مردار خور اور ماحول دوست پرندہ گدھ ملک میں نایاب ہونے لگا
ڈکلو فینک سوڈیم کے اثرات کے شکار مردہ جانور کھانے سے گدھ تیزی سے مر رہے ہیں، دوا پر پابندی لگائی جائے، معظم خان
سیکڑوں برسوں سے کرہ ارض پر موجود مردار خور پرندہ گدھ پاکستان میں نایاب ہونے لگا ہے۔
بدقسمتی سے انسانی ہاتھوں سے ہونے والے کچھ عوامل کے نتیجے میں قدیمی اہمیت کا حامل یہ پرندہ پاکستان میں نایاب ہوتا جارہا ہے۔ گدھ کو ماحول صاف کرنے والا جاندار بھی تصورکیا جاتاہے کیونکہ مرے ہوئے جانور اس بھاری بھرکم پرندے کی مرغوب غذا ہیں۔
ماہرین ماحولیات اس بات پر سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ گدھوں کی مختلف اقسام کے معدوم ہونے کے خدشات پر فوری کون کون سے اقدامات کیے جائیں تاکہ اس نقصان کو روکا جائے،فوری طور پرگدھوں کی معدومیت کے تناظر میں جو نتیجہ اخذ کیا گیا وہ لائیو اسٹاک میں جانوروںکومختلف امراض میں لگائے جانے والے درد کش دوا کے انجکشن کا بے دریغ استعمال ہے جو اس پرندے کی موت کا سبب بن رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں کو مختلف نوعیت کی بیماریوں میں دی جانے والی دواؤں سے متاثر کسی مرے ہوئے جانور کو کھانے کے بعد گدھ کے گردے فیل ہوجاتے ہیں جو اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے، پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش اور نیپال میں بھی گرفن ولچر، بلیک ولچر، ترکی اور مصری نسل کے گدھ کی نسلیں معدومیت سے دوچار ہو چکی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان کے مطابق گدھوں کا ناپید ہونا ڈکلوفینک سوڈیم کا استعمال ہو نے کی وجہ سے ہے کیونکہ مرے ہوئے جانورجس کے جسم میں اس دوا کے اثرات موجود ہو اور اسے گدھ کھالے تو گدھ کے گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، گدھ ابھی پاکستان میں مکمل تو ختم نہیں ہوئے مگر یہ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
گدھ کی دنیا بھر میں پائی جانے والی 8 میں سے 7 اقسام سندھ اور بلوچستان میں پائی جاتی تھی، ماضی میں شہر میںچلائی جانے والی کتا مار مہم کے دوران مارے جانے والے کتے ان گدھوں کی خوراک بنتے تھے، گدھ کی تعداد میںکمی کے باعث دوسرے جانوروںکی تعدا د میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، ماہرین ماحولیات اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ڈکلو فینک سوڈیم نامی دوا کے استعمال پر فوری پابندی عائد کردینی چاہیے، دیہی علاقوں میں اس درد کش دوا کا کثرت سے استعمال اب بھی عام ہے۔
نایاب ہونے والے اس جاندار کا ناطہ ویسے تو عام ماحول سے ٹوٹتا جا رہا ہے مگر اندرون سندھ کے ضلع ننگر پارکر اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں اب بھی گدھ کی افزائش ہو رہی ہے تاہم ان علاقوں میں پائی جانے والی انسانی آبادی سے ان گدھوں کا تحفظ انتہائی ضروری ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف نے گدھوں کی افزائش نسل کے لیے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے، چھانگا مانگا کے جنگلات کے قریب ولچر ریسٹورنٹ کے نام سے افزائش گدھ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے،گدھوں کی افزائش کے اس عمل کے بعد ماہرین ماحولیات کو امید ہے کہ مزید اقدامات کے ذریعے اس نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔
بدقسمتی سے انسانی ہاتھوں سے ہونے والے کچھ عوامل کے نتیجے میں قدیمی اہمیت کا حامل یہ پرندہ پاکستان میں نایاب ہوتا جارہا ہے۔ گدھ کو ماحول صاف کرنے والا جاندار بھی تصورکیا جاتاہے کیونکہ مرے ہوئے جانور اس بھاری بھرکم پرندے کی مرغوب غذا ہیں۔
ماہرین ماحولیات اس بات پر سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ گدھوں کی مختلف اقسام کے معدوم ہونے کے خدشات پر فوری کون کون سے اقدامات کیے جائیں تاکہ اس نقصان کو روکا جائے،فوری طور پرگدھوں کی معدومیت کے تناظر میں جو نتیجہ اخذ کیا گیا وہ لائیو اسٹاک میں جانوروںکومختلف امراض میں لگائے جانے والے درد کش دوا کے انجکشن کا بے دریغ استعمال ہے جو اس پرندے کی موت کا سبب بن رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں کو مختلف نوعیت کی بیماریوں میں دی جانے والی دواؤں سے متاثر کسی مرے ہوئے جانور کو کھانے کے بعد گدھ کے گردے فیل ہوجاتے ہیں جو اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے، پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش اور نیپال میں بھی گرفن ولچر، بلیک ولچر، ترکی اور مصری نسل کے گدھ کی نسلیں معدومیت سے دوچار ہو چکی ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان کے مطابق گدھوں کا ناپید ہونا ڈکلوفینک سوڈیم کا استعمال ہو نے کی وجہ سے ہے کیونکہ مرے ہوئے جانورجس کے جسم میں اس دوا کے اثرات موجود ہو اور اسے گدھ کھالے تو گدھ کے گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، گدھ ابھی پاکستان میں مکمل تو ختم نہیں ہوئے مگر یہ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
گدھ کی دنیا بھر میں پائی جانے والی 8 میں سے 7 اقسام سندھ اور بلوچستان میں پائی جاتی تھی، ماضی میں شہر میںچلائی جانے والی کتا مار مہم کے دوران مارے جانے والے کتے ان گدھوں کی خوراک بنتے تھے، گدھ کی تعداد میںکمی کے باعث دوسرے جانوروںکی تعدا د میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، ماہرین ماحولیات اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ڈکلو فینک سوڈیم نامی دوا کے استعمال پر فوری پابندی عائد کردینی چاہیے، دیہی علاقوں میں اس درد کش دوا کا کثرت سے استعمال اب بھی عام ہے۔
نایاب ہونے والے اس جاندار کا ناطہ ویسے تو عام ماحول سے ٹوٹتا جا رہا ہے مگر اندرون سندھ کے ضلع ننگر پارکر اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں اب بھی گدھ کی افزائش ہو رہی ہے تاہم ان علاقوں میں پائی جانے والی انسانی آبادی سے ان گدھوں کا تحفظ انتہائی ضروری ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف نے گدھوں کی افزائش نسل کے لیے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے، چھانگا مانگا کے جنگلات کے قریب ولچر ریسٹورنٹ کے نام سے افزائش گدھ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے،گدھوں کی افزائش کے اس عمل کے بعد ماہرین ماحولیات کو امید ہے کہ مزید اقدامات کے ذریعے اس نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔