شدید سرد ماحول میں حیاتی سالموں کی خردبینی عکس بندی کیلئے کیمیا کا نوبل انعام

خردبینی عکس نگاری کی یہ نئی شاخ ’’کرائیو الیکٹرون مائیکرو اسکوپی‘‘ کہلاتی ہے۔

فزکش اور کیمسٹری کے نوبل انعام یافتگان کو دیا جانے والا نوبل میڈل سب سے مختلف ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس سال کیمیا کا نوبل انعام ''کرائیو الیکٹرون مائیکرواسکوپی'' نامی تکنیک وضع کرنے اور اس کی مدد سے انتہائی سرد محلول میں موجود حیاتیاتی سالمات کی تفصیلی عکس بندی کرنے والے تین سائنسدانوں یاک دوبوشے، جاؤکم فرانک اور رچرڈ ہینڈرسن کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ انعام کی رقم ان تینوں ماہرین میں مساوی تقسیم کی جائے گی۔

نوبل پرائز کمیٹی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، انتہائی سرد ماحول میں کسی محلول کے اندر سالمات کی عکس بندی سے حیاتی کیمیا (بایوکیمسٹری) کے شعبے میں انقلاب برپا ہوا ہے جبکہ خود الیکٹرون مائیکرواسکوپی کی ٹیکنالوجی ایک نئے عہد میں داخل ہوئی ہے۔

اس سال کا نوبل انعام برائے کیمیا حاصل کرنے والے یاک دوبوشے کا تعلق یونیورسٹی آف لازین، سوئٹزرلینڈ سے؛ جاؤکم فرانک کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی، امریکہ سے؛ جبکہ رچرڈ ہینڈرسن کا تعلق ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بائیالوجی، کیمبرج، برطانیہ سے ہے۔

بتاتے چلیں کہ نہ صرف ہماری زندگی بلکہ صحت کا تعلق بھی خامروں، ہارمون اور پروٹین وغیرہ سے ہے جنہیں مجموعی طور پر ''حیاتیاتی سالمات'' (بایولاجیکل مالیکیولز) کہا جاتا ہے۔ انتہائی مختصر ساختوں کی تصویر کشی اور عکس بندی کےلیے اگرچہ الیکٹرون خردبین کئی عشروں سے موجود ہے لیکن حیاتیاتی سالمات کے معاملے میں یہ کسی کام کی نہیں تھی کیونکہ اس خردبین میں الیکٹرونوں کی بوچھاڑیں (الیکٹرون بیمز) استعمال کی جاتی ہیں جو ان نازک مالیکیولز کو تباہ کر دیتی ہیں۔ 1970 سے لے کر 1990 تک کے عشروں میں ان تینوں سائنسدانوں نے وہ عملی تکنیکیں وضع کیں جن کی مدد سے الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو حیاتیاتی سالمات کی عکس بندی کے قابل بنایا گیا۔

اپنی ان ہی انقلابی تحقیقات کے ذریعے انہوں نے نہ صرف سالم حالت میں مختلف پروٹینز کی کامیاب عکس بندی کی، بلکہ ان کی بہت واضح، تفصیلی اور سہ جہتی (تھری ڈی) تصاویر بھی حاصل کیں جن کی وجہ سے تحقیق کاروں کو بایوکیمسٹری کے شعبے میں غیرمعمولی سہولت حاصل ہوئی۔ کرائیو الیکٹرون مائیکرواسکوپی کی بدولت آج ہم زندگی سے متعلق سالموں کے بارے میں کہیں بہتر طور پر جان سکتے ہیں، ان کی ساخت کو سمجھ سکتے ہیں اور سالماتی سطح پر امراض کی تشخیص سے لے کر نئی دواؤں کی تیاری (ڈرگ ڈیویلپمنٹ) تک میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اس سال کا نوبل انعام برائے کیمیا ان ہی گراں قدر سائنسی تحقیقات کا اعتراف ہے۔

 

کیمیا (کیمسٹری) کے نوبل انعامات: چند دلچسپ تاریخی معلومات



  • 1901 سے 2016 تک کیمیا/ کیمسٹری کے شعبے میں 108 مرتبہ نوبل انعامات دیئے جاچکے ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران 8 سال ایسے تھے جن میں کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔ 1916، 1917، 1919، 1924، 1933، 1940، 1941 اور 1942 میں کیمیا کا کوئی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔

  • ان 116 سال میں کُل 174 افراد کو نوبل انعام برائے کیمیا دیا جاچکا ہے جن میں سے فریڈرک سینگر وہ واحد کیمیادان تھے جنہیں اس زمرے میں دو مرتبہ (1958 اور 1980 میں) نوبل انعام سے نوازا گیا۔

  • ان میں سے 63 نوبل انعامات برائے کیمیا ایک ایک سائنسدان کو (بلا شرکتِ غیرے) دیئے گئے؛ 23 انعامات دو دو ماہرین کو مشترکہ طور پر؛ جبکہ کیمیا کے 22 نوبل انعامات میں تین تین تحقیق کاروں کو ایک ساتھ شریک قرار دیا گیا۔

  • نوبل اسمبلی کے دستور کے مطابق کوئی بھی ایک نوبل انعام تین سے زیادہ افراد میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔

  • کیمیا میں اب تک چار خواتین نوبل انعام حاصل کرچکی ہیں؛ اور یہ تعداد سائنس کے دوسرے شعبہ جات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

  • 2016 تک کیمیا (کیمسٹری) کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں کی اوسط عمر 58 سال رہی ہے۔

  • کیمیا میں سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ سائنسداں فریڈرک جولیٹ تھے جنہیں 35 سال کی عمر میں 1935 کے نوبل انعام برائے کیمیا میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مشترکہ طور پر حقدار قرار دیا گیا۔ ان کی اہلیہ آئرین جولیٹ کیوری، مشہور خاتون سائنسدان میری کیوری کی بیٹی تھیں۔

  • اسی کٹیگری میں سب سے عمر رسیدہ سائنسداں جان بی فن تھے جنہیں 85 سال کی عمر میں 2002 کا نوبل انعام برائے کیمیا دیا گیا۔

  • ویسے تو کیمیا کا نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد میں تین نام ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ نوبل انعام حاصل کئے لیکن ان میں سے فریڈرک سینگر وہ واحد سائنسدان ہیں جنہیں کیمیا ہی کے شعبے میں دو مرتبہ نوبل انعام دیا گیا۔ میری کیوری اور لینس پاؤلنگ کو بھی اگرچہ دو دو مرتبہ نوبل انعام دیا گیا لیکن میری کیوری کو پہلا نوبل انعام فزکس میں جبکہ دوسرا کیمسٹری میں دیا گیا۔ اسی طرح لینس پاؤلنگ کو پہلا نوبل انعام کیمیا میں جبکہ دوسرا امن کے شعبے میں دیا گیا۔

  • نوبل انعام صرف زندہ افراد کو دیا جاتا ہے یعنی اس کےلئے کسی ایسے شخص کو نامزد نہیں کیا جاسکتا جو مرچکا ہو۔

  • 1974 میں نوبل فاؤنڈیشن کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ سے کسی بھی شخص کو بعد از مرگ (مرنے کے بعد) نوبل انعام نہیں دیا جائے گا؛ لیکن اگر نوبل انعام کا اعلان ہونے کے بعد متعلقہ فرد کا انتقال ہوجائے تو وہ نوبل انعام اسی کے نام رہے گا۔ 1974 سے پہلے صرف 2 افراد کو بعد از مرگ نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اب تک کسی کو مرنے کے بعد نوبل انعام نہیں دیا گیا ہے۔

Load Next Story