منزلیں گرد کی مانند

مجازؔ سے خلیق ابراہیم خلیق کی پہلی ملاقات 1939ء میں ہوئی


Rafiuzzaman Zuberi October 05, 2017

''منزلیں گرد کی مانند'' خلیق ابراہیم خلیق کی زندگی کے ابتدائی ستائیس سال کی خود نوشت کہانی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ خودنوشت دوسری خود نوشتوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ آپ بیتی سے زیادہ ایک تہذیب کی سرگزشت ہے۔''

لکھنو جہاں خلیق ابراہیم خلیق نے شعورکی آنکھیں کھولیں اور نشوونما پائی وہ آزادی اور قیام پاکستان سے دس سال پہلے کا لکھنو تھا اور ان کی کہانی اسی لکھنوکی یادوں سے شروع ہوتی ہے پھر اجمیر، الٰہ آباد، لاہور، دہلی اور بمبئی کی یادیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔

خلیق ابراہیم حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے، ان کے والد حکیم محمد رفیق ابراہیم نہ صرف ایک ممتاز طبیب تھے بلکہ طب کا درس بھی دیتے تھے۔ انھوں نے لکھنو کے علاوہ کلکتہ، حیدرآباد دکن اور اجمیر میں بھی مطب کیا۔ وہ پہلے کانگریس کے اشتراکی نظریات سے متاثر تھے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوکر حصول پاکستان کی جد و جہد میں حصہ لیا۔ شعر و ادب کا بھی شوق تھا۔ خلیق ابراہیم کی شخصیت پر باپ دادا کی شخصیت کا اثر نمایاں تھا۔

خلیق ابراہیم خلیق کم گو، کم آمیز اور دیر آشنا تھے مگر لڑکپن اور نوجوانی میں ان کے دوستوں اور شناسوں کا حلقہ خاصا وسیع ہے۔ جن احباب سے خلیق ابراہیم کا خاصا ربط و ضبط رہا ان میں مجاز، احسن فاروقی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، ظفر انصاری، صفدر میر اور اختر الایمان شامل تھے، سلام مچھلی شہری اور کچھ ہندو دوست بھی تھے۔ اویس احمد ان کے ہم جماعت تھے۔ خلیق نے اپنے گھر کے حوالے چند یادوں کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں ''مولانا عطا اللہ شاہ بخاری تین چار بار ہمارے ہاں آئے۔ وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے قومی مزاج کی بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہوگی۔ اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا راستہ دکھایا ہے اور رسول کریمؐ کا ارشاد ہے کہ ''دین میں غلو نہ کرو، مگر اس نے دین کو مشعل راہ بنانے کی بجائے اپنے اعصاب پر سوار کرلیا ہے۔''

خلیق ابراہیم نے ان چند شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں ترقی پسند ادب کی تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لکھتے ہیں ''ترقی پسندوں کے دوست، فلسفی اور رہنما سجاد ظہیر تھے اور پیر مغاں جوشؔ ملیح آبادی۔'' جوش کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے تخیل میں جو بلندی تھی ویسی ان کے علم میں وسعت اور گہرائی ہوتی تو وہ غالب اور اقبال کے ہم پلہ ہوتے۔ سجاد ظہیر نہایت سلجھے ہوئے ذہن کے روشن خیال اور وسیع النظر دانشور تھے اور تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ علی سردار جعفری کے بارے میں خلیق ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جن کا علمی مرتبہ مسلم ہے۔ ان کی نظم اور نثر دونوں میں روح عصر کی بھرپور نمایندگی ہے۔

مجازؔ سے خلیق ابراہیم خلیق کی پہلی ملاقات 1939ء میں ہوئی۔ لکھتے ہیں ''ان سے اپنے نیازمندانہ تعلقات کے دوران مجھے انھیں قریب سے دیکھنے کے مواقعے ملے اور میں نے ان کی قلبی واردات اور ذہنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی زندگی اور شاعری کے اس مطالعے میں کچھ ایسی باتیں ملیں جو ایک شخص اور شاعری کی حیثیت سے ان کے مقام کے تعین میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔''

خلیق لکھتے ہیں ''رومانیت کے سرچشمے سے نئی شاعری کے دو دھارے پھوٹے تھے۔ ان میں سے منفی اور حریفانہ عناصر والے دھارے کا راستہ بنانے والے ن ۔م راشد اور میرا جی تھے اور مثبت اور صحت مند عناصر کے زور پر رواں ہونیوالے دھارے کا رخ متعین کرنیوالے مجازؔ اور فیضؔ تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موخرالذکر دھارے کا رخ متعین کرنے میں پہل مجازؔ نے کی تھی۔ مجازؔ کی صرف ایک نظم ''آوارہ'' انھیں اردو شعر و ادب کی تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔''خلیق ابراہیم نے اپنی الگ پہچان اور مخصوص کردار رکھنے والے جن شہروں کا اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں سفر کیا ان میں اجمیر، الٰہ آباد، لاہور، دہلی اور بمبئی کو خصوصیت حاصل ہے۔ الٰہ آباد میں خلیق کے پھوپی زاد بھائی خلیق نذیری تھے انھوں نے ان کے وہاں پہنچنے پر طفیل احمد جمالی سے ملاقات کرادی۔ طفیل احمد جمالی نے صحافت میں بہت نام کمایا۔ خلیق ابراہیم لکھتے ہیں ''الٰہ آباد میں دو اقطاب ادب میرے لیے سب سے زیادہ کشش کا باعث تھے۔ ایک فراقؔ گورکھپوری اور دوسرے ڈاکٹر اعجاز حسین۔ فراقؔ بنیادی طور پر ایک بڑے شاعر اور ڈاکٹر اعجاز حسین ایک اہم نقاد۔ دونوں کے ہاں اکثر حاضری دیتا۔ واپس آتا تو ذہن میں کئی نئے دریچے کھل چکے ہوتے۔''

خلیق ابراہیم خلیق کو بچپن سے جن شہروں کو دیکھنے کا شوق تھا ان میں دہلی کے ساتھ لاہور سرفہرست تھا۔ ان کا یہ شوق قیام پاکستان سے قبل دو بار پورا ہوا۔ ایک بار پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دینے کے لیے اور دوسری بار لاہور اور اس کے باسیوں سے قرار واقعی واقفیت حاصل کرنے کے لیے۔ دوسری بار لاہور کے سفر میں بشیر ہندی ان کے میزبان تھے۔ انھوں نے خلیق کو شہر دکھایا اور کئی علمی شخصیات سے ملاقات بھی کرائی۔ ان شخصیات مین عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفی تبسم، مولانا صلاح الدین، عبدالرحمن چغتائی، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، میراجی، شبلی بی کام، باری علیگ، ظہیر کاشمیری، حمید نسیم اور اوپندر اشک شامل تھے۔

خلیق ابراہیم خلیق کو لکھنو سے دہلی جانے کا کئی بار اتفاق ہوا مگر کبھی چار چھ روز سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف دو بار ایسا ہوا کہ دہلی میں کئی کئی ماہ قیام رہا۔ خلیق نے جامعہ ملیہ میں داخلہ لیا لیکن اس کے ہوسٹل میں نہیں رہے۔ یہ بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے گھر میں رہے۔ یہ روزانہ صبح کو تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتے، دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتے۔ انھیں جامعہ میں پڑھتے ہوئے چند ماہ گزرے تھے کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ انھیں واپس لکھنو جانا پڑا۔ لکھتے ہیں ''اس مختصر عرصے میں بھی میں نے جامعہ سے جو کچھ حاصل کیا وہ کسی اور درس گاہ سے ایک طویل عرصے میں بھی نہیں مل سکتا۔'' انھیں شیخ جامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی ہمہ جہت شخصیت کے علاوہ ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب، خواجہ عبدالحئی جیسے لائق و فائق استادوں سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ یہ خواجہ حسن نظامی سے بھی ملے۔ جوش سے بھی ملاقات ہوئی۔دوبارہ یہ مولوی عبدالحق کے ذاتی معاون ہوکر دہلی گئے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر دریا گنج میں تھا۔ اسی کوٹھی میں ایک کمرے میں یہ رہتے تھے اور یہی ان کا دفتر بھی تھا۔ اس مرتبہ قیام کے دوران مختار صدیقی اور اختر الایمان سے مراسم قائم ہوئے۔

بمبئی کی دلفریبیوں کی داستانیں سن کر خلیق ابراہیم کا وہاں جانے کو بہت جی چاہتا تھا۔ یہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اتفاق سے ایک موقع بمبئی جانے کا نکل آیا۔ حکومت ہند کے بمبئی میں ادارے انفارمیشن فلمز میں تبصرہ (کمنٹری) نگاروں کی دو آسامیوں کا اشتہار آیا۔ انھوں نے درخواست بھیج دی۔ تحریری امتحان اور انٹرویو کے لیے بلالیے گئے۔ یہ گئے اور تحریری امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ انٹرویو ہوا جو کچھ صحیح نہ تھا۔ لکھنو واپس آگئے۔ کچھ ہی دن میں تقرری کا خط آگیا۔ خلیق بمبئی پہنچ گئے۔ دو تین ہفتے خلافت ہاؤس میں رہے پھر آغا بشیر کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کا کام تبصرے لکھنا اور فلم سازی کی مختلف ٹیکنیک سیکھنا تھا۔ کام دلچسپ تھا، یہ خوش تھے لیکن ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ 1947ء کے شروع میں یہ ادارہ بند ہوگیا۔

خلیق ابراہیم کو اپنے دوست آغا مجنوں کی وساطت سے فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کا کام مل گیا۔ ان کے لیے بمبئی میں قیام کا سامان ہوگیا۔ لکھتے ہیں ''انفارمیشن فلمز آف انڈیا بند ہونے کے بعد 1947ء سے 1953ء تک بمبئی اور لکھنو دونوں میری جولاں گاہ رہے۔ بمبئی سے ہرچند ماہ بعد لکھنو کا چکر لگا آتا۔'' بمبئی میں اب فلمی صنعت کے علاوہ خلیق کے روزگار کا وسیلہ اخبارات تھے۔ ساتھ ساتھ ادبی مشاغل بھی جاری تھے۔

بمبئی میں خلیق نے بہت دوست بنائے۔ ملک راج آنند کا انھوں نے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ وجاہت مرزا چنگیزی، خواجہ خورشید انور، نخشب جارجوی اور شوکت حسین رضوی سے بھی قریبی تعلقات استوار ہوگئے۔ کیفی اعظمی سے ان کی ملاقات لکھنو میں ہوئی تھی، دوستی بمبئی میں ہوئی۔ میرا جی بھی یہاں تھے، اختر الایمان بھی۔

خلیق ابراہیم خلیق 1953ء میں پاکستان آگئے۔ ان کی یہ خودنوشت ''منزلیں گرد کی مانند'' جب یہاں کراچی میں چھپی تو انھوں نے اپنے ناشر طارق رحمٰن فضلی سے وعدہ کیا کہ ''زندگی رہی اور توفیق ہوئی تو یہاں کی داستان بھی آپ کو سناؤں گا۔'' خلیق کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور وہ ستمبر 2006ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں