پاکستان کے داخلی اور خارجی دشمن
اصل مسئلہ مسائل کا ایسا حل ہوتا ہے جو ہمیں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے۔
پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچارہے ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم یعنی فیصلہ ساز سیاسی، انتظامی،قانونی اور عسکری اداروں کے درمیان مسائل کو سمجھنے میںاتفاق رائے کا فقدان ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہم مسئلہ کے حل کے بجائے بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال کرخود اپنے آپ کو دنیا میں تماشہ بنارہے ہیں ۔اصولی طور پر تو ہمیں ایک پیچ پر ہوکر اپنے داخلی اور خارجی معاملات سے نمٹنا ، مگر جو کچھ اتفاق رائے کے نام پر ہورہا ہے وہ بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔
پچھلے دنوں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ڈو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ جو لوگ بھی پاکستانی ہونے کا دعویٰ کر کے ملک سے باہر بیٹھ کر اس ملک کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں،وہ اس ملک کے مفاد کے برعکس کام کر رہے ہیں ۔ان کے بقول یہ مٹھی بھر افرادملک سے باہر بیٹھ کر ملک کو توڑنے اور فوج کے خلاف باتیں کرکے عملاً دشمن ممالک کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں ۔اس لیے ان کے خلاف بھی قانونی گرفت ہوگی۔
فوج کے سربراہ کا یہ بیان اگرچہ جنیوا میں بعض قوم پرست بلوچوں کی طرف سے پاکستان مخالف نعرے، بینر، جھنڈے اور پمفلٹ بانٹنے یا لگانے کے حوالے سے سامنے آیا ہے لیکن یہ بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ ان کا اشارہ وسیع تناظر میں بھی ہے۔
یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہوا ، بلکہ اس کے پیچھے وہ عوامل بھی ہیں جو دیگرممالک کی صورت میں پاکستان دشمنی کا بڑا ایجنڈا رکھتے ہیں ۔ان عناصر کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے او ر اس تاثر کو تقویت دی جائے کہ پاکستان خود صورتحال کا ذمے دار ہے ۔اس پر یقینی طور پر پاکستان میں کافی ردعمل ہوا ہے۔ لیکن اس ردعمل کا نقصان خود بھارت کو بھی ہوا ہے ۔بھارت سے آزادی کی تحریکوں سے وابستہ افراد نے بھی جنیوا میں مختلف بسوں میں اپنے نعرے اور بھارت مخالف ایجنڈے کی تشہیر کردی ہے ۔تری پور، منی پور، ناگا لینڈاور کشمیر کی آزادی کے لیے تحریک کا منظر سوئیزلینڈ میں دیکھنے کو ملا ہے ۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارت کے چہرہ کو بری طرح بے نقاب کیا ہے ۔ان کی تقریر کافی جاندار تھی جس سے بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کردیا ۔ان کے بقول بھارت جنوبی ایشیا کے خطہ میں '' دہشتگردی کی ماں '' کا درجہ حاصل کرچکا ہے ۔
جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ، بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ،جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غیر قانونی ہے ۔ ان کے بقول سلامتی کو نسل کی متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بھارت پر دباو بڑھانے کے لیے خصوصی ایلچی کی تقرری کا بھی مطالبہ کیا ۔ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اس نقطہ کو بھی اجاگر کیا کہ بھارت خود اس خطہ میں عدم استحکام پھیلانے کا ایجنڈا رکھتا ہے جو دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات میں رکاوٹ ہے ۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے جس انداز سے امریکا اور بھارت گٹھ جوڑ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے اور جو امریکی صدر نے جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان، افغانستان اور بھارت کے حوالے سے جو پالیسی جاری کی ہے اس میں پاکستان بنیادی نقطہ ہے ۔ سارا دباو ، زور پاکستان پر ہے ، جب کہ بھارت او رافغانستان پر کوئی دباو نہیں ڈالا گیا بلکہ ان کی کھل کر سرپرستی کی گئی ہے ۔
اس لحاظ سے پاکستان پر دباو بڑھانے کی پالیسی یکطرفہ ہے اور اس پر پاکستان کے شدید تحفظات ہیں ۔ایک طرف عالمی اور علاقائی دباو ہے تو دوسری طرف اس دباو کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم داخلی محاذ پرسیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان تقسیم ہے ۔کیونکہ ہمیں جو داخلی محاذ پر مسائل ہیں وہ خود ہمارے خارجی مسائل کو بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں ۔
افغانستان او ربھارت کے حوالے سے جو ہمیں سیاسی طور پر ایک بڑا تفاق رائے پیدا کرکے او رفریقین میں باہمی مشاورت کے ساتھ موقف کو اختیار کرنا چاہیے، اس میں ہم ناکام ہورہے ہیں ۔ وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی اور انتظامی اداروں میں مقابلہ بازی کا جو ہمیں رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے وہ تشویش کا پہلو ہے ۔ہماری سیاسی قیادت کو داخلی اور خارجی مسائل پر ایک بڑی لیڈ لے کر ان تمام مشکلات سے نمٹنا ہوتا ہے جو ہمیں درپیش ہیں ۔لیکن اگر پاکستان کے اندر سے بھی وہی آوازیں بلند ہوں جو ہمارے مخالفین عالمی دنیا میں ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں ہم اسی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ یہ عمل ہمیں عالمی دنیا میں بھی تنہائی میں مبتلا کرتا ہے ۔ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں مل کر ایک ایسی فضا قائم کرنی ہے جس میں ایک دوسرے کے تعاون کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے ۔
مقصد یہ نہیں کہ ہمارے اپنے اندر خامیاں نہیں ، لیکن ان خامیوں پر بات کرنا اور اس پر حکمت عملی بنانا کوئی ٹی وی ٹاک شوز یا پریس کانفرنس کا کھیل نہیں ۔ قومی سیکیورٹی اور داخلی سلامتی کے معاملات کا فورم سیاسی ، عسکری اور انتظامی ادارے ہوتے ہیں جہاں ہم کھل کر اپنے اندر داخلی مسائل کی بنیا دپر بحث کرتے ہیں ، تنقید کرتے ہیں اور آگے سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں ۔لیکن یہ جو ہم نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا ہے، وہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہمارے لیے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔
یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں موجود مختلف فریقین یا تو مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں یا جانتے ہیں مگر سیاست ان کے آڑے آتی ہے ۔مسئلہ سیاسی اور فوجی قیادت کو سوالیہ نشان بنانا نہیں بلکہ اصل مسئلہ مسائل کا ایسا حل ہوتا ہے جو ہمیں داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے ۔یہ تصو ر کہ قو می سیکیورٹی محض فوج کا مسئلہ ہے ، مناسب عمل نہیں ہمیں اس قومی سیکیورٹی کو قومی مسئلہ کے طور پر دیکھنا چاہیے ، تاکہ جو فریقین میں خلیج ہے وہ کم ہوسکے ۔
اس لیے اگر ہمیں اپنے داخلی اور خارجی دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ہر محاذ اور فریقین کی سطح پر اپنے باہمی تضادات اور مسائل کو اتفا ق رائے سے حل کرکے مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھ کر ان کرداروں کی نشاندہی اور جوابدہی کرنا ہوگی کہ وہ کون لوگ یا ادارے ہیں جو ہمارے قومی مفاد، داخلی خود مختاری اور سلامتی کے عمل کو بھی یقینی بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔