عالمی دہشت گردی اور امریکی جمہوریت کا اصل چہرہ

القاعدہ سے لے کر داعش تک، دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیمیں امریکی سی آئی اے نے ہی بنائی ہیں۔


سعید احمد October 05, 2017
شدت پسند تنظیموں کی بنیاد کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کے تانے بانے امریکا سے ہی ملتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

دہشت گردی چاہے دنیا کے جس خطے میں بھی ہو، اس کی بلا تفریقِ مذہب مذمت کی جانی چاہیے اور دہشت گرد کو دہشت گردی ہی تصور کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر جمہوریت کے بڑے بڑے چیمپئن خود ہی دنیا میں مذہب اور لسانیت کی بنا پر دہشت گرد کارروائیوں کی تفریق کرنا شروع کر دیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے جو آج کل امریکا، برطانیہ اور یورپ میں ہو رہا ہے۔

دنیا میں ''اسلامی دہشت گردی'' کی اصطلاح سب سے پہلے 2001 میں امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں کے بعد سننے کو ملی اور پھر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت القاعدہ، الشباب اور داعش جیسی متشدد تنظیموں کو اسلام سے جوڑ کر اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کو پروان چڑھایا گیا۔ حالانکہ اگر ان شدت پسند تنظیموں کی بنیاد کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کے تانے بانے امریکا سے ہی ملتے ہیں۔

امریکا خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آمروں کی حمایت اگر کسی ملک نے کی تو وہ امریکا ہی ہے۔ سابق عراقی صدر صدام حسین کو امریکا اور اس کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے ہیرو بنایا اور پھر جب دیکھا کہ وہ امریکا کے کسی کام کا نہیں رہا تو کیمیائی ہتھیاروں کا جواز بنا کر 30 دسمبر 2006 کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ لیکن جب تحقیقات ہوئیں تو کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔ اسی طرح القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پہلے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور پھر مئی 2012 میں پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں غیر اعلانیہ فوجی آپریشن کر کےاس کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا اور کہا گیا کہ لاش کو سمندر برد کر دیا گیا ہے۔ لیکن اسامہ بن لادن کی ہلاکت آج بھی معما بنی ہوئی ہے۔

اور اگر ہم موجودہ دور کی سب سے زیادہ شدت پسند تنظیم داعش کی بات کریں تو اس کے سربراہ کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اسرائیل اور امریکا، دونوں کی مسلح افواج نے ٹریننگ دی جب کہ داعش کو اسلحے کی سپلائی کے حوالے سے تو درجنوں رپورٹس منظر عام آچکی ہیں کہ انہیں جدید ترین اسلحہ امریکا کی جانب سے ہی فراہم کیا جا رہا ہے؛ اور پھر ان کے پاس آنے والی لاکھوں ڈالر کی آمدنی کی ترسیل بھی ایسے بینکوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے جن کے مالکان زیادہ تر یہودی اور امریکی ہیں۔

آج ہمیں امریکا میں کہیں سیاہ فام لوگ تخریب کاری کی کارروائیاں کرتے نظر آئیں گے تو کہیں مسلم کش اقدامات اور مساجد پر شدت پسندوں کے حملوں سے تنگ کوئی مسلمان کسی میوزک کنسرٹ میں، کسی شاپنگ اسٹریٹ پر یا پھر چرچ میں اندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہوا دکھایا جائے گا۔

امریکی شہر لاس ویگاس کے میوزک کنسرٹ میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوئے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن خوش قسمتی یہ ہوئی کہ حملہ آور مقامی نکلا جس کی وجہ سے امریکی صدر، مقامی انتظامیہ اور میڈیا نےاسے انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے صرف افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن اگر غلطی سے حملہ آور کوئی مسلمان شخص ہوتا تو فوری طور پر اسے دہشت گردی سے جوڑ کر انٹرنیشنل میڈیا اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ جیسے ماضی کی طرح اس بار بھی دہشت گردی کی اس گھناؤنی واردات کو اسلام سے جوڑنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ علی الاعلان اسلام اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ کئی بار اپنے بیانات میں اسلامی دہشت گردی کے خاتمے کا ذکر کر چکے ہیں لیکن انہیں فلسطین میں ہونے والی یہودی دہشت گردی، بھارت میں ہونے والی ہندو دہشت گردی اور میانمار میں ہونے والی بدھ دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بس اسلامی دہشت گردی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ اسلام میں کہیں نہ کہیں موروثی طور پر دہشت گردی کا عنصر شامل ہے۔

اگر امریکا نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنی دوغلی پالیسی پر فوری نظر ثانی نہ کی تو یہ نہ صرف خود امریکا کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ گروہی، لسانی، نسلی اور قومی بنیادوں تک پھیل جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں