے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور وہ کیلے کھا کر ہی گزارا کر لیا کریں، پھرکیلے کی کاشت دھڑادھڑ شروع ہوگئی۔
یورپ یا جنوب مشرقی امریکا میں کیلے کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ ان علاقوںکے لوکل پھلوں سے بھی سستا ہوا کرتا تھا مثال کے طور پر ایک درجن کیلوں کو بیچ کر جو پیسے حاصل ہوتے تھے ان سے بمشکل دو سیب خریدے جا سکتے تھے۔ تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ڈی بیکر اور کیتھ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک بن گئے۔ جنہوں نے بعد میں اپنے وسیع تر مفادات کے پیش نظر اپنی کمپنیوں کو یکجا کر لیا اور حکومتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اور فروٹ کمپنیاں بھی میدان میں اُتر آئیں،ان کمپنیوں نے اتنا پیسہ کمایا اور اتنی طاقت حاصل کر لی کہ حکومتیں بنانے اور گرانے لگ گئیں۔جن علاقوں سے کیلا لے جایا جاتا تھا وہاںجمہوری سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے ایسے حکمران پیدا کیے گئے جو کیلا فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے جب کہ وہاں کے عوام غربت کا شکار رہتے تھے۔
ہنری نے ''بنانا ری پبلک ''کی اصطلاح ایک غریب ملک ''ہنڈرس '' کے لیے استعمال کی جہاں حکمرانوں نے زراعت کو غیروں کے ہاتھ نہایت ہی سستے داموں فروخت کر رکھا تھا۔ اس کے بعد ''بنانا ری پبلک'' کی اصطلاح ایسے تمام ممالک کے لیے استعمال کی جانے لگی جن میں حکمرانوں کے کتے اور گھوڑے پھلوں کے مربے کھائیں اور عوام کے بچوں کو روکھی سوکھی روٹی بھی میسر نہ ہو۔ ایک طبقہ کچھ نہ کر کے بھی عیش و آرام کی زندگی بسر کرے اور دوسرا خون پسینہ ایک کر کے بھی دکھ و تکلیف کی چکی میں پِستا رہے،احتساب نام کی کوئی چیز اگر ہو تو وہ عوام کے لیے ہوجب کہ حکمران قانون سے بالاتر ہوں،قومی اسمبلی میں بیٹھنے والے بکاؤ ہوں اور ان کی حیثیت ربڑ کی مہر جیسی ہو۔
اہم ملکی امور کے فیصلے دوسرے ممالک میں ہوا کریں البتہ ان کی توثیق ربڑ اسٹیمپ کے ذریعے ملک میں ہی ہوتی ہو،ملکی معیشت غیر ملکوں اور غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہو اور اپنی آنے والی نسلیں بھی قرض کے بوجھ تلے دبی ہوں،پیسے والے لوگ بینکاری نظام کی دھجیاں اڑائیں،ارب پتی اربوں روپے کے قرض لے کر معاف کر ا لیا کریں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔اور تو اور فرد واحد کے لیے ایسے ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے ملک تو نقصان میں ہو مگر مخصوص افراد فوائد حاصل کر رہے ہوں۔
اب جب وزیر داخلہ احسن اقبال نے'' بنانا کنٹری''کا نام لیا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ کس کو کہہ رہے ہیں؟ اپنے آپ کو یا اسٹیبلشمنٹ کو؟ اگر مخاطب اسٹیبلشمنٹ ہے تو اس کی وجوہات بھی کھل کر بیان کریں اور بقول خورشیدشاہ یوں گھٹ گھٹ جینے کے بجائے سب کچھ کھل کر بیان کریں کہ آخر انھیں کٹھ پتلی وزیر داخلہ کس نے بنادیا ہے۔ یہاں میں مریم نواز صاحبہ کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ انھوں نے بھی یہی اصطلاح 2014ء میں استعمال کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں، ملک کا مستقبل آئین اور قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔ اب یہ حکمران کس سے مخاطب ہیں ؟ وہ ملک کی بربادی کا ذمے دار کس کو ٹھہرا رہے ہیں، بقول شاعر
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
آج معمہ تو یہ ہے کہ ملک میں ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں، حالات غیر معمولی بن چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ایک بار پھر ملیا میٹ ہو جائے اور ہم پھر دس سال کے لیے لٹک جائیں، قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، اسمبلیاں اکثریت اور اقلیت کے کھیلوں میں اُلجھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔یہ قومی تاریخ کا المیہ ہے کہ پاکستان کو بنانا ری پبلک بنا دیا گیا ہے ، لیکن کس نے بنایا یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے؟ ہر لیڈر اور ادارہ دوسرے پر الزام لگاتا نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن سوتی رہی اور حکمران جماعت نے ایسا بل بھی پاس کر الیا جس کے مطابق کوئی بھی شخص 5سال سے زیادہ عرصے تک نااہل نہیں رہ سکے گا۔
پاکستان شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ہم فارن پالیسی کے بحران کا بھی شکار ہیں، ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں، ہمارے نومولود وزیر خارجہ کو علم ہی نہیں کہ ہماری پالیسی کیا ہے؟ دنیا بھر میں تھنک ٹینکس ملک کی پالیسیاں بنارہے ہیں ، یہاں وہی چال بے ڈھنگی سی ۔ ہماری دفاعی پالیسی کہاں ہے؟ موجودہ وزیر اعظم بھی الزامات کی زد میں ہیں۔وہ روز اعلان کرتے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم نواز شریف ہے۔پنجاب کے وزیر اعلی پر بھی حدیبیہ پیپرز اور سانحہ ماڈل ٹاون کا دباؤ ہے۔ ایسے میں ملک کیسے چلے گا، مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آرہی۔
ایک قانون، ایک حکومت والی بات تو سمجھ آتی ہے مگر بنانا ری پبلک اور استعفیٰ والی بات سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ ان ہی حکمرانوں کی گزشتہ سوا چار سال سے حکومت ہے، بلکہ گزشتہ 30برسوں سے انھی خاندانوں کی حکومت چلی آرہی ہے تو وطن عزیز کو ''بنانا ری پبلک '' کس نے بنایا ہے؟
''بنانا ری پبلک''کی اصطلاح سب سے پہلے 1904 میںایک امریکی ادیب ہنری نے اپنی کتاب KINGS & Cabbages میں استعمال کی۔ جس میں بتایا گیا کہ کیلا یورپ کی منڈیوں تک کیسے پہنچا اور کیلے کو بیچنے والوں نے کس کس طرح حکومتوں پر اپنے اثرو رسوخ قائم کیے۔ 1870میں ''لورنزو ڈی بیکر'' نامی ایک تاجر کیلے کو وسطی امریکا سے بوسٹن لے گیا اور وہاں لے جا کر اسے ایک ہزار فیصد منافع پر فروخت کیا۔
یہ بات ریل کی پٹڑیاں بچھانے والے امریکی ماہرین کیتھ اور اس کے چچا کو معلوم ہوئی جنہوں نے ریلوے لائنوں کے دونوں اطراف کیلے کے پیڑ اس لیے لگوا رکھے تھے کہ دور دراز علاقوں میںپٹڑیوں پر کام کرنیوالے مزدوں کے لیے کھانا لانے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور وہ کیلے کھا کر ہی گزارا کر لیا کریں، پھرکیلے کی کاشت دھڑادھڑ شروع ہوگئی۔
یورپ یا جنوب مشرقی امریکا میں کیلے کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ ان علاقوںکے لوکل پھلوں سے بھی سستا ہوا کرتا تھا مثال کے طور پر ایک درجن کیلوں کو بیچ کر جو پیسے حاصل ہوتے تھے ان سے بمشکل دو سیب خریدے جا سکتے تھے۔ تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ڈی بیکر اور کیتھ بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک بن گئے۔ جنہوں نے بعد میں اپنے وسیع تر مفادات کے پیش نظر اپنی کمپنیوں کو یکجا کر لیا اور حکومتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اور فروٹ کمپنیاں بھی میدان میں اُتر آئیں،ان کمپنیوں نے اتنا پیسہ کمایا اور اتنی طاقت حاصل کر لی کہ حکومتیں بنانے اور گرانے لگ گئیں۔جن علاقوں سے کیلا لے جایا جاتا تھا وہاںجمہوری سوچ کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے ایسے حکمران پیدا کیے گئے جو کیلا فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے جب کہ وہاں کے عوام غربت کا شکار رہتے تھے۔
ہنری نے ''بنانا ری پبلک ''کی اصطلاح ایک غریب ملک ''ہنڈرس '' کے لیے استعمال کی جہاں حکمرانوں نے زراعت کو غیروں کے ہاتھ نہایت ہی سستے داموں فروخت کر رکھا تھا۔ اس کے بعد ''بنانا ری پبلک'' کی اصطلاح ایسے تمام ممالک کے لیے استعمال کی جانے لگی جن میں حکمرانوں کے کتے اور گھوڑے پھلوں کے مربے کھائیں اور عوام کے بچوں کو روکھی سوکھی روٹی بھی میسر نہ ہو۔ ایک طبقہ کچھ نہ کر کے بھی عیش و آرام کی زندگی بسر کرے اور دوسرا خون پسینہ ایک کر کے بھی دکھ و تکلیف کی چکی میں پِستا رہے،احتساب نام کی کوئی چیز اگر ہو تو وہ عوام کے لیے ہوجب کہ حکمران قانون سے بالاتر ہوں،قومی اسمبلی میں بیٹھنے والے بکاؤ ہوں اور ان کی حیثیت ربڑ کی مہر جیسی ہو۔
اہم ملکی امور کے فیصلے دوسرے ممالک میں ہوا کریں البتہ ان کی توثیق ربڑ اسٹیمپ کے ذریعے ملک میں ہی ہوتی ہو،ملکی معیشت غیر ملکوں اور غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہو اور اپنی آنے والی نسلیں بھی قرض کے بوجھ تلے دبی ہوں،پیسے والے لوگ بینکاری نظام کی دھجیاں اڑائیں،ارب پتی اربوں روپے کے قرض لے کر معاف کر ا لیا کریں اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔اور تو اور فرد واحد کے لیے ایسے ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے ملک تو نقصان میں ہو مگر مخصوص افراد فوائد حاصل کر رہے ہوں۔
اب جب وزیر داخلہ احسن اقبال نے'' بنانا کنٹری''کا نام لیا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ کس کو کہہ رہے ہیں؟ اپنے آپ کو یا اسٹیبلشمنٹ کو؟ اگر مخاطب اسٹیبلشمنٹ ہے تو اس کی وجوہات بھی کھل کر بیان کریں اور بقول خورشیدشاہ یوں گھٹ گھٹ جینے کے بجائے سب کچھ کھل کر بیان کریں کہ آخر انھیں کٹھ پتلی وزیر داخلہ کس نے بنادیا ہے۔ یہاں میں مریم نواز صاحبہ کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ انھوں نے بھی یہی اصطلاح 2014ء میں استعمال کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان بنانا ری پبلک نہیں، ملک کا مستقبل آئین اور قانون کی حکمرانی سے وابستہ ہے۔ اب یہ حکمران کس سے مخاطب ہیں ؟ وہ ملک کی بربادی کا ذمے دار کس کو ٹھہرا رہے ہیں، بقول شاعر
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
آج معمہ تو یہ ہے کہ ملک میں ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں، حالات غیر معمولی بن چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ایک بار پھر ملیا میٹ ہو جائے اور ہم پھر دس سال کے لیے لٹک جائیں، قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، اسمبلیاں اکثریت اور اقلیت کے کھیلوں میں اُلجھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔یہ قومی تاریخ کا المیہ ہے کہ پاکستان کو بنانا ری پبلک بنا دیا گیا ہے ، لیکن کس نے بنایا یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے؟ ہر لیڈر اور ادارہ دوسرے پر الزام لگاتا نظر آرہا ہے۔ اپوزیشن سوتی رہی اور حکمران جماعت نے ایسا بل بھی پاس کر الیا جس کے مطابق کوئی بھی شخص 5سال سے زیادہ عرصے تک نااہل نہیں رہ سکے گا۔
پاکستان شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ہم فارن پالیسی کے بحران کا بھی شکار ہیں، ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں، ہمارے نومولود وزیر خارجہ کو علم ہی نہیں کہ ہماری پالیسی کیا ہے؟ دنیا بھر میں تھنک ٹینکس ملک کی پالیسیاں بنارہے ہیں ، یہاں وہی چال بے ڈھنگی سی ۔ ہماری دفاعی پالیسی کہاں ہے؟ موجودہ وزیر اعظم بھی الزامات کی زد میں ہیں۔وہ روز اعلان کرتے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم نواز شریف ہے۔پنجاب کے وزیر اعلی پر بھی حدیبیہ پیپرز اور سانحہ ماڈل ٹاون کا دباؤ ہے۔ ایسے میں ملک کیسے چلے گا، مجھے تو کوئی سمجھ نہیں آرہی۔