روہنگیا مظالم پر خاموشی پر سوچی سے ’’فریڈم آف آکسفورڈ‘‘ کا اعزاز بھی چھن گیا
سوچی کو یہ اعزاز جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کرنے پر 1997 میں دیا گیا تھا
THE HAGUE:
میانمار کی فوج کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے والی نوبیل انعام یافتہ برمی رہنما آنگ سان سوچی سے ''فریڈم آف آکسفورڈ'' کا اعزاز چھین لیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آنگ سان سوچی سے یہ اعزاز واپس لینے کی وجہ روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج کے مظالم اور قتل عام پر خاموشی اختیار کرنا اور حکمراں جماعت کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے ظلم و زیادتی کے اس سلسلے کو نہ روکنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مظالم پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے سوچی کی تصویر اتار دی
سوچی کو یہ اعزاز جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کرنے پر 1997 میں دیا گیا تھا تاہم آکسفورڈ سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اب سوچی اس اعزاز کو اپنے پاس رکھنے کی اہل نہیں رہیں۔
خیال رہے کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں 25 اگست سے شروع ہونے والی کشیدگی میں اب تک سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں اور 5 لاکھ کے قریب افراد بنگلادیش ہجرت کر چکے ہیں۔ میانمار میں نومبر 2015 میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور آنگ سان سوچی اس پارٹی کی سربراہ ہیں۔
اس سے قبل روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے مرکزی دروازے سے آنگ سان سوچی کی تصویر ہٹالی تھی جبکہ سوچی سے امن کا نوبیل انعام واپس لینے کی مہم بھی چل رہی ہے۔
میانمار کی فوج کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے والی نوبیل انعام یافتہ برمی رہنما آنگ سان سوچی سے ''فریڈم آف آکسفورڈ'' کا اعزاز چھین لیا گیا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آنگ سان سوچی سے یہ اعزاز واپس لینے کی وجہ روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج کے مظالم اور قتل عام پر خاموشی اختیار کرنا اور حکمراں جماعت کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے ظلم و زیادتی کے اس سلسلے کو نہ روکنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مظالم پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے سوچی کی تصویر اتار دی
سوچی کو یہ اعزاز جمہوریت کے لیے طویل جدوجہد کرنے پر 1997 میں دیا گیا تھا تاہم آکسفورڈ سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اب سوچی اس اعزاز کو اپنے پاس رکھنے کی اہل نہیں رہیں۔
خیال رہے کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں 25 اگست سے شروع ہونے والی کشیدگی میں اب تک سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہو چکے ہیں اور 5 لاکھ کے قریب افراد بنگلادیش ہجرت کر چکے ہیں۔ میانمار میں نومبر 2015 میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور آنگ سان سوچی اس پارٹی کی سربراہ ہیں۔
اس سے قبل روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے مرکزی دروازے سے آنگ سان سوچی کی تصویر ہٹالی تھی جبکہ سوچی سے امن کا نوبیل انعام واپس لینے کی مہم بھی چل رہی ہے۔