اُن کے ہوتے ہوئے دشمن کی ضرورت نہیں
یہ دنیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات و واقعات کے نتیجے میں خود بخودجنم لیا کرتے ہیں۔
موجودہ وزیرِخارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ دنوں نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے پاکستان میں چند فعال اور متحرک کالعدم تنظیموں کے بارے میں نہ صرف اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ اُن تنظیموں کے کچھ سرکردہ افراد کو پاکستان کے لیے بوجھ بھی قرار دیا ہے۔ اُن کے اِس بیان پر ہمارے یہاں کچھ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے جانب سے فوراً شدید رد عمل کا اظہارکیا گیا۔
قطع نظر اِس کے کہ اِس بیان میںکتنی سچائی اور حقیقت پسندی تھی اُن سب ناقدوں نے اپنا سیاسی بغض وعناد نکالنے کے لیے اسے ایک سنہری موقعہ جانا اور اُن کے اس بیان کو ملک سے غداری کے مترادف قرار دے دیا۔ نہ صرف یہی نہیں بلکہ بعض افراد نے حسب عادت فوراً اُن سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کردیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خواجہ آصف کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں۔
گویاخواجہ آصف اپنے اِس ایک بیان پر جس میںانھوں نے ریاستی سطح پر ہونے والی کچھ غلطیوں اورکوتاہیوں کو تسلیم کیا ہے ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن قرار پائے۔ خان صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن کبھی ہماری اپنی مرضی ومنشاء سے نہیں بنا کرتے اور دنیا کا کوئی ملک ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ وہ خواہ مخواہ اپنے ارد گرد دشمن پیدا کرتا پھرے۔ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات و واقعات اور قوموں کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے نتیجے میں خود بخودجنم لیا کرتے ہیں۔
ایران اور افغانستان کل تک ہمارے دوست او ر خیر خوا تھے یہ آج اچانک ہم سے نالاں اورہمارے مخالف کیوں ہوگئے۔ دیکھا جائے تواُن کی یہ مخالفت کسی ایک شخص کی حرکت اور غلطی کا شاخسانہ نہیں ہے۔ یہ صورتحال نائن الیون کے بعد اس خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی اور علاقائی حالات اور پالیسیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے۔
امریکا جب چاہتا ہے اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تحت ہمارا دوست اور خیر خواہ بن جاتا ہے اورجب چاہتا ہے ہم سے متنفر اور ناراض ہوکر ہمارا بدترین دشمن بن جاتا ہے۔ ستر سال سے ہم اُس کی تابعداری اور حکم برداری کررہے ہیں لیکن اُس نے ہم سے مسلسل یہی رویہ اور طرز عمل اپنایا ہوا ہے۔ ہم اگر اُس کے مطالبوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا تمام جان ومال بھی قربان کردیں لیکن وہ پھر بھی ہمارا مخلص اور قابل اعتماد دوست نہیں بن سکتا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اُس کے حکم اور ناز بردار ی میں کیا کچھ نہیں کیا۔اپنی زمین، اپنی فضا اور اپنا سمندر سبھی کچھ اُس کے حوالے کردیے لیکن مطلب نکل جانے کے بعد پہلے کی طرح اس نے آنکھیں پھیرلیں۔ یہی حالت پڑوسی ملک بھارت کی ہے۔ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہمارے اور اُس کے بیچ سارے تنازعات اگر حل بھی ہوجائیں لیکن پھر بھی وہ ہمارادشمن ہی رہے گا اور تو اور جن مذہبی انتہا پسندوں کو ہم نے پال پوس کر افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا تھا وہ بھی آج ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔ اُن کی اِس دشمنی اور عدولی کے پیچھے کارفرما محرکات خواجہ آصف کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے ہماری وہ پالیسیاں اورحکمت عملیاں ہیںجو ہم کئی دہائیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
دیکھا جائے توخواجہ آصف نے ایسی کوئی غلط بات بھی نہیں کہی ہے جس پر ہمارے کچھ لوگ آج اِس قدر سیخ پا اور آگ بگولہ ہورہے ہیں۔انھوں نے تو نیویارک میں بیٹھ کر امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ تک کہہ دیا کہ جن لوگوں کو امریکا آج خطرناک دہشتگرد کہہ رہا ہے یہی لوگ25 سال پہلے امریکا کے لاڈلے تھے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اُڑایا کرتے تھے۔80ء کی دہائی میں پاکستان کاامریکی پراکسی بننا ایک غلط فیصلہ تھا۔ جس کاخمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید اوردیگر دہشتگردوں کو تحفظ دینے کاالزام پاکستان پر نہیں لگایا جائے۔ یہ تو ہم پر بوجھ ہیں۔ جماعت الدعوہ اور جیش محمد پر پابندی لگی ہوئی ہے اور حافظ سعید نظر بند ہیں، مگر اِن سے جان چھڑانے کے لیے ہمیں وقت درکار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سویت یونین کے خلاف جنگ کاحصہ بننا ہماری غلطی تھی لیکن اِس غلطی میں ہم اکیلے نہیں تھے۔ ہمیں استعمال کیا گیا اور پھر ہمیں دھتکار دیا گیا۔
پاکستان پر الزامات لگانے سے پہلے اس بات پر غورکیا جائے کہ پاکستان کے لیے مسائل اور مشکلات سویت یونین کے خلاف امریکی جنگ کے بعد پیدا ہوئے جب پاکستان کو امریکا نے بحیثیت آلہ کار استعمال کیا۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات سے اتفاق ہے کہ پاکستان کو شدت پسندی اور دہشتگردی کی باقیات کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔
خواجہ آصف کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اور ہر جملہ ہمارے اُن تمام محب وطن صاحب و فکردانش اور مخلص پاکستانیوں کے سوچ کے عین مطابق ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کسی دوسرے کی لڑائی میں بلاوجہ اور خوامخواہ استعمال ہو۔ ہم اپنے ملک کو ہر طرح کی دہشتگردی سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ ہم لاکھ انکار کریں لیکن دنیا ہمیں دہشتگردوں کی حمایت کرنے اور انھیں پناہ دینے والا ملک سمجھتی ہے۔
ہمیں اپنی یہ حیثیت اور شناخت بدلنی ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم خود تو اپنے ملک کو دہشتگردی سے بچاتے رہیں اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی دہشتگردی کے وارداتوں پر خوشی اور مسرٌت کااظہار کرتے رہیں۔ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ کوئی شخص ہمارے یہاں سے جاکر کسی اور ملک میںدہشتگردی کرتا پھرے۔ہمارے پالیسی سازوں سے اگر ماضی میں کچھ سنگین غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تواب ہمیں اُن سے اجتناب کرنا ہوگا۔
جو ادارے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی بنانے جیسے اہم کام پر مامور ہیں اور جو بھارت سمیت دیگر ممالک سے پاکستان کے تعلقات اور معاملات کی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں انھیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم مستقبل کے پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ہوسکتا ہے کسی کے کہنے پر مجبوراً اور طوعاً و کرہاً کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں ہمیں اس لیے اچھی لگتی ہوںکیونکہ آج وہ ہمارے لیے بہت مفید اورکارآمد ہیں، لیکن افغان حریت پسندوں اور طالبان کی طرح کل وہ اگرہماری بقاء اور سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائیں تو اِس کا ذمے دار کون ہوگا۔
جس طرح کل تک ہمیں افغانی جنگجو اور طالبان بہت عزیز تھے اور ہم اُن کی حمایت اور سر پرستی کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کیاکرتے تھے۔ لیکن حالات اور واقعات کے کروٹ بدلتے ہی وہ ہمارے لوگوں اور ہمارے بچوںکے لیے ایک خونخوار دشمن کا روپ دھار گئے۔ جس عالمی طاقت کے کہنے پر ہم نے اُن کی پرورش کی تھی سویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد وہ ہمیںتنہا چھوڑ گیا اور بقول خواجہ آصف ہم ابھی تک اُسی جہنم میں جل رہے ہیں۔
عالمی طاقتوں اور افغانستان سے تعلقات کس طرح استوار کرنے ہیں، کشمیر کی لڑائی کس طرح لڑنی ہے، بھارت سے معاملات کن اُصولوں اور ضابطوں پر طے کرنے ہیں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے یہاں یہ سب کچھ کون دیکھتا ہے اورکون طے کرتا ہے۔2015ء میں شروع کیا جانے والا نیشنل ایکشن پلان تمام بڑی بڑی کامیابیوں کے باوجود ابھی تک کیوں مکمل نہیں ہو پایا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ فوج کے ذمے جو کام تھاوہ ضرب العضب کی شکل میں پورا ہوچکا ہے لیکن سول حکومت کے ذمے جو کام تھا وہ تاحال ادھورا ہے۔مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کچھ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں کون سے عوامل حائل اور کارفرما ہیں ۔ مسعود اظہر اور حافظ سعید کو کن لوگوں کی درپردہ حمایت اور سپورٹ حاصل ہے۔ ہم نیشنل ایکشن پلان کے مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر سول اداروں کو مورد الزام تو ٹہراتے ہیں لیکن اُس کی وجوہات اور محرکات پر غور نہیں کرتے۔
ہمیں کم از کم خواجہ آصف کی اُس جرأت رندانہ کی تعریف تو کرنی چاہیے کہ انھوں نے امریکا میں بیٹھ کر امریکی حکمرانوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ انھوں نے انھیں صاف صاف بتا دیا کہ جن لوگوں کو وہ آج خطرناک دہشتگرد قرار دے رہیں وہ کل تک اُن کی بڑے لاڈلے اور محبوب تھے اوروہ وہاں وہائٹ ہاؤس میں دعوتیں بھی اُڑایاکرتے تھے۔
خواجہ آصف نے اپنے ملک میں دہشتگردوں کے خلاف مزید کارروائی کے لیے یہ ضرورکہا کہ ہمیں کچھ وقت درکار ہے لیکن انھوں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ہمارے کون سے ادارے اِس مقصد کے حصول میں مانع اور مزاحم ہیں۔ انھوں نے تو اِس ناکامی کی ساری ذمے داری خود اپنی حکومت کے نام لکھوا دی ہے۔
قطع نظر اِس کے کہ اِس بیان میںکتنی سچائی اور حقیقت پسندی تھی اُن سب ناقدوں نے اپنا سیاسی بغض وعناد نکالنے کے لیے اسے ایک سنہری موقعہ جانا اور اُن کے اس بیان کو ملک سے غداری کے مترادف قرار دے دیا۔ نہ صرف یہی نہیں بلکہ بعض افراد نے حسب عادت فوراً اُن سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کردیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خواجہ آصف کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں۔
گویاخواجہ آصف اپنے اِس ایک بیان پر جس میںانھوں نے ریاستی سطح پر ہونے والی کچھ غلطیوں اورکوتاہیوں کو تسلیم کیا ہے ملک اور قوم کے سب سے بڑے دشمن قرار پائے۔ خان صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن کبھی ہماری اپنی مرضی ومنشاء سے نہیں بنا کرتے اور دنیا کا کوئی ملک ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ وہ خواہ مخواہ اپنے ارد گرد دشمن پیدا کرتا پھرے۔ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات و واقعات اور قوموں کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے نتیجے میں خود بخودجنم لیا کرتے ہیں۔
ایران اور افغانستان کل تک ہمارے دوست او ر خیر خوا تھے یہ آج اچانک ہم سے نالاں اورہمارے مخالف کیوں ہوگئے۔ دیکھا جائے تواُن کی یہ مخالفت کسی ایک شخص کی حرکت اور غلطی کا شاخسانہ نہیں ہے۔ یہ صورتحال نائن الیون کے بعد اس خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی اور علاقائی حالات اور پالیسیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے۔
امریکا جب چاہتا ہے اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تحت ہمارا دوست اور خیر خواہ بن جاتا ہے اورجب چاہتا ہے ہم سے متنفر اور ناراض ہوکر ہمارا بدترین دشمن بن جاتا ہے۔ ستر سال سے ہم اُس کی تابعداری اور حکم برداری کررہے ہیں لیکن اُس نے ہم سے مسلسل یہی رویہ اور طرز عمل اپنایا ہوا ہے۔ ہم اگر اُس کے مطالبوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا تمام جان ومال بھی قربان کردیں لیکن وہ پھر بھی ہمارا مخلص اور قابل اعتماد دوست نہیں بن سکتا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اُس کے حکم اور ناز بردار ی میں کیا کچھ نہیں کیا۔اپنی زمین، اپنی فضا اور اپنا سمندر سبھی کچھ اُس کے حوالے کردیے لیکن مطلب نکل جانے کے بعد پہلے کی طرح اس نے آنکھیں پھیرلیں۔ یہی حالت پڑوسی ملک بھارت کی ہے۔ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہمارے اور اُس کے بیچ سارے تنازعات اگر حل بھی ہوجائیں لیکن پھر بھی وہ ہمارادشمن ہی رہے گا اور تو اور جن مذہبی انتہا پسندوں کو ہم نے پال پوس کر افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے بھیجا تھا وہ بھی آج ہمارے دشمن بن چکے ہیں۔ اُن کی اِس دشمنی اور عدولی کے پیچھے کارفرما محرکات خواجہ آصف کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کے پیچھے ہماری وہ پالیسیاں اورحکمت عملیاں ہیںجو ہم کئی دہائیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
دیکھا جائے توخواجہ آصف نے ایسی کوئی غلط بات بھی نہیں کہی ہے جس پر ہمارے کچھ لوگ آج اِس قدر سیخ پا اور آگ بگولہ ہورہے ہیں۔انھوں نے تو نیویارک میں بیٹھ کر امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ تک کہہ دیا کہ جن لوگوں کو امریکا آج خطرناک دہشتگرد کہہ رہا ہے یہی لوگ25 سال پہلے امریکا کے لاڈلے تھے اور وائٹ ہاؤس میں دعوتیں اُڑایا کرتے تھے۔80ء کی دہائی میں پاکستان کاامریکی پراکسی بننا ایک غلط فیصلہ تھا۔ جس کاخمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید اوردیگر دہشتگردوں کو تحفظ دینے کاالزام پاکستان پر نہیں لگایا جائے۔ یہ تو ہم پر بوجھ ہیں۔ جماعت الدعوہ اور جیش محمد پر پابندی لگی ہوئی ہے اور حافظ سعید نظر بند ہیں، مگر اِن سے جان چھڑانے کے لیے ہمیں وقت درکار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سویت یونین کے خلاف جنگ کاحصہ بننا ہماری غلطی تھی لیکن اِس غلطی میں ہم اکیلے نہیں تھے۔ ہمیں استعمال کیا گیا اور پھر ہمیں دھتکار دیا گیا۔
پاکستان پر الزامات لگانے سے پہلے اس بات پر غورکیا جائے کہ پاکستان کے لیے مسائل اور مشکلات سویت یونین کے خلاف امریکی جنگ کے بعد پیدا ہوئے جب پاکستان کو امریکا نے بحیثیت آلہ کار استعمال کیا۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات سے اتفاق ہے کہ پاکستان کو شدت پسندی اور دہشتگردی کی باقیات کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔
خواجہ آصف کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اور ہر جملہ ہمارے اُن تمام محب وطن صاحب و فکردانش اور مخلص پاکستانیوں کے سوچ کے عین مطابق ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کسی دوسرے کی لڑائی میں بلاوجہ اور خوامخواہ استعمال ہو۔ ہم اپنے ملک کو ہر طرح کی دہشتگردی سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ ہم لاکھ انکار کریں لیکن دنیا ہمیں دہشتگردوں کی حمایت کرنے اور انھیں پناہ دینے والا ملک سمجھتی ہے۔
ہمیں اپنی یہ حیثیت اور شناخت بدلنی ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم خود تو اپنے ملک کو دہشتگردی سے بچاتے رہیں اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی دہشتگردی کے وارداتوں پر خوشی اور مسرٌت کااظہار کرتے رہیں۔ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ کوئی شخص ہمارے یہاں سے جاکر کسی اور ملک میںدہشتگردی کرتا پھرے۔ہمارے پالیسی سازوں سے اگر ماضی میں کچھ سنگین غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تواب ہمیں اُن سے اجتناب کرنا ہوگا۔
جو ادارے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی بنانے جیسے اہم کام پر مامور ہیں اور جو بھارت سمیت دیگر ممالک سے پاکستان کے تعلقات اور معاملات کی دیکھ بھال کے ذمے دار ہیں انھیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم مستقبل کے پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ہوسکتا ہے کسی کے کہنے پر مجبوراً اور طوعاً و کرہاً کالعدم قرار دی جانے والی تنظیمیں ہمیں اس لیے اچھی لگتی ہوںکیونکہ آج وہ ہمارے لیے بہت مفید اورکارآمد ہیں، لیکن افغان حریت پسندوں اور طالبان کی طرح کل وہ اگرہماری بقاء اور سالمیت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائیں تو اِس کا ذمے دار کون ہوگا۔
جس طرح کل تک ہمیں افغانی جنگجو اور طالبان بہت عزیز تھے اور ہم اُن کی حمایت اور سر پرستی کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کیاکرتے تھے۔ لیکن حالات اور واقعات کے کروٹ بدلتے ہی وہ ہمارے لوگوں اور ہمارے بچوںکے لیے ایک خونخوار دشمن کا روپ دھار گئے۔ جس عالمی طاقت کے کہنے پر ہم نے اُن کی پرورش کی تھی سویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد وہ ہمیںتنہا چھوڑ گیا اور بقول خواجہ آصف ہم ابھی تک اُسی جہنم میں جل رہے ہیں۔
عالمی طاقتوں اور افغانستان سے تعلقات کس طرح استوار کرنے ہیں، کشمیر کی لڑائی کس طرح لڑنی ہے، بھارت سے معاملات کن اُصولوں اور ضابطوں پر طے کرنے ہیں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے یہاں یہ سب کچھ کون دیکھتا ہے اورکون طے کرتا ہے۔2015ء میں شروع کیا جانے والا نیشنل ایکشن پلان تمام بڑی بڑی کامیابیوں کے باوجود ابھی تک کیوں مکمل نہیں ہو پایا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ فوج کے ذمے جو کام تھاوہ ضرب العضب کی شکل میں پورا ہوچکا ہے لیکن سول حکومت کے ذمے جو کام تھا وہ تاحال ادھورا ہے۔مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کچھ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں کون سے عوامل حائل اور کارفرما ہیں ۔ مسعود اظہر اور حافظ سعید کو کن لوگوں کی درپردہ حمایت اور سپورٹ حاصل ہے۔ ہم نیشنل ایکشن پلان کے مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر سول اداروں کو مورد الزام تو ٹہراتے ہیں لیکن اُس کی وجوہات اور محرکات پر غور نہیں کرتے۔
ہمیں کم از کم خواجہ آصف کی اُس جرأت رندانہ کی تعریف تو کرنی چاہیے کہ انھوں نے امریکا میں بیٹھ کر امریکی حکمرانوں کو آئینہ دکھایا ہے۔ انھوں نے انھیں صاف صاف بتا دیا کہ جن لوگوں کو وہ آج خطرناک دہشتگرد قرار دے رہیں وہ کل تک اُن کی بڑے لاڈلے اور محبوب تھے اوروہ وہاں وہائٹ ہاؤس میں دعوتیں بھی اُڑایاکرتے تھے۔
خواجہ آصف نے اپنے ملک میں دہشتگردوں کے خلاف مزید کارروائی کے لیے یہ ضرورکہا کہ ہمیں کچھ وقت درکار ہے لیکن انھوں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ہمارے کون سے ادارے اِس مقصد کے حصول میں مانع اور مزاحم ہیں۔ انھوں نے تو اِس ناکامی کی ساری ذمے داری خود اپنی حکومت کے نام لکھوا دی ہے۔