کچرا دیں علاج کرائیں۔۔۔۔۔
انڈونیشیا میں جاری اچھوتا منصوبہ،غرباء کو علاج معالجے کی سہولت میسرآنے کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی بھی ممکن
لاہور:
پاکستان کی طرح برادر اسلامی ملک انڈونیشیا میں بھی عوام الناس کی بڑی تعداد کو علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں۔ اور اگر میسر ہیں تو وہ غربت کے باعث علاج کروانے سے قاصر ہیں۔
سات سال قبل ایک ہمدرد انڈونیشی نوجوان نے علاج معالجے کی سہولیات تک غریبوں اور لاچاروں کی رسائی کا ذریعہ بننے کے لیے ایک انوکھا منصوبہ شروع کیا۔ اس نے ایک بیمہ کمپنی کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے ناداروں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کا آغاز کیا۔ بیمہ کے اصول کے مطابق بیمہ پالیسی حاصل کرنے والے کو اقساط میں کچھ نہ کچھ رقم جمع کروانی ہوتی ہے۔ جمال بن سعید جانتے تھے کہ غریب مفلوک الحال لوگوں کو تو دو وقت کی روٹی بہ مشکل دستیاب ہوتی ہے یہ ہیلتھ انشورنس پالیسی کیسے خرید سکتے ہیں۔ غریبوں کے لیے صحت کی بیمہ پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے یہ بات ان کے پیش نظر تھی چناں چہ انھوں نے بیمہ کی اقساط میں لوگوں کو وہ شے دینے کے لیے کہا جو پاکستان کی طرح ان کے شہر مالانگ میں بھی جا بہ جا بکھری ہوئی ہے یعنی کوڑا کرکٹ !
جمال بن سعید بیمہ کمپنی انڈونیشیا میڈیکا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ اسی ادارے کے تحت انھوں نے '' گاربیج کلینیکل انشورنس'' کے نام سے کمپنی قائم کی جو اس وقت دو ہزار سے زائد افراد کو صحت کے بیمے کی سہولت فراہم کررہی ہے۔ اس کے بدلے میں کمپنی کے ممبران ماہانہ تین کلو کوڑا کرکٹ جمع کروانے کے پابند ہیں۔ اس کے عوض ماہانہ بارہ ہزار روپے کے لگ بھگ ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ رقم بنیادی علاج معالجے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ممبران کو یہ رقم نقد فراہم نہیں کی جاتی بلکہ ' گاربیج کلینکس' پر ان کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کلینک مالنگ، دوسرا مشرقی جاوا اور تیسرا دارالحکومت جکارتہ میں ہے۔ غربت کے باعث انڈونیشیا کی پچیس کروڑ کی آبادی کا ساٹھ فی صد سے زائد ہیلتھ انشورنس حاصل کرنے سے محروم ہے۔ اس لحاظ سے گاربیج کلینیکل انشورنس ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
مالنگ میں ہر روز پچپن ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔ اس مقدار کا نصف ہی اٹھایا جاتا ہے باقی گلیوں اور سڑکوں پر پڑا رہتا ہے۔ یوں مفلوک الحال افراد بہ آسانی کوڑا کرکٹ چُن کر گاربیج کلینک میں جمع کرواسکتے ہیں۔ کمپنی میں صرف وہ کچرا لیا جاتا ہے جسے ری سائیکل کیا جاسکے۔ اس میں پلاسٹک، دھاتیں وغیرہ اور نامیاتی کچرا بھی شامل ہے جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ گاربیج کلینیکل انشورنس کے رضاکاروں کی ٹیم موجود ہے جو ممبران کو بتاتی ہے کہ کس قسم کا کچرا چُننا ہے۔
جمال بن سعید کا یہ اچھوتا منصوبہ غریبوں کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ جمال کہتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ کو بے وقعت شے سمجھا جاتا رہا ہے، علاوہ ازیں معیاری علاج معالجہ غرباء کے لیے خواب تھا مگر ہماری کوششوں سے نہ صرف عوام الناس میں کچرے کی اہمیت بڑھ رہی ہے بلکہ ناداروں کو علاج کی سہولت میسر آرہی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی مدد مل رہی ہے۔
نوجوان سی ای او نے یہ منصوبہ 2010ء میں شروع کیا تھا۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ منصوبہ کام یاب نہیں ہوگا، مگر سات برس گزرنے کے بعد بھی ' گاربیج کلینیکل انشورنس' کام کررہی ہے۔ کمپنی کو قائم رکھنے میں جمال کو کئی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جمع ہونے والے کچرے کی قدروقیمت ہے۔ تجدیدی کوڑا کرکٹ ( ری سائیکل ایبل ویسٹ) کی مسلسل گھٹتی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے خالص آمدنی کا پیشگی تعین کرنا مشکل ہوتا تھا، لہٰذا گاربیج کلینیکل انشورنس کو جاری رکھنے کے لیے ممبران کی تعداد پیرنٹ کمپنی یعنی انڈونیشیا میڈیکا کے ملازمین کی تعداد کا بیس فی صد تک محدود رکھی گئی ہے تاکہ نقصان کی صورت میں بہ آسانی ازالہ ممکن ہوسکے۔
گاربیج کلینیکل انشورنس کی افادیت کے پیش نظر انڈونیشیا کے طول وعرض میں کئی اداروں اور تنظیموں نے یہ ماڈل اپنالیا ہے۔ اگر پاکستان میں اس طرف توجہ دی جائے تو کتنے ہی غریبوں کا بھلا ہوگا اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
پاکستان کی طرح برادر اسلامی ملک انڈونیشیا میں بھی عوام الناس کی بڑی تعداد کو علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں۔ اور اگر میسر ہیں تو وہ غربت کے باعث علاج کروانے سے قاصر ہیں۔
سات سال قبل ایک ہمدرد انڈونیشی نوجوان نے علاج معالجے کی سہولیات تک غریبوں اور لاچاروں کی رسائی کا ذریعہ بننے کے لیے ایک انوکھا منصوبہ شروع کیا۔ اس نے ایک بیمہ کمپنی کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے ناداروں کو علاج کی سہولت فراہم کرنے کا آغاز کیا۔ بیمہ کے اصول کے مطابق بیمہ پالیسی حاصل کرنے والے کو اقساط میں کچھ نہ کچھ رقم جمع کروانی ہوتی ہے۔ جمال بن سعید جانتے تھے کہ غریب مفلوک الحال لوگوں کو تو دو وقت کی روٹی بہ مشکل دستیاب ہوتی ہے یہ ہیلتھ انشورنس پالیسی کیسے خرید سکتے ہیں۔ غریبوں کے لیے صحت کی بیمہ پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے یہ بات ان کے پیش نظر تھی چناں چہ انھوں نے بیمہ کی اقساط میں لوگوں کو وہ شے دینے کے لیے کہا جو پاکستان کی طرح ان کے شہر مالانگ میں بھی جا بہ جا بکھری ہوئی ہے یعنی کوڑا کرکٹ !
جمال بن سعید بیمہ کمپنی انڈونیشیا میڈیکا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ اسی ادارے کے تحت انھوں نے '' گاربیج کلینیکل انشورنس'' کے نام سے کمپنی قائم کی جو اس وقت دو ہزار سے زائد افراد کو صحت کے بیمے کی سہولت فراہم کررہی ہے۔ اس کے بدلے میں کمپنی کے ممبران ماہانہ تین کلو کوڑا کرکٹ جمع کروانے کے پابند ہیں۔ اس کے عوض ماہانہ بارہ ہزار روپے کے لگ بھگ ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوجاتے ہیں۔ یہ رقم بنیادی علاج معالجے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ممبران کو یہ رقم نقد فراہم نہیں کی جاتی بلکہ ' گاربیج کلینکس' پر ان کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کلینک مالنگ، دوسرا مشرقی جاوا اور تیسرا دارالحکومت جکارتہ میں ہے۔ غربت کے باعث انڈونیشیا کی پچیس کروڑ کی آبادی کا ساٹھ فی صد سے زائد ہیلتھ انشورنس حاصل کرنے سے محروم ہے۔ اس لحاظ سے گاربیج کلینیکل انشورنس ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
مالنگ میں ہر روز پچپن ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔ اس مقدار کا نصف ہی اٹھایا جاتا ہے باقی گلیوں اور سڑکوں پر پڑا رہتا ہے۔ یوں مفلوک الحال افراد بہ آسانی کوڑا کرکٹ چُن کر گاربیج کلینک میں جمع کرواسکتے ہیں۔ کمپنی میں صرف وہ کچرا لیا جاتا ہے جسے ری سائیکل کیا جاسکے۔ اس میں پلاسٹک، دھاتیں وغیرہ اور نامیاتی کچرا بھی شامل ہے جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ گاربیج کلینیکل انشورنس کے رضاکاروں کی ٹیم موجود ہے جو ممبران کو بتاتی ہے کہ کس قسم کا کچرا چُننا ہے۔
جمال بن سعید کا یہ اچھوتا منصوبہ غریبوں کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ جمال کہتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ کو بے وقعت شے سمجھا جاتا رہا ہے، علاوہ ازیں معیاری علاج معالجہ غرباء کے لیے خواب تھا مگر ہماری کوششوں سے نہ صرف عوام الناس میں کچرے کی اہمیت بڑھ رہی ہے بلکہ ناداروں کو علاج کی سہولت میسر آرہی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی مدد مل رہی ہے۔
نوجوان سی ای او نے یہ منصوبہ 2010ء میں شروع کیا تھا۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ منصوبہ کام یاب نہیں ہوگا، مگر سات برس گزرنے کے بعد بھی ' گاربیج کلینیکل انشورنس' کام کررہی ہے۔ کمپنی کو قائم رکھنے میں جمال کو کئی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جمع ہونے والے کچرے کی قدروقیمت ہے۔ تجدیدی کوڑا کرکٹ ( ری سائیکل ایبل ویسٹ) کی مسلسل گھٹتی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے خالص آمدنی کا پیشگی تعین کرنا مشکل ہوتا تھا، لہٰذا گاربیج کلینیکل انشورنس کو جاری رکھنے کے لیے ممبران کی تعداد پیرنٹ کمپنی یعنی انڈونیشیا میڈیکا کے ملازمین کی تعداد کا بیس فی صد تک محدود رکھی گئی ہے تاکہ نقصان کی صورت میں بہ آسانی ازالہ ممکن ہوسکے۔
گاربیج کلینیکل انشورنس کی افادیت کے پیش نظر انڈونیشیا کے طول وعرض میں کئی اداروں اور تنظیموں نے یہ ماڈل اپنالیا ہے۔ اگر پاکستان میں اس طرف توجہ دی جائے تو کتنے ہی غریبوں کا بھلا ہوگا اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔