جامعہ کراچیدستاویزات کے بغیروزیراعلیٰ بلوچستان کی سند کی تصدیق کا انکشاف

 یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس ثنااللہ زہری کا میٹرک سرٹیفکیٹ تھا نہ انٹر کی کوئی دستاویز


Safdar Rizvi October 05, 2017
ایچ ای سی نے 34 ارکان اسمبلی کا معاملہ بھی اٹھایا تھا، ’’ڈگری سپلیمنٹ انفارمیشن فارم‘‘ میں رپورٹ، کیسز پرانے دور کے ہیں، ڈاکٹر قیصر فوٹو : فائل

ISLAMABAD: جامعہ کراچی کی سابق انتظامیہ کی جانب سے اس وقت کے رکن صوبائی اسمبلی اورموجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی بی اے کی سند تمام متعلقہ اور انتہائی ضروری تعلیمی دستاویز کی عدم موجودگی میں بھی ''ویریفائیڈ''(تصدیق)کیے جانے کا انکشاف ہواہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سردارثنا اللہ زہری کی بی اے کی سند جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹرارشد اعظمی کی جانب سے کسی بھی متعلقہ تعلیمی کوائف کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کے باوجود تصدیق کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کو بھجوائی گئی ۔جامعہ کراچی کے پاس مذکورہ امیدوارکے میٹرک کا سرٹیفکیٹ تھانہ ہی انٹرکی کوئی دستاویزموجودتھی اس بات کاانکشاف ''ایکسپریس'' کو حاصل ہونے والی جامعہ کراچی کی ان آفیشل دستاویزات میں ہواہے جس میں ناظم امتحانات کے دستخط اورمہرکے ساتھ اس بات کااعتراف کیا گیا کہ سردارثنا اللہ زہری کے کم از کم 9 تعلیمی و دیگر دستاویزات موجود نہیں۔

واضح رہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف اسلام آباد کی جانب سے اراکین اسمبلی کی اسناد کی تصدیق کے لیے جامعات کو''ڈگری سپلیمنٹ انفارمیشن فارم''کے نام سے جو ''پروفارما'' بھجوایا گیا تھا متعلقہ سند کو اس پروفارمے پر لکھی گئی 9دستاویزات کے ساتھ تصدیق کیا جانا تھا تاہم متعلقہ پروفارمے پر اس وقت کے ناظم امتحانات نے اپنے دستخط سے اس امرکی وضاحت کی کہ سردار ثناء اللہ زہری کی بی اے کی سندکے لیے ان 9میں سے کوئی بھی دستاویز جامعہ کراچی کے ریکارڈمیں موجودنہیں ان اسنادمیں امیدوارکی ''شناختی کارڈ کی کاپی،میٹرک اورانٹرکے سرٹیفکیٹ یا اس کے مساوی سرٹیفکیٹ کی کاپی، ریگولر طالب علم ہونے کی صورت میں یونیورسٹی میں داخلے کی تاریخ کاریکارڈ،پرائیویٹ طالب علم ہونے کی صورت میں رجسٹریشن اوررول نمبرکی تفصیلات، مائیگریشن اوراہلیت کاسرٹیفیکیٹ،ماسٹرڈگری کی صورت میں بیچلرکی ڈگری اوراس متعلقہ ڈگری کی مارک شیٹ''شامل تھاتاہم ناظم امتحانات کی جانب سے اس پروفارمے پر دیے گئے ریمارکس کے مطابق متعلقہ امیدوارثنا اللہ زہری کامذکورہ ریکارڈ جامعہ کراچی کے متعلقہ سیکشنزمیں موجودہی نہیں۔

یادرہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹرجاویدلغاری نے یکم اپریل 2013 کو جامعہ کراچی کے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹرمحمد قیصر بعض سابق پارلیمینٹرینز؍ ایم پی ایزکی اسناد کی تصدیق کے لیے سپریم کورٹ کے احکام کے تناظر میں ایک خط تحریرکیاتھاجس میں چاراراکین کی اسناد کے لیے ڈگری سپلیمنٹ انفارمیشن فارم (ڈی ایس آئی ایف) کے ساتھ ساتھ ان کی میٹرک اورانٹرکی اسنادکی تصدیق 4 اپریل تک کرنے کے لیے کہاگیاتھاان ناموں میں موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا زہری حلقہ (constituency) پی بی 33سمیت دیگرنام بھی موجودتھے ازاں بعدیہ تعدادچارسے بڑھ کر 34 ہو گئی تھی تاہم اس خط کے جواب میں ریمارکس دیتے ہوئے جامعہ کراچی کے اس وقت کے ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے کہاتھاکہ جامعہ کراچی کے پاس ان متعلقہ ڈگریوں کاکوئی ریکارڈ موجودنہیں اگرکمیشن کے پاس یہ ڈگریاں یااس سے متعلقہ کوئی ریکارڈ ہے تووہ تصدیق کے لیے جامعہ کراچی کو فراہم کرے تاہم اسی اثنا میں ایچ ای سی کے مذکورہ پروفارمے پرسردارثنا اللہ زہری کی بی اے کی سند کے اجرا کی تاریخ 1991 تحریر کرتے ہوئے کہاگیاکہ جامعہ کراچی کے پاس ڈگری سے متعلق دستاویزات کاریکارڈ موجود نہیں ہے۔

یادرہے کہ اسی اثنا میں سابق چیئرمین ایچ ای سی پاکستان ڈاکٹرجاوید لغاری کی جانب سے 11جولائی 2013 کو مزید ایک خط بھیجاگیاجس میں حلقہ این اے 272سے یعقوب بزنجواوراین اے 107سے محمد جمیل ملک کی بی اے کی سندکی تصدیق کامعاملہ بھی اٹھایاگیا۔ ''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں جامعہ کراچی کی سابق انتظامیہ کاموقف جاننے کے لیے سابق ناظم امتحانات پروفیسرڈاکٹرارشداعظمی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ریکارڈ کے مطابق اسناد ویری فیکیشن کی تھی جو غلط تھی اسے غلط قراردیاتھاکوئی دباؤقبول نہیں کیا تھا انرولمنٹ رجسٹریشن اورٹیبولیشن چیک کیا جاتا تھا مزید تفصیلات مجھے زبانی یاد نہیں ہے اب میں ناظم امتحانات نہیں ہوں لہٰذافوری طورپرمذکورہ کیس کی تصدیق نہیں کرسکتاتاہم ان کیسز کوبغوردیکھاگیاتھااس کے بعدہی تصدیق کی گئی تھی سابق وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرمحمد قیصر سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیاگیاتاہم ان کاکہناتھاکہ 2013 میں اراکین اسمبلی کی گریجویشن کی شرط ہی ختم ہوچکی تھی یہ کیسز ان سے بھی پرانے کے دورکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں