جو اصل خواجہ سرا ہیں آخری حصہ
یہ سب اللہ کی دین ہے اور ان خواجہ سراؤں کی روز کی دعائیں وہ آتے جاتے ہر وقت مجھ کو دعا دیتے تھے۔
اصل خواجہ سرا باقاعدہ نماز، روزہ، صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں لیکن گھر میں نماز ادا کرتے ہیں۔ ایک خواجہ سرا بولا عام انسان کو شاید پورے کلمے نہ یاد ہوں ہم سارے کلمے سنا سکتے ہیں اور مجھے سارے کلمے سنائے۔ آفرین ہے ان پر میں ان کے اس مذہبی رجحانات پر متاثر ہوا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا دیکھو میں کچھ کرسکوں یا نہ کرسکوں لیکن آپ کے بارے میں اپنے کالم میں ضرور تحریر کروں گا اور آپ کی طرف سے حکومت پاکستان سے استدعا کروں گا کہ عمرہ اور حج کی اجازت عنایت فرمائیں کیونکہ یہ ان خواجہ سراؤں کی دینی خواہش و جذبات ہیں جس پر ہم ان کو روک نہیں سکتے۔ یہ بھی انسان ہیں ان کو وہ تمام مراعات سہولتیں ملنی چاہئیں جو ایک انسان کو ملتی ہیں۔
مجھے ایک بہت پرانی بات یاد آرہی ہے جب میری عمر صرف دس سال تھی۔ میں لیاقت آباد میں رہتا تھا میرے گھر سے بلاک نمبر 6 لیاقت آباد قریب تھا یہاں مشہور ہوٹل 420 تھا۔ اکثر وہاں جانا ہوتا تھا ہوٹل والی گلی میں چند خواجہ سرا رہائش پذیر تھے کرائے کا مکان تھا وہ لوگ ان کو جانتے تھے لیکن جب باہر آتے تو لڑکے چھیڑتے وہ تالیاں بجاکر ہنستے ہوئے ان کو بہلا دیتے کبھی کوئی تلخ بات نہ کی۔ ہوٹل کے کونے پر ایک پان فروش کی دکان تھی۔ وہ سارے 6 کی تعداد میں تھے وہ اس دکان پر جا کر پان کھاتے۔ پان والا ان سے کبھی پیسے نہیں لیتا ایسا بھی ہوا ان کے پاس شام کو پیسے نہ تھے کہ کھانا کھا سکیں یہ پان فروش ان کو پیسے دے دیتا۔
ایک دفعہ اچانک میں اور میرے والد وہاں سے گزر رہے تھے۔ دیکھا پان کی دکان پر خواجہ سرا کھڑا ہے کہہ رہا ہے آج کھانے کو بھی نہیں، اس وقت پرانی بات ہے جب اس پان والے نے سو کا نوٹ نکال کر دے دیا۔ خواجہ سرا بولا اس قدر رقم میں کیا کروں گی، پان والا بولا لے جاؤ کام آئیں گے۔ والد اور میں دیکھنے وہاں کھڑے ہوگئے۔ جب وہ چلا گیا تو والد نے پان والے سے پوچھا کیا تم روز ان کو رقم دیتے ہو۔ کہنے لگا پان روز دیتا ہوں رقم کبھی کبھی جب ان کے پاس کچھ نہ ہو تو یہ مجھ سے مانگ لیتے ہیں، ہمیشہ یہ مجھے بے حد دعا دیتے ہیں ان کی دعاؤں کا اثر ہے اتنا چھوٹا کیبن ہے بڑی دکانوں سے زیادہ میری سیل ہے۔
وقت گزر گیا تقریباً پندرہ سال بعد میں نے دیکھا وہی پان والا لیاقت آباد کمرشل ایریا فردوس شاپنگ سینٹر کے عقب میں ایک ہول سیل پان کی دکان چلا رہا ہے۔ میں کھڑا ہوگیا اس نے مجھے دیکھا لیکن پہچانا نہیں۔ میں نے اس کو کہا آپ وہی پان والے ہیں جو خواجہ سراؤں کو روز پان کھلاتے تھے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑا۔ بیٹا! تم نے پرانی بات کردی اب تو وہ خواجہ سرا بھی وہاں نہیں کہیں اور دوسری جگہ دور چلے گئے۔ کبھی دو تین مہینے میں یہاں آتے ہیں میری چار دکانیں پان کی ہیں دو پر دونوں لڑکے بیٹھتے ہیں دو پر میرے سالے بیٹھتے ہیں یہ ہول سیل پان کی بڑی دکان میں خود چلاتا ہوں۔ خود جاکر ہول سیل میں پان لاتا ہوں ایک ملازم رکھا ہے یہ اٹھائی دھری کا کام کرتا ہے۔
اللہ کا بڑا شکر ہے ان خواجہ سراؤں کی دعاؤں نے آج مجھ کو پندرہ سال میں لکھ پتی بنادیا میں نے سوچا بھی نہ تھا میں اس قدر مالدار ہوجاؤں گا۔ یہ سب اللہ کی دین ہے اور ان خواجہ سراؤں کی روز کی دعائیں وہ آتے جاتے ہر وقت مجھ کو دعا دیتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کیا خواجہ سراؤں کی دعاؤں میں اس قدر اثر ہے۔ وہ کہنے لگا میرے ساتھ تو ان کی دعاؤں کا اثر ظاہر ہے میں نے خلوص دل بغیر کسی لالچ کے دعا کی بلکہ ان کو لڑکے تنگ کرتے چھیڑتے تو میں ان لڑکوں کو ڈانٹتا وہاں سے بھگاتا اس پر بھی وہ مجھے دعا دیتے۔ کہتے تھے ہمارے دل سے تمہارے لیے دعا نکلتی ہے امید ہے ایک دن آپ بہت مالدار ہو گے۔ لیکن جب میں مالدار ہوا تو وہ لوگ وہاں سے دور چلے گئے کیونکہ مالک مکان نے خالی کروا لیا تھا، اس لیے وہ چلے گئے۔
عموماً لفنگے قسم کے لڑکے ان کو چھیڑتے ہیں بے چارے تالیاں بجا کر انھیں بھی خوش کردیتے ہیں۔ اگر ذرا بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کردے دعا ضرور دیتے ہیں۔ میں نے کبھی بددعا دیتے نہیں سنا ہاں زیادہ کسی نے پریشان کیا پیچھے لگ گیا تو اتنا ضرورکہا ''جاؤ بھائی تم کو اللہ سمجھے گا'' بس اس سے آگے کچھ نہیں۔ اگر قریب سے ان کا جائزہ لیا جائے تو لوگ ششدر رہ جائیں گے کس قدر سادہ زندگی ہے اگر بھوکے بھی ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو اپنا کھانا کھلا دیتے ہیں خود بہانہ کرتے ہیں میرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے۔
آپس میں اس قدر اتحاد و یگانگت ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ نہایت خاموشی سے گھر سے نکلتے ہیں اور خاموش انداز میں گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں آٹھ سے بیس تک مورت رہتے ہیں۔ یہ لوگ مورت اصل خسرے کو کہتے ہیں اور نربان جو آپریشن سے یا مصنوعی خسرہ بنا ہو اس کو کہتے ہیں ان کے یہ دو لفظ مشہور ہیں مورت اور نربان۔
میری زوجہ جب مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینل کے مارننگ شوز میں کام کرتی تھیں تو کبھی کبھی ازروئے تفریح میں بھی چلا جاتا۔ ایک دن گلشن اقبال سے ایک خسرے کو اس کے گھر سے صبح 7 بجے لیا اس لیے مارننگ شو میں اس کو پیش کرنا تھا۔ قدرت نے مجھے گلشن اقبال سے لے کر ایم اے جناح روڈ تک اس خسرے کے ساتھ گفت و شنید کا موقعہ دے دیا کیونکہ میں جان کر پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ اپنی ساری نجی باتیں بتاتا رہا۔
میں نے اس سے پوچھا تمہارا مزید کیا خیال ہے اس نے مجھے ایک بڑی حیرت انگیز حیران کردینے والی بات بتائی۔ اس نے کہا کئی ٹی وی چینل میں جہاں خسرے کام کرتے ہیں انھوں نے اپنے آپ کو خسرہ نہیں بتایا وہ بہت پڑھے لکھے ہیں صرف ہم لوگ جانتے ہیں وہ خسرے ہیں۔ ہم کو وہ اپنے ٹی وی چینل پر اکثر بلاتے، شو کرتے ہیں۔میری کوشش ہے کہ کراچی سے باہر اسلام آباد وغیرہ میں جاکر کام کروں تاکہ وہاں لوگ مجھے پہچان نہ سکیں۔ میں نے انگلش میں ایم اے کیا ہے والد کہتے ہیں اگر مزید تعلیم حاصل کرنا ہے تو کرلو، میرے خیال میں اتنی تعلیم میرے لیے کافی ہے۔