نائن الیون کے بعد اردواورپاکستان کی طرف متوجہ ہوا محمد نعیم
جاپان میں لوگوں کے پاس شادی کے لیے وقت نہیں، مالکان ’بھگوان‘ اور نوکری ’عبادت‘ بن چکی ہے
وہ جاپان میں قائم ایک ہندوستانی ہوٹل تھا۔۔۔ جہاں ہائی اسکول میں زیر تعلیم ایک مقامی طالب علم کام کرنے لگا۔۔۔ وہیں اس نے پہلی بار ہندوستانی کھانے چکھے اور ان کا گرویدہ ہو گیا۔۔۔ ہوٹل میں موجود ہندوستانی احباب سے گاڑھی چھننے لگی۔۔۔ انہوں نے اپنے دیس کے طرح طرح کے رنگوں کے بارے میں بتانا شروع کیا، تو وہ اِس اَن دیکھی سرزمین کے سَحر میں جکڑنے لگا۔۔۔ اسے یہ بھی پتا چلا کہ ہندوستان کی زبان ہندی ہے۔
اس جاپانی طالب علم کا نام 'شوہے' تھا، جو بعد میں محمد نعیم کہلائے۔۔۔ انہوں نے 2001ء میں ایک جامعہ کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں داخلہ لیا، جو جاپانی دارالحکومت ٹوکیو سے کچھ آگے واقع ایک شہر سائیتاما (Saitama) میں واقع ہے۔ اس دوران 11 ستمبر 2001ء (نائن الیون) کو امریکا میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، جس کے بعد خبروں میں روزانہ پاکستان، طالبان اور افغانستان کا تذکرہ سنا، اس سے پہلے وہ پاکستان اور اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، خبروں میں بار بار تذکرہ ہوا، تو اس بارے میں کھوجنا شروع کیا۔ ایک جاپانی استاد کے توسط سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی زبان اردو ہے اور اکثریت مسلمان ہے، انہی استاد نے کلیات اقبال کا جاپانی ترجمہ بھی کیا ہے۔
اِن کی جامعہ میں مختلف ایشیائی زبانیں اردو، ہندی، چینی، عربی، فارسی، کوریائی، انڈونیشیائی اور ملائی وغیرہ بطور اختیاری مضمون تھیں، انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ملتی جلتی زبانیں ہیں، جاپان و ہند کے قدیم تعلقات ہیں، اس لیے ہندوستان کے بارے میں پڑھنے والے بہت زیادہ ہیں، جب کہ پاکستان کے بارے میں پڑھنے والے بہت کم ہیں، جاپان کی تین جامعات میں سالانہ فقط 50 طالب علم اردو پڑھتے ہیں۔ اس لیے اردو کے حوالے سے اسکوپ (وسعت) زیادہ ہے۔ یوں انہوں نے نہایت ذوق وشوق سے اردو پڑھنا شروع کر دی۔ اُس زمانے میں یہاں ڈاکٹر معین الدین عقیل (سابق صدر نشیں شعبہ اردو، جامعہ کراچی) پڑھا کر جا چکے تھے، ان دنوں ایک سال کے لیے معین الدین جمیل صاحب وہاں آئے ہوئے تھے۔
محمد نعیم کہتے ہیں کہ اردو سے پہلے ایک استاد نے جبراً انگریزی پڑھائی، جو انہیں پسند نہ تھی، کیوں کہ جاپان میں انگریزی کے بغیر اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی ممکن ہے اور حکومتی معاملات بھی چل سکتے ہیں، وہاں وزیروں کو بھی انگریزی نہیں آتی۔ اس لیے انہیں بھی انگریزی پڑھنا اچھا نہیں لگا، جب کہ اردو اپنے شوق سے اختیار کی۔ پاکستانیوں سے بات ہوئی اور ان سے تعلق بڑھا، تو اردو سیکھنے میں دقت نہیں ہوئی۔
نعیم کہتے ہیں کہ مجھے اسلام سے دل چسپی تھی، اس لیے اردو پڑھی۔ گریجویشن کی سطح پہ ہفتہ وار 50، 50 منٹ کی تین کلاسیں ہوتی تھیں۔ اس دوران چھے ماہ کے لیے جامعہ پنجاب (لاہور) چلے آئے، اورینٹل کالج میں چھے ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس بھی کیا۔ جامعہ کراچی میں ڈیڑھ برس اردو کے ڈپلومہ کورس میں بھی رہے، پھر اُن کے استاد ڈاکٹر معین الدین عقیل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) چلے گئے، تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ محمد نعیم کے مطابق غیر ملکیوں کے اردو کے سرٹیفیکیٹ کورس کے دوران انہیں دیگر ہم جماعتوں کی نسبت زیادہ اردو آتی تھی، لہٰذا انہیں ایم اے کی کلاس میں مقامی بچوں کے ساتھ بٹھا دیا جاتا۔ محمد نعیم کو روانی سے اردو بولتے ہوئے دیکھ کر ہم پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ زبان پر اُن کا یہ سلیقہ کتنے عرصے کی محنت کا ثمر ہے، انہوں نے بتایا کہ اُن کی اردو اب 15 برس کی ہو چکی ہے۔
والدہ شدید علیل تھیں، جس کے سبب انہیں جاپان لوٹنا پڑا، والدہ کی تیمار داری میں مصروف رہے۔ اس دوران پاکستانی احباب سے رابطہ نہ کر سکے، اُن کے موبائل فون میں نمبر تو محفوظ تھے، لیکن موبائل کے لیے مطلوبہ چارجر دست یاب نہ ہونے کے سبب موبائل بند ہو گیا، جس سے رابطہ منقطع رہا۔
محمد نعیم کی والدہ مطلقہ تھیں اور شوہر سے علاحدگی کے بعد تنہا رہتیں، اور ملازمت سے گزر بسر کرتیں، جب وہ بیمار ہوئیں، تو والد نے ان کی مدد کی اور نہ اُن کے دوسرے بیٹوں نے۔ والد کی تو اب وہ شریک حیات نہ تھیں، مگر چھوٹے بھائیوں کی تو ماں تھیں، آخر انہوں نے کیوں بے رخی دکھائی؟ اس سوچ نے انہیں بے چین کیے رکھا؟
2012-13ء میں والدہ کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد وہ بہت زیادہ بیزار اور پریشان رہنے لگے، جینے کی امنگ باقی نہیں رہی۔ اس دوران بدھ مت اور ایک جاپانی دھرم شین ٹو (Shinto) کی کتابیں پڑھیِں، عیسائیت کا مطالعہ بھی کیا، پھر یہودیت کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ اس کے بعد اسلام کی طرف راغب ہوئے، جس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ساڑھے تین سال قبل اسلام قبول کر لیا۔
دوسرے مذاہب میں بھی والدین کے حقوق اور اخلاقی تعلیمات ہیں، لیکن محمد نعیم کو لگتا ہے کہ اِن مذاہب کے پیروکاروں میں ان پر عمل باقی نہیں رہا، کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں مکمل آزادی ہے، وہ ایک دوسرے کی زندگی میں بالکل دخل نہیں دیتے ، بہ الفاظ دیگر وہ بالکل بھی دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔ یہاں ابھی بھی خاندانی نظام محفوظ ہے، باہر والے اسے پابندی کہیں گے، لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا، ترقی یافتہ ممالک میں بچے خود مختار ہو کر بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ جاتے ہیں۔ جاپان میں تو والدین خود ہی محسوس کر لیتے ہیں کہ اب وہ 'بوجھ' ہو گئے، اس لیے خود ہی اولڈ ہوم چلے جاتے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ والدین کا خیال رکھنے کی فکر یورپ سے بھی ختم ہوگئی، جو ہمیں پالتے پوستے ہیں، انہیں ہم بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ بالکل غلط نظام ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کا کسی مشین کے مصداق مستقل سخت محنت میں جتے رہنے کا مقصود وہ 'عیاشی' قرار دیتے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ جاپان میں اب اکٹھے رہنے کا تصور ہی نہیں رہا، اب انفرادیت پسندی کا غلبہ ہو چکا ہے۔ مذہب بے حد کم زور ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیے مذہب 'پرانا' ہو چکا، تجارتی اداروں کے مالکان اب ہمارے لیے 'بھگوان' اور نوکری 'عبادت' بن چکی ہے۔ لوگ صرف اسی کے لیے محنت کر رہے ہیں۔
نعیم بتاتے ہیں کہ جاپان میں لوگوں کے پاس شادی کرنے کے لیے بھی وقت نہیں۔ لوگ پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد کا وقت فلموں، کتابوں اور دوبارہ کام کے لیے تازہ دم ہونے میں صرف کرتے ہیں۔ شادی کرنے کی طرف دھیان کم ہی جاتا ہے۔ جاپان کے نصف نوجوان کنوارے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں گو کہ اکثر جاپانی بدھ مت اور 'شین ٹو' کے پیروکار ہیں، لیکن اب یہ ناتا صرف اتنا ہے کہ جب کسی شخص کا آخری وقت آجاتا ہے تو پنڈت آکر جنتر منتر پڑھ لیتا ہے۔۔۔ اب شادی بھی انگریزی طریقے سے پادری کے پاس جا کر کی جاتی ہے۔ نعیم کے خیال میں آج کے دور میں بدھ مت کے مطابق چلنا ممکن نہیں، وہاں بنیادی طور پر خدا کا تصور نہیں، دوسرا یہ کہ اس میں انسان خود پر زیادہ توجہ دیتا ہے کہ اپنی خواہشات کیسے مٹانی ہیں، کیوں کہ سارے مسائل خواہشات کے سبب ہیں۔ اگر ان عقائد پرچلیں، تو شادی کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی کوئی کام کرنا ممکن ہے۔ برما اور تھائی لینڈ میں پنڈت نذرانوں پر گزر بسر کرتے ہیں، خود کماتے ہیں اور نہ ہی کھانا بناتے ہیں، اگر ہر شخص ایسا کرنے لگے، تو دنیا کا نظام کیسے چلے گا؟
ہم نے محمد نعیم سے پوچھا کہ ہمارے اور جاپان کے سماج میں تو بہت گہری خلیج ہے، یہاں بدعنوانی، اور کام چوری کی شکایات ہیں، بہت سے لوگ باہر جانے کے خواہاں ہیں، جس پر محمد نعیم گویا ہوئے کہ ہمیں اپنی خامیاں تو دکھائی دے جاتی ہیں، مگر خوبیاں پتا نہیں چلتیں۔' وہ پاکستان کی خوبیاں گنواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ پاکستان کو پرانا جاپان کہتے ہیں۔ 'جیسے یہاں کا مشترکہ خاندانی نظام، باہمی میل جول اور ایک دوسرے کو وقت دینا۔۔۔ یہ سب باتیں جاپان کے ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔'
نعیم کی نظر میں ذات پات کا نظام ہمارے سماج کا بڑا مسئلہ ہے، وہ اسے ناپسند کرتے ہیں کہ یہاں اپنی ذات کے شخص سوا کسی اور شخص پہ بھروسا نہیں کیا جاتا۔ کہتے ہیں کہ اس کا فائدہ بھی ہے، لیکن نقصان بہت زیادہ ہے۔ کہتے ہیں جاپان میں ذاتوں کا نظام تقریباً ختم ہو گیا ہے، لگ بھگ سب ہی ایک زبان بولتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں صفائی کے کام کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ذمہ قرار دینا بھی وہ غلط سوچ قرار دیتے ہیں۔
اردو میں جدید علوم کے تراجم نہیں، ٹیکنالوجی کے مسائل، لوگوں کی انگریز پسندی کی موجودگی میں اردو کے مستقبل کے حوالے سے محمد نعیم کی رائے جاننا چاہی، تو انہوں نے کہا کہ یہ فکر کی بات تو ہے، لیکن اردو کا مستقبل برا نہیں۔ آج بھی موبائل پیغامات اور سماجی ذرایع اِبلاغ پہ اردو لکھی جا رہی ہے، اس لیے زبان تو زندہ ہے۔ بے شک بہت سے رومن رسم الخط میں بھی لکھتے ہیں، لیکن اردو تو اردو ہے۔۔۔
محمد نعیم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اردو رسم الخط اور حرف تہجی میں ایک خوب صورتی ہے۔ رومن رسم الخط کا استعمال مجبوری ہے، کیوں کہ بہت سوں کو اردو رسم الخط نہیں آتا، کچھ موبائل فون میں اردو لکھنے کی سہولت نہیں ہوتی۔ اگر ہم رومن میں لکھیں گے، تو یہ ہندوستانیوں کو بھی سمجھ آسکتا ہے، دونوں ممالک کی اتنی بڑی آبادی کی ایک دوسرے تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں رومن رسم الخط کا مثبت پہلو بھی تو دیکھنا چاہیے۔
اردو لکھنے والوں کی پسند نا پسند کا ذکر ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ شاعری پڑھنا ذرا مشکل ہے، کیوں کہ اس میں الفاظ کا بین السطور کوئی پس منظر اور تصور ہوتا ہے۔ نعیم کا خیال ہے کہ اردو شاعری مشکل ہے، اِسے سمجھنے کے لیے بول چال سے زیادہ زبان کی معلومات ہونا ضروری ہیں۔ اسد اللہ خان غالب کے مقابلے میں انہیں میر تقی میر کا کلام سہل معلوم ہوتا ہے، جیسے 'یہ نمائش سراب کی سی ہے' کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہاں کی سوچ سے تھوڑا ملتا جلتا ہے۔
محمد نعیم نے صرف نصاب میں شامل جاپانی نثر اور شاعری کا مطالعہ کیا۔ جاپانی زبان 80 فی صد چینی سے مماثل ہے۔ نعیم کہتے ہیں کہ یہاں کچھ حساس موضوعات پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے، اور ایسی تحریروں پر ردعمل ہوتا ہے، جیسا سعادت حسن منٹو کے لکھے پہ ہوا، جب کہ جاپانی سماج میں اس طرح کی کوئی پابندی یا مسئلہ نہیں۔ وہاں ایسی باتیں بہ آسانی لکھی جا سکتی ہیں۔
کسی بات کے کہنے یا کسی جذبے کے اظہار کے لیے اردو میں تنگی یا وسعت کا استفسار کیا، تو محمد نعیم کہنے لگے کہ ہماری زبان میں مغلظات نہیں، جب کہ یہاں گالیاں زیادہ ہیں۔ جاپانی میں کسی کو برا کہنا ہو تو بہ مشکل 'بے وقوف' یا 'الو' کہہ دیتے ہیں، زیادہ غصہ ہو جائیں، تو کہتے ہیں کہ چلے جاؤ! جب کہ یہاں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں، اگر کسی گالی کا جاپانی میں ترجمہ بھی کرنا چاہیں، تب بھی وہاں اس کا تصور ہی نہیں۔
محمد نعیم اِن دنوں منڈی بہاؤالدین میں اپنی پاکستانی شریک حیات اور شیرخوار بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، یہاں وہ اپنے دوست دانش کے قائم کردہ اسکول میں جاپانی زبان سکھانے اور جاپانی سرگرمیوں پر مامور ہیں۔ اس اسکول کا نام بھی جاپانی زبان میں 'تائی تو' رکھا گیا ہے، جو دراصل دانش اور نعیم کی جامعہ کا نام ہے، اس کے معنی 'مشرق عظیم' کے ہیں۔ نعیم کو یہ نام اس لیے بھی پسند ہے کہ پاکستان بھی مشرق میں واقع ہے۔
جاپانی لہجے میں شیریں اردو
اہل زبان جب گویا ہوتے ہیں، تو اِن سے درست زبان کی توقع کی جاتی ہے۔ لہجے سے لے کر املے اور تلفظ اور نشست وبرخاست سے لے کر الفاظ کے برتاؤ تک۔۔۔ کسی بھی شعبے میں انہیں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی ماجرا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اہل زبان بھی کبھی غفلت کرتے ہیں اور اسے 'گھر کی لونڈی' سمجھ کر اس سے سلوک بھی لونڈیوں کا سا کرتے ہیں۔ جب برصغیر کے طول وارض کے باسی دوسری میٹھی زبانیں بولنے والے اپنے اپنے مخصوص شیریں لہجوں سے اردو کو سیراب کرتے ہیں، تو اردو سننے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ ان کے لہجے کی اردو سے سماعتوں کو جو چاشنی میسر ہوتی ہے، وہ اہل زبان کے نپے تلے تلفظ اور مکمل لب ولہجے سے کچھ سوا ہی ہے۔۔۔
اسی طرح جب بدیسی افراد اپنے اپنے مخصوص لہجوں کے ساتھ اردو میں اظہار خیال کرتے ہیں، تو ان کے لہجے میں اردو کا ایک نیا ہی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم محمد نعیم کے روبرو ہوئے تو ہمیں کچھ ایسا ہی منفرد تجربہ ہوا۔ جاپانی لہجے نے اُن کی اردو کو گویا سجا دیا ہے، بالخصوص جب وہ 'ن' کو 'ں' ادا کرتے ہیں، تو بے حد خوب صورت معلوم ہوتا ہے، انہیں اردو پر واقعی ملکہ حاصل ہے، اگر کوئی ٹیلی فون پر ان سے ہم کلام ہو، تو انہیں برصغیر کا شہری ہی سمجھے اور اسے گمان بھی نہ ہو کہ وہ دراصل جاپان سے ہیں اور اردو بول چال دراصل ان کی بے پناہ محبت اور لگن کا نتیجہ ہے۔
والدین اور دادا، دادی کریانے کی دکان پر کام کرتے تھے
محمد نعیم نے 1983ء میں جاپان کے ساحلی علاقے چیبا (Chiba) میں آنکھ کھولی، چیبا جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے بازو میں واقع ہے۔ انہوں نے سرکاری اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کی، 18 برس کی عمر تک وہیں رہے، اُن کے والد کی کریانے کی دکان ہے، جہاں والدہ بھی ان کے ساتھ ہی کام کرتیں۔۔۔ اُن کے دادا دادی بھی وہیں ہوتے۔ منڈی بہاؤ الدین سے اپنے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جاپان میں منڈی بہاؤالدین کے ایک طالب علم مظہر اقبال دانش تعلیمی وظیفے پر آئے، توان سے دوستی ہوگئی۔ پھر نعیم جب جامعہ کراچی کے طالب علم تھے، تو تعطیلات میں انہوں نے مظہر اقبال کے گاؤں کا رخ کیا، اُن ہی کی وساطت سے اُن کی رشتے دار ثمن کے اہل خانہ سے میل جول ہو گیا۔
والدہ کے دنیا سے جانے کے بعد جب واپس لوٹے تو 'شوہے' سے محمد نعیم ہو چکے تھے، چناں چہ تین برس قبل یہ تعلقات رشتے داری میں تبدیل ہو گئے اور وہ تین سال قبل ثمن کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، جس کے بعد وہ یہیں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی اہلیہ خاتون خانہ ہیں۔ محمد نعیم کی ایک بیٹی ہے، جس کا نام انہوں نے چیری بلاسم پھول کے جاپانی نام پر 'ساکرہ' (Sakura) رکھا ہے۔ جاپان میں ان کے اہل خانہ ان کی یہاں شادی اور رہائش سے آگاہ ہیں۔
نعیم کہتے ہیں کہ اگر وہ شادی کے بعد جاپان چلے جاتے، تو وہاں نوکری میں لگ کر گھر کو وقت دینا ممکن نہ ہوتا۔ اُن کی اہلیہ بھی پردیس میں الگ پریشان ہوتیں، انہیں زبان سے عدم واقفیت پر گھر سے باہر نکلنے میں دشواری ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے جاپانی زبان اور سماج کے بارے میں جان جائیں، اس کے بعد وہ جاپان جائیں گے۔ محمد نعیم کی بیٹی ساکرہ کو جاپان کی شہریت بھی حاصل ہے، وہ اسے جاپان میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ جاپانی زبان سیکھ سکے، جو یہاں ممکن نہیں۔ کہتے ہیں جاپانی زبان کے حرف تہجی بہت مشکل ہیں۔ اردو یا پنجابی تو وہ اپنی ماں سے سنے گی، تو سیکھ ہی جائے گی۔ محمد نعیم انگریزی سے بالکل ناواقف ہیں، جب کہ جاپانی اور اردو جانتے ہیں، تھوڑی بہت پنجابی بھی سمجھ جاتے ہیں۔
جاپانی تلخیوں کو یاد نہیں رکھتے!
گفتگو میں سعادت حسن منٹو کا تذکرہ ہوا، تو محمد نعیم نے اردو کے فساداتی ادب کو ضروری قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بھی بتایا کہ جاپان میں دوسری جنگ عظیم میں دو مہلک جوہری حملوں سے جو تباہی ہوئی ہمارے بزرگ اسے یاد نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ اس سے انہیں دکھ ہوتا ہے۔ نعیم کہتے ہیں کہ جاپان اور دیگر ہم سایوں میں یہی امتیاز ہے کہ ہمارے ہاں معاف کرنا اور فراموشی زیادہ ہے، غصے کو محفوظ رکھ کر بدلہ لینا نہیں۔ وہ اس طرز عمل کو خوبی اور ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں۔ تب ہی جوہری حملوں کے باوجود جاپان کے امریکا سے اچھے تعلقات ہیں اور آج جاپان ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
'امریکیوں نے ہم سے بہت چالاکی کی'
محمد نعیم سے جب ہم نے پوچھا کہ 'جاپان او امریکا کے تعلقات کو کیسا سمجھتے ہیں؟' تو انہوں نے سوچتے ہوئے جواب دیا کہ 'امریکا نے ہمارے ساتھ بڑی چالاکی کی، ہم طاقت نہ ہونے کے باوجود چین اور روس سے نبردآزما رہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ اگر اب اُس نے ٹوکیو سے برا سلوک کیا، تو وہ چین اور روس سے جا ملے گا۔ وہ جاپان سے دوستی صرف اس لیے رکھ رہا ہے، تاکہ اِسے چین اور روس کے لیے ایک آڑ بنا کر رکھے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ 'جاپان ایک ایسا جنگی جہاز ہے، جو ڈوبتا نہیں۔' محمد نعیم کا خیال ہے کہ جاپان اور امریکا کے تعلقات سے ٹوکیو کو فائدہ ہوا ہے، اسے ترقی میں مدد ملی، تاہم وہ امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرنے کو جاپانی سیاست دانوں کی خامی تصور کرتے ہیں کہ ہم نے امریکا کے لیے دوسرے ممالک چھوڑ دیے، یہ خسارے کی بات ہے۔ اب امریکا کی طاقت کم زور ہوگئی ہے، چین بھی سپر پاور بن گیا ہے، لیکن جاپان بدستور چین کو نظرانداز کر کے امریکا کا طرف دار بنا ہوا ہے اور امریکی ایما پر ہی چین کو دشمن قرار دیا جاتا ہے، یہ عوام کے لیے مفید عمل نہیں ہے۔
اس جاپانی طالب علم کا نام 'شوہے' تھا، جو بعد میں محمد نعیم کہلائے۔۔۔ انہوں نے 2001ء میں ایک جامعہ کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں داخلہ لیا، جو جاپانی دارالحکومت ٹوکیو سے کچھ آگے واقع ایک شہر سائیتاما (Saitama) میں واقع ہے۔ اس دوران 11 ستمبر 2001ء (نائن الیون) کو امریکا میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، جس کے بعد خبروں میں روزانہ پاکستان، طالبان اور افغانستان کا تذکرہ سنا، اس سے پہلے وہ پاکستان اور اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، خبروں میں بار بار تذکرہ ہوا، تو اس بارے میں کھوجنا شروع کیا۔ ایک جاپانی استاد کے توسط سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی زبان اردو ہے اور اکثریت مسلمان ہے، انہی استاد نے کلیات اقبال کا جاپانی ترجمہ بھی کیا ہے۔
اِن کی جامعہ میں مختلف ایشیائی زبانیں اردو، ہندی، چینی، عربی، فارسی، کوریائی، انڈونیشیائی اور ملائی وغیرہ بطور اختیاری مضمون تھیں، انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ملتی جلتی زبانیں ہیں، جاپان و ہند کے قدیم تعلقات ہیں، اس لیے ہندوستان کے بارے میں پڑھنے والے بہت زیادہ ہیں، جب کہ پاکستان کے بارے میں پڑھنے والے بہت کم ہیں، جاپان کی تین جامعات میں سالانہ فقط 50 طالب علم اردو پڑھتے ہیں۔ اس لیے اردو کے حوالے سے اسکوپ (وسعت) زیادہ ہے۔ یوں انہوں نے نہایت ذوق وشوق سے اردو پڑھنا شروع کر دی۔ اُس زمانے میں یہاں ڈاکٹر معین الدین عقیل (سابق صدر نشیں شعبہ اردو، جامعہ کراچی) پڑھا کر جا چکے تھے، ان دنوں ایک سال کے لیے معین الدین جمیل صاحب وہاں آئے ہوئے تھے۔
محمد نعیم کہتے ہیں کہ اردو سے پہلے ایک استاد نے جبراً انگریزی پڑھائی، جو انہیں پسند نہ تھی، کیوں کہ جاپان میں انگریزی کے بغیر اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی ممکن ہے اور حکومتی معاملات بھی چل سکتے ہیں، وہاں وزیروں کو بھی انگریزی نہیں آتی۔ اس لیے انہیں بھی انگریزی پڑھنا اچھا نہیں لگا، جب کہ اردو اپنے شوق سے اختیار کی۔ پاکستانیوں سے بات ہوئی اور ان سے تعلق بڑھا، تو اردو سیکھنے میں دقت نہیں ہوئی۔
نعیم کہتے ہیں کہ مجھے اسلام سے دل چسپی تھی، اس لیے اردو پڑھی۔ گریجویشن کی سطح پہ ہفتہ وار 50، 50 منٹ کی تین کلاسیں ہوتی تھیں۔ اس دوران چھے ماہ کے لیے جامعہ پنجاب (لاہور) چلے آئے، اورینٹل کالج میں چھے ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس بھی کیا۔ جامعہ کراچی میں ڈیڑھ برس اردو کے ڈپلومہ کورس میں بھی رہے، پھر اُن کے استاد ڈاکٹر معین الدین عقیل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) چلے گئے، تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ محمد نعیم کے مطابق غیر ملکیوں کے اردو کے سرٹیفیکیٹ کورس کے دوران انہیں دیگر ہم جماعتوں کی نسبت زیادہ اردو آتی تھی، لہٰذا انہیں ایم اے کی کلاس میں مقامی بچوں کے ساتھ بٹھا دیا جاتا۔ محمد نعیم کو روانی سے اردو بولتے ہوئے دیکھ کر ہم پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ زبان پر اُن کا یہ سلیقہ کتنے عرصے کی محنت کا ثمر ہے، انہوں نے بتایا کہ اُن کی اردو اب 15 برس کی ہو چکی ہے۔
والدہ شدید علیل تھیں، جس کے سبب انہیں جاپان لوٹنا پڑا، والدہ کی تیمار داری میں مصروف رہے۔ اس دوران پاکستانی احباب سے رابطہ نہ کر سکے، اُن کے موبائل فون میں نمبر تو محفوظ تھے، لیکن موبائل کے لیے مطلوبہ چارجر دست یاب نہ ہونے کے سبب موبائل بند ہو گیا، جس سے رابطہ منقطع رہا۔
محمد نعیم کی والدہ مطلقہ تھیں اور شوہر سے علاحدگی کے بعد تنہا رہتیں، اور ملازمت سے گزر بسر کرتیں، جب وہ بیمار ہوئیں، تو والد نے ان کی مدد کی اور نہ اُن کے دوسرے بیٹوں نے۔ والد کی تو اب وہ شریک حیات نہ تھیں، مگر چھوٹے بھائیوں کی تو ماں تھیں، آخر انہوں نے کیوں بے رخی دکھائی؟ اس سوچ نے انہیں بے چین کیے رکھا؟
2012-13ء میں والدہ کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد وہ بہت زیادہ بیزار اور پریشان رہنے لگے، جینے کی امنگ باقی نہیں رہی۔ اس دوران بدھ مت اور ایک جاپانی دھرم شین ٹو (Shinto) کی کتابیں پڑھیِں، عیسائیت کا مطالعہ بھی کیا، پھر یہودیت کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ اس کے بعد اسلام کی طرف راغب ہوئے، جس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ساڑھے تین سال قبل اسلام قبول کر لیا۔
دوسرے مذاہب میں بھی والدین کے حقوق اور اخلاقی تعلیمات ہیں، لیکن محمد نعیم کو لگتا ہے کہ اِن مذاہب کے پیروکاروں میں ان پر عمل باقی نہیں رہا، کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں مکمل آزادی ہے، وہ ایک دوسرے کی زندگی میں بالکل دخل نہیں دیتے ، بہ الفاظ دیگر وہ بالکل بھی دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔ یہاں ابھی بھی خاندانی نظام محفوظ ہے، باہر والے اسے پابندی کہیں گے، لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا، ترقی یافتہ ممالک میں بچے خود مختار ہو کر بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ جاتے ہیں۔ جاپان میں تو والدین خود ہی محسوس کر لیتے ہیں کہ اب وہ 'بوجھ' ہو گئے، اس لیے خود ہی اولڈ ہوم چلے جاتے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ والدین کا خیال رکھنے کی فکر یورپ سے بھی ختم ہوگئی، جو ہمیں پالتے پوستے ہیں، انہیں ہم بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ بالکل غلط نظام ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کا کسی مشین کے مصداق مستقل سخت محنت میں جتے رہنے کا مقصود وہ 'عیاشی' قرار دیتے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ جاپان میں اب اکٹھے رہنے کا تصور ہی نہیں رہا، اب انفرادیت پسندی کا غلبہ ہو چکا ہے۔ مذہب بے حد کم زور ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لیے مذہب 'پرانا' ہو چکا، تجارتی اداروں کے مالکان اب ہمارے لیے 'بھگوان' اور نوکری 'عبادت' بن چکی ہے۔ لوگ صرف اسی کے لیے محنت کر رہے ہیں۔
نعیم بتاتے ہیں کہ جاپان میں لوگوں کے پاس شادی کرنے کے لیے بھی وقت نہیں۔ لوگ پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد کا وقت فلموں، کتابوں اور دوبارہ کام کے لیے تازہ دم ہونے میں صرف کرتے ہیں۔ شادی کرنے کی طرف دھیان کم ہی جاتا ہے۔ جاپان کے نصف نوجوان کنوارے ہیں۔ نعیم کہتے ہیں گو کہ اکثر جاپانی بدھ مت اور 'شین ٹو' کے پیروکار ہیں، لیکن اب یہ ناتا صرف اتنا ہے کہ جب کسی شخص کا آخری وقت آجاتا ہے تو پنڈت آکر جنتر منتر پڑھ لیتا ہے۔۔۔ اب شادی بھی انگریزی طریقے سے پادری کے پاس جا کر کی جاتی ہے۔ نعیم کے خیال میں آج کے دور میں بدھ مت کے مطابق چلنا ممکن نہیں، وہاں بنیادی طور پر خدا کا تصور نہیں، دوسرا یہ کہ اس میں انسان خود پر زیادہ توجہ دیتا ہے کہ اپنی خواہشات کیسے مٹانی ہیں، کیوں کہ سارے مسائل خواہشات کے سبب ہیں۔ اگر ان عقائد پرچلیں، تو شادی کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی کوئی کام کرنا ممکن ہے۔ برما اور تھائی لینڈ میں پنڈت نذرانوں پر گزر بسر کرتے ہیں، خود کماتے ہیں اور نہ ہی کھانا بناتے ہیں، اگر ہر شخص ایسا کرنے لگے، تو دنیا کا نظام کیسے چلے گا؟
ہم نے محمد نعیم سے پوچھا کہ ہمارے اور جاپان کے سماج میں تو بہت گہری خلیج ہے، یہاں بدعنوانی، اور کام چوری کی شکایات ہیں، بہت سے لوگ باہر جانے کے خواہاں ہیں، جس پر محمد نعیم گویا ہوئے کہ ہمیں اپنی خامیاں تو دکھائی دے جاتی ہیں، مگر خوبیاں پتا نہیں چلتیں۔' وہ پاکستان کی خوبیاں گنواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ پاکستان کو پرانا جاپان کہتے ہیں۔ 'جیسے یہاں کا مشترکہ خاندانی نظام، باہمی میل جول اور ایک دوسرے کو وقت دینا۔۔۔ یہ سب باتیں جاپان کے ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔'
نعیم کی نظر میں ذات پات کا نظام ہمارے سماج کا بڑا مسئلہ ہے، وہ اسے ناپسند کرتے ہیں کہ یہاں اپنی ذات کے شخص سوا کسی اور شخص پہ بھروسا نہیں کیا جاتا۔ کہتے ہیں کہ اس کا فائدہ بھی ہے، لیکن نقصان بہت زیادہ ہے۔ کہتے ہیں جاپان میں ذاتوں کا نظام تقریباً ختم ہو گیا ہے، لگ بھگ سب ہی ایک زبان بولتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں صفائی کے کام کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کا ذمہ قرار دینا بھی وہ غلط سوچ قرار دیتے ہیں۔
اردو میں جدید علوم کے تراجم نہیں، ٹیکنالوجی کے مسائل، لوگوں کی انگریز پسندی کی موجودگی میں اردو کے مستقبل کے حوالے سے محمد نعیم کی رائے جاننا چاہی، تو انہوں نے کہا کہ یہ فکر کی بات تو ہے، لیکن اردو کا مستقبل برا نہیں۔ آج بھی موبائل پیغامات اور سماجی ذرایع اِبلاغ پہ اردو لکھی جا رہی ہے، اس لیے زبان تو زندہ ہے۔ بے شک بہت سے رومن رسم الخط میں بھی لکھتے ہیں، لیکن اردو تو اردو ہے۔۔۔
محمد نعیم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اردو رسم الخط اور حرف تہجی میں ایک خوب صورتی ہے۔ رومن رسم الخط کا استعمال مجبوری ہے، کیوں کہ بہت سوں کو اردو رسم الخط نہیں آتا، کچھ موبائل فون میں اردو لکھنے کی سہولت نہیں ہوتی۔ اگر ہم رومن میں لکھیں گے، تو یہ ہندوستانیوں کو بھی سمجھ آسکتا ہے، دونوں ممالک کی اتنی بڑی آبادی کی ایک دوسرے تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہمیں رومن رسم الخط کا مثبت پہلو بھی تو دیکھنا چاہیے۔
اردو لکھنے والوں کی پسند نا پسند کا ذکر ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ شاعری پڑھنا ذرا مشکل ہے، کیوں کہ اس میں الفاظ کا بین السطور کوئی پس منظر اور تصور ہوتا ہے۔ نعیم کا خیال ہے کہ اردو شاعری مشکل ہے، اِسے سمجھنے کے لیے بول چال سے زیادہ زبان کی معلومات ہونا ضروری ہیں۔ اسد اللہ خان غالب کے مقابلے میں انہیں میر تقی میر کا کلام سہل معلوم ہوتا ہے، جیسے 'یہ نمائش سراب کی سی ہے' کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہاں کی سوچ سے تھوڑا ملتا جلتا ہے۔
محمد نعیم نے صرف نصاب میں شامل جاپانی نثر اور شاعری کا مطالعہ کیا۔ جاپانی زبان 80 فی صد چینی سے مماثل ہے۔ نعیم کہتے ہیں کہ یہاں کچھ حساس موضوعات پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے، اور ایسی تحریروں پر ردعمل ہوتا ہے، جیسا سعادت حسن منٹو کے لکھے پہ ہوا، جب کہ جاپانی سماج میں اس طرح کی کوئی پابندی یا مسئلہ نہیں۔ وہاں ایسی باتیں بہ آسانی لکھی جا سکتی ہیں۔
کسی بات کے کہنے یا کسی جذبے کے اظہار کے لیے اردو میں تنگی یا وسعت کا استفسار کیا، تو محمد نعیم کہنے لگے کہ ہماری زبان میں مغلظات نہیں، جب کہ یہاں گالیاں زیادہ ہیں۔ جاپانی میں کسی کو برا کہنا ہو تو بہ مشکل 'بے وقوف' یا 'الو' کہہ دیتے ہیں، زیادہ غصہ ہو جائیں، تو کہتے ہیں کہ چلے جاؤ! جب کہ یہاں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں، اگر کسی گالی کا جاپانی میں ترجمہ بھی کرنا چاہیں، تب بھی وہاں اس کا تصور ہی نہیں۔
محمد نعیم اِن دنوں منڈی بہاؤالدین میں اپنی پاکستانی شریک حیات اور شیرخوار بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، یہاں وہ اپنے دوست دانش کے قائم کردہ اسکول میں جاپانی زبان سکھانے اور جاپانی سرگرمیوں پر مامور ہیں۔ اس اسکول کا نام بھی جاپانی زبان میں 'تائی تو' رکھا گیا ہے، جو دراصل دانش اور نعیم کی جامعہ کا نام ہے، اس کے معنی 'مشرق عظیم' کے ہیں۔ نعیم کو یہ نام اس لیے بھی پسند ہے کہ پاکستان بھی مشرق میں واقع ہے۔
جاپانی لہجے میں شیریں اردو
اہل زبان جب گویا ہوتے ہیں، تو اِن سے درست زبان کی توقع کی جاتی ہے۔ لہجے سے لے کر املے اور تلفظ اور نشست وبرخاست سے لے کر الفاظ کے برتاؤ تک۔۔۔ کسی بھی شعبے میں انہیں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی ماجرا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اہل زبان بھی کبھی غفلت کرتے ہیں اور اسے 'گھر کی لونڈی' سمجھ کر اس سے سلوک بھی لونڈیوں کا سا کرتے ہیں۔ جب برصغیر کے طول وارض کے باسی دوسری میٹھی زبانیں بولنے والے اپنے اپنے مخصوص شیریں لہجوں سے اردو کو سیراب کرتے ہیں، تو اردو سننے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ ان کے لہجے کی اردو سے سماعتوں کو جو چاشنی میسر ہوتی ہے، وہ اہل زبان کے نپے تلے تلفظ اور مکمل لب ولہجے سے کچھ سوا ہی ہے۔۔۔
اسی طرح جب بدیسی افراد اپنے اپنے مخصوص لہجوں کے ساتھ اردو میں اظہار خیال کرتے ہیں، تو ان کے لہجے میں اردو کا ایک نیا ہی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم محمد نعیم کے روبرو ہوئے تو ہمیں کچھ ایسا ہی منفرد تجربہ ہوا۔ جاپانی لہجے نے اُن کی اردو کو گویا سجا دیا ہے، بالخصوص جب وہ 'ن' کو 'ں' ادا کرتے ہیں، تو بے حد خوب صورت معلوم ہوتا ہے، انہیں اردو پر واقعی ملکہ حاصل ہے، اگر کوئی ٹیلی فون پر ان سے ہم کلام ہو، تو انہیں برصغیر کا شہری ہی سمجھے اور اسے گمان بھی نہ ہو کہ وہ دراصل جاپان سے ہیں اور اردو بول چال دراصل ان کی بے پناہ محبت اور لگن کا نتیجہ ہے۔
والدین اور دادا، دادی کریانے کی دکان پر کام کرتے تھے
محمد نعیم نے 1983ء میں جاپان کے ساحلی علاقے چیبا (Chiba) میں آنکھ کھولی، چیبا جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے بازو میں واقع ہے۔ انہوں نے سرکاری اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کی، 18 برس کی عمر تک وہیں رہے، اُن کے والد کی کریانے کی دکان ہے، جہاں والدہ بھی ان کے ساتھ ہی کام کرتیں۔۔۔ اُن کے دادا دادی بھی وہیں ہوتے۔ منڈی بہاؤ الدین سے اپنے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جاپان میں منڈی بہاؤالدین کے ایک طالب علم مظہر اقبال دانش تعلیمی وظیفے پر آئے، توان سے دوستی ہوگئی۔ پھر نعیم جب جامعہ کراچی کے طالب علم تھے، تو تعطیلات میں انہوں نے مظہر اقبال کے گاؤں کا رخ کیا، اُن ہی کی وساطت سے اُن کی رشتے دار ثمن کے اہل خانہ سے میل جول ہو گیا۔
والدہ کے دنیا سے جانے کے بعد جب واپس لوٹے تو 'شوہے' سے محمد نعیم ہو چکے تھے، چناں چہ تین برس قبل یہ تعلقات رشتے داری میں تبدیل ہو گئے اور وہ تین سال قبل ثمن کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، جس کے بعد وہ یہیں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی اہلیہ خاتون خانہ ہیں۔ محمد نعیم کی ایک بیٹی ہے، جس کا نام انہوں نے چیری بلاسم پھول کے جاپانی نام پر 'ساکرہ' (Sakura) رکھا ہے۔ جاپان میں ان کے اہل خانہ ان کی یہاں شادی اور رہائش سے آگاہ ہیں۔
نعیم کہتے ہیں کہ اگر وہ شادی کے بعد جاپان چلے جاتے، تو وہاں نوکری میں لگ کر گھر کو وقت دینا ممکن نہ ہوتا۔ اُن کی اہلیہ بھی پردیس میں الگ پریشان ہوتیں، انہیں زبان سے عدم واقفیت پر گھر سے باہر نکلنے میں دشواری ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے جاپانی زبان اور سماج کے بارے میں جان جائیں، اس کے بعد وہ جاپان جائیں گے۔ محمد نعیم کی بیٹی ساکرہ کو جاپان کی شہریت بھی حاصل ہے، وہ اسے جاپان میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ جاپانی زبان سیکھ سکے، جو یہاں ممکن نہیں۔ کہتے ہیں جاپانی زبان کے حرف تہجی بہت مشکل ہیں۔ اردو یا پنجابی تو وہ اپنی ماں سے سنے گی، تو سیکھ ہی جائے گی۔ محمد نعیم انگریزی سے بالکل ناواقف ہیں، جب کہ جاپانی اور اردو جانتے ہیں، تھوڑی بہت پنجابی بھی سمجھ جاتے ہیں۔
جاپانی تلخیوں کو یاد نہیں رکھتے!
گفتگو میں سعادت حسن منٹو کا تذکرہ ہوا، تو محمد نعیم نے اردو کے فساداتی ادب کو ضروری قرار دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بھی بتایا کہ جاپان میں دوسری جنگ عظیم میں دو مہلک جوہری حملوں سے جو تباہی ہوئی ہمارے بزرگ اسے یاد نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ اس سے انہیں دکھ ہوتا ہے۔ نعیم کہتے ہیں کہ جاپان اور دیگر ہم سایوں میں یہی امتیاز ہے کہ ہمارے ہاں معاف کرنا اور فراموشی زیادہ ہے، غصے کو محفوظ رکھ کر بدلہ لینا نہیں۔ وہ اس طرز عمل کو خوبی اور ترقی کا راستہ سمجھتے ہیں۔ تب ہی جوہری حملوں کے باوجود جاپان کے امریکا سے اچھے تعلقات ہیں اور آج جاپان ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
'امریکیوں نے ہم سے بہت چالاکی کی'
محمد نعیم سے جب ہم نے پوچھا کہ 'جاپان او امریکا کے تعلقات کو کیسا سمجھتے ہیں؟' تو انہوں نے سوچتے ہوئے جواب دیا کہ 'امریکا نے ہمارے ساتھ بڑی چالاکی کی، ہم طاقت نہ ہونے کے باوجود چین اور روس سے نبردآزما رہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ اگر اب اُس نے ٹوکیو سے برا سلوک کیا، تو وہ چین اور روس سے جا ملے گا۔ وہ جاپان سے دوستی صرف اس لیے رکھ رہا ہے، تاکہ اِسے چین اور روس کے لیے ایک آڑ بنا کر رکھے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ 'جاپان ایک ایسا جنگی جہاز ہے، جو ڈوبتا نہیں۔' محمد نعیم کا خیال ہے کہ جاپان اور امریکا کے تعلقات سے ٹوکیو کو فائدہ ہوا ہے، اسے ترقی میں مدد ملی، تاہم وہ امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرنے کو جاپانی سیاست دانوں کی خامی تصور کرتے ہیں کہ ہم نے امریکا کے لیے دوسرے ممالک چھوڑ دیے، یہ خسارے کی بات ہے۔ اب امریکا کی طاقت کم زور ہوگئی ہے، چین بھی سپر پاور بن گیا ہے، لیکن جاپان بدستور چین کو نظرانداز کر کے امریکا کا طرف دار بنا ہوا ہے اور امریکی ایما پر ہی چین کو دشمن قرار دیا جاتا ہے، یہ عوام کے لیے مفید عمل نہیں ہے۔