جو تو پریم کھیلن کا چاؤ
صوفیانہ شاعری کے مداحوں کو بھی ماضی کی نسبت ہر چیز میں خوفناک تبدیلی نظر آنے لگی
برصغیر پاک وہند میں صوفیائے کرام نے اپنے اشعار سے انسان دوستی اور محبت کی جو شمع روشن کی اسے گل کرنے کے لیے کچھ مخالفین نے مختلف ادوار میں اپنے سخت عقیدے کا سہارا بھی لیا، مگر وہ اس سے پھوٹنے والی روشنی کا راستہ روکنے میں ناکام رہے۔ ماضی میں صوفیانہ شاعری اور تصوف کے موضوع پر مختلف علمی وادبی اجتماعات منعقد ہوئے اور صوفی شعرا کی زندگی پر ملک کی مختلف زبانوں میں کافی تحقیق بھی کی گئی۔
اس سلسلے میں ''لوک ورثہ'' کی جانب سے پاکستان کی تمام زبانوں کی صوفیانہ شاعری کو نہ صرف یکجا کیا گیا بلکہ اس کا ترجمہ بھی کروایا گیا تاکہ اسے وہ لوگ بھی آسانی سے سمجھ سکیں جو اصل زبان سے ناواقف ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے صوفی شعرا کا کلام یہاں کے باسیوں کوصدیوں سے ازبر ہے اور وہ اسے اپنی روزمرہ کی گفتگو میں ضرب المثال کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح سندھ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور شاہ کریم کو اٹھتے بیٹھتے یاد کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش اور دیگر صوفی شعرا کے کلام کو دیہی زندگی میں صبح سے شام تک اپنے ہر اچھے کام کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا کے نوجوان رحمٰن بابا اور خوشحال خان خٹک سے لے کر قلندر مومند تک کی سوچ اورشاعری کو نہ صرف میدان حریت میں اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں بلکہ عشق حقیقی و مجازی کی منازل طے کرتے ہوئے بھی ان کے دیوان اپنی بغل میں رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں مست توکلی کے نغموںکی گونج کو پہاڑوں کی بلندی اور چشموں کی روانی سے جدا نہ کر سکا۔
اس دھرتی پر تصوف کی روشنی پھیلانے والے صوفی شعرا کا کلام لوگوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوا اور جب طباعت کی سہولت میسر آئی تو مختلف اداروں نے اپنے تئیں اسے جس طرح سنا اسی طرح طبع کر دیا۔اس میں شک نہیں کہ نول کشورجیسے طباعت و اشاعت کے چند ادارے نہ ہوتے تو ہم بہت سارے علمی اور ادبی خزانوں سے استفادہ نہ کر سکتے، مگر کتابوں کی طباعت کے میدان میں کچھ ایسے تاجران کتب بھی کود پڑے جنہوں نے علمی اور ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی طرف کم توجہ دی۔کچھ ناشرین اپنی مرضی اور سوجھ بوجھ کے مطابق صوفی شعرا کا کلام جس طرح ہمارے سامنے لاتے رہے اس سے قارئین بھی مطمئن نہ ہو سکے اور محققین کو بھی اصل کلام کا انتخاب کرتے وقت دو گنا محنت کرنا پڑی۔ اس سلسلے میں پنجابی کے مقبول شاعر وارث شاہ کی مثال سب کے سامنے ہے جن کا کلام ہر دور میںکتب فروشوں کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوا، مگر ابھی تک ہیر رانجھے کا قصہ ملاوٹی اشعار سے پاک نہ ہو سکا۔
صوفیانہ شاعری موجودہ دور میں دہشتگردی اورکم فہمی کی وجہ سے جن مسائل میں گھری ہوئی ہے ماضی میں کسی نے شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ دہشتگردی کی لہر نے جہاں اس خطے کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچایا وہاں صوفیانہ مکتب فکر اور صوفیانہ شاعری کے مداحوں کو بھی ماضی کی نسبت ہر چیز میں خوفناک تبدیلی نظر آنے لگی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکا نے اس خطے کو یرغمال بنانے کے لیے دہشتگردی کا جوکارخانہ تعمیر کیا تھا اُس کی پیداوار کے نتائج نہ صرف ہماری دو نسلوں کو بھگتنا پڑے بلکہ اس دھرتی پرصدیوں سے قائم روحانیت کا لنگر بانٹنے والے صوفیانہ ڈیرے بھی اس کی زد میں آگئے۔ پینتیس سال سے جاری بارود کا کھیل موجودہ دور میں جب اپنے عروج پر پہنچا تو عبادت گاہوں اور رشدوہدایت کے مراکزکواپنی لپیٹ میں لینے کے بعد صوفیائے کرام کے مزاروں کو بھی تباہ برباد کرتا چلا گیا۔ 2005ء سے 2016ء کے دوران دہشتگردوں نے بری امام، عبدالشکور ملنگ بابا، سید بابا، حمزہ خان شنواری، رحمن بابا، بہادر بابا،داتا دربار، عبداللہ شاہ غازی، سخی سرور، شاہ نورانی اور لعل شہباز قلندر کے مزاروںکو نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ یہاں سے روحانی فیوض حاصل کرنے والوں کو بھی لہو لہان کر دیا۔
دہشتگردی کی وہ لہر جو اسلحے کے زور سے ہم پر مسلط کی گئی تھی اسلحے کے زور پر ہی اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی کی راہیں اب تک مسدود ہیں۔ دہشتگردی نے صوفیائے کرام کے مزاروں اور ان کی سوچ کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ اپنی جگہ، مگر تیسرے درجے کے قوالوں اور سماجی رابطوں پر وقت گزارنے والے نوجوانوں نے صوفیانہ شاعری کو جو نقصان پہنچایا اُس کا ازالہ شایدکبھی نہ ہو سکے۔
موجودہ دور میں بہت سارے نوجوان جس طرح حصول علم کے لیے کتابوں کے بجائے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں بالکل اسی طرح علم و ادب اور صوفیانہ شاعری سے تعلق رکھنے والے کچھ اساتذہ ، ادیب اور شاعر بھی سوشل میڈیا پر درج اشعار کو ہی اپنے مضامین اور تقاریر کا حصہ بنانے لگے ہیں۔ اس طرح استعمال کرنے والوں نے کسی ایک زبان کے صوفی شعرا سے مذاق نہیں کیا بلکہ تمام صوفی شعرا کے ساتھ انھوں نے یہی سلوک روا رکھا۔ اس سے انکار نہیں کہ کچھ قوالوں اور گائیگوں نے صوفیائے کرام کے کلام کا انتخاب کرتے وقت اصل کلام اور تلفظ کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا، مگر ان میں ایسے گانے والوں کی اکثریت ہے جو نہ صرف مقامی صوفیا کے کلام سے ناواقف ہیں بلکہ فارسی زبان کے اساتذہ کے ساتھ بھی خوب مذاق کرتے ہیں۔ شاید ایسے ہی قوالوںکے بارے میں مرحوم ضمیر جعفری نے کہا تھا۔
پے بہ پے دن رات پھر قوالیاںہونے لگیں
دن نکمّے اور راتیں کالیاں ہونے لگیں
لے کبھی پکڑی کبھی چھوڑی کبھی گائی گئی
فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی
برصغیر پاک ہند کی دھرتی پر صوفیانہ شاعری کے چراغ روشن کرنے والے شاعروں میں کبیر، رحیم، سورداس، میرا بائی اور تلسی داس کے علاوہ بھی درجنوں نام موجود ہیں، مگر ان تک پہنچنے کے لیے صوفیائے کرام اور صوفیانہ شاعری کے عاشقین کو جس کرب سے گزرنا پڑتا ہے اسے کچھ وہی جان سکتے ہیں، اس کے باوجودصوفی شعرا سے عقیدت رکھنے والے دیوانے آج بھی اپنے ذوق کی تسکین کے لیے سوشل میڈیا کے بجائے کتابوں کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ اس لیے کہ حقیقی عشق ہو یا مجازی دونوں سے تعلق رکھنے والے دیوانے جلد بازی اور آسان راستے کے بجائے انتہائی صبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے ان راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جوچند مشکلات کے بعد سہی مگر ایک دن منزل مقصود تک ضرور لے جاتے ہیں۔ صوفیائے کرام نے اپنی شاعری سے ہمیں جو درس دیا اسے سمجھنے کے لیے قناعت پسندی اور درگزرکے ساتھ اس روحانی عشق کی بھی ضرورت ہے جس کے لیے بعض دفعہ اپنی جان سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔با با گرو نانک جی نے اسی عشق کے بارے میں کہا تھا۔
جو تو پریم کھیلن کا چاؤ
سر دھر تلی، گلی میری آؤ
اِت مارگ پیر دھریجے
سر دیجیے کان نہ کیجیے
اگر تمہیں محبت کا کھیل کھیلنے کا شوق ہے تو اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر ہماری گلی میں آؤ۔ اس طرف قدم رکھنا تو سر دینے سے مت ڈرنا ۔