پارلیمنٹ خود مختارادارہ ہے اس پر تلوارنہیں لٹکنی چاہیے چیف جسٹس
اراکین پارلیمنٹ ہمارے نمائندے ہیں ہمیں سب کو ایک ترازو میں پرکھنا ہے، جسٹس میاں ثاقب نثار
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جہانگیرترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی۔ جہانگیرترین کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ یہ درخواست کسی دوسرے کے کہنے پر پاناما کیس کے بدلے میں دائر کی گئی ہے اوردرخواست گزار نے غلط موقف پیش کیا ہے، جس پرجسٹس عمرعطا بندیال نے استفسارکیا ہے کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں نہیں تو کس کے مفاد میں دائرہوئی ہے، کیا جہانگیر ترین عوامی عہدہ نہیں رکھتے، کیا جو اصول پاناما میں طے ہوئے ان کا اطلاق آپ پر نہیں ہوگا، کیا جہانگیر ترین کی ویسی ہی جانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے۔
سکندربشیر نے کہا کہ ان کے موکل عوامی عہدہ رکھتے ہیں، عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کر رہا لیکن میرا موقف ہے کہ درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ انہیں درخواست پر اعتراض نہیں لیکن درخواست گزار نے اپنی درخواست میں عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، ایف بی آر آف شور کمپنی پر جہانگیرترین کو نوٹس جاری کرچکا ہے، آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے میں نااہلی غیرمتنازعہ اور تسلیم شدہ حقائق پر ہوتی ہے، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ بینک ڈیفالٹرہونے پر قرض معافی کا معاملہ ہوسکتا ہے، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ قرض معافی اور ڈیفالٹرہونے میں فرق ہے، جہانگیر ترین پر بینک ڈیفالٹر ہونے کا الزام نہیں ہے اور نا ہی انہوں نے قرض معاف کرایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہانگیرترین پر الزام ہے کہ وہ بطوروزیر کمپنی کے قرض معافی کے لیے اثرانداز ہوئے، یہ ایک مفروضہ ہے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں، بغیرثبوت کے اثرانداز ہونے کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ اکرم شیخ کا موقف درست ہے کہ پاناما کیس اور ان درخواستوں میں معاملہ ایک جیسا ہے، میرا خیال ہے کہ پاناما کیس ان درخواستوں کے ساتھ سننا چاہیے تھا لیکن سابق چیف جسٹس نے ان درخواستوں کو الگ سے سننے کا فیصلہ کیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا میں کہا گیا کہ مقدمے کی 36 سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن کسی نے تحمل سے کیس سننے کی ستائش نہیں کی، ہمیں سب کو ایک ترازو میں پرکھنا ہے کیوں کہ پارلیمنینٹرینز ہمارے نمائندے ہیں، پارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے ، چیف جسٹس نے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ ابھی زیرسماعت ہے کئی مشترکہ قانونی سوالات ہیں، عمران خان کے کیس میں گزشتہ روزآپ نے دریا کو کوزے میں بند کیا، کل آپ نے کہا کہ 3 چیزیں عمران خان نے ظاہر نہیں کیں، ایک یہ کہ عمران خان نے اہلیہ سے لیا گیا قرض ظاہرنہیں کیا، دوسرا نیازی سروسز آف شور کمپنی کا اکاونٹ بھی ڈکلیئر نہیں اور تیسرا یہ کہ شاہراہ دستورپرفلیٹ کی ایڈوانس ادائیگی ظاہر نہیں کی، یہ بات بھی کہ جمائما کے نام پر بے نامی جائیداد بھی ظاہر نہیں کی۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جہانگیرترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی۔ جہانگیرترین کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ یہ درخواست کسی دوسرے کے کہنے پر پاناما کیس کے بدلے میں دائر کی گئی ہے اوردرخواست گزار نے غلط موقف پیش کیا ہے، جس پرجسٹس عمرعطا بندیال نے استفسارکیا ہے کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں نہیں تو کس کے مفاد میں دائرہوئی ہے، کیا جہانگیر ترین عوامی عہدہ نہیں رکھتے، کیا جو اصول پاناما میں طے ہوئے ان کا اطلاق آپ پر نہیں ہوگا، کیا جہانگیر ترین کی ویسی ہی جانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے۔
سکندربشیر نے کہا کہ ان کے موکل عوامی عہدہ رکھتے ہیں، عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کر رہا لیکن میرا موقف ہے کہ درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ انہیں درخواست پر اعتراض نہیں لیکن درخواست گزار نے اپنی درخواست میں عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، ایف بی آر آف شور کمپنی پر جہانگیرترین کو نوٹس جاری کرچکا ہے، آرٹیکل 184 کے تحت مقدمے میں نااہلی غیرمتنازعہ اور تسلیم شدہ حقائق پر ہوتی ہے، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ بینک ڈیفالٹرہونے پر قرض معافی کا معاملہ ہوسکتا ہے، جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ قرض معافی اور ڈیفالٹرہونے میں فرق ہے، جہانگیر ترین پر بینک ڈیفالٹر ہونے کا الزام نہیں ہے اور نا ہی انہوں نے قرض معاف کرایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہانگیرترین پر الزام ہے کہ وہ بطوروزیر کمپنی کے قرض معافی کے لیے اثرانداز ہوئے، یہ ایک مفروضہ ہے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں، بغیرثبوت کے اثرانداز ہونے کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ اکرم شیخ کا موقف درست ہے کہ پاناما کیس اور ان درخواستوں میں معاملہ ایک جیسا ہے، میرا خیال ہے کہ پاناما کیس ان درخواستوں کے ساتھ سننا چاہیے تھا لیکن سابق چیف جسٹس نے ان درخواستوں کو الگ سے سننے کا فیصلہ کیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا میں کہا گیا کہ مقدمے کی 36 سماعتیں ہوچکی ہیں لیکن کسی نے تحمل سے کیس سننے کی ستائش نہیں کی، ہمیں سب کو ایک ترازو میں پرکھنا ہے کیوں کہ پارلیمنینٹرینز ہمارے نمائندے ہیں، پارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اور اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے ، چیف جسٹس نے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ ابھی زیرسماعت ہے کئی مشترکہ قانونی سوالات ہیں، عمران خان کے کیس میں گزشتہ روزآپ نے دریا کو کوزے میں بند کیا، کل آپ نے کہا کہ 3 چیزیں عمران خان نے ظاہر نہیں کیں، ایک یہ کہ عمران خان نے اہلیہ سے لیا گیا قرض ظاہرنہیں کیا، دوسرا نیازی سروسز آف شور کمپنی کا اکاونٹ بھی ڈکلیئر نہیں اور تیسرا یہ کہ شاہراہ دستورپرفلیٹ کی ایڈوانس ادائیگی ظاہر نہیں کی، یہ بات بھی کہ جمائما کے نام پر بے نامی جائیداد بھی ظاہر نہیں کی۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔