یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا

قوم حکمرانوں سے سوال کررہی ہے کہ ان کے پاس ان ہلاکتوں کا کیا جواب ہے؟

قوم حکمرانوں سے سوال کررہی ہے کہ ان کے پاس ان ہلاکتوں کا کیا جواب ہے؟ فوٹو اے ایف پی

بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کا افسوس ناک سلسلہ جاری ہے جب کہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے قوم کے آنسو ابھی خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ ضلع گوادر کے علاقے پسنی اور تربت میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 6 مزدوروں سمیت 7افراد جاں بحق ہو گئے۔ گلستان کاریز میں ایف سی کے آپریشن میں ایک شخص ہلاک جب کہ اہلکار سمیت 2 زخمی ہو گئے۔ اتوار کو پسنی سے 25 کلومیٹر دور شادی کور کے علاقے میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے 6 مزدوروں کو قتل کر دیا، لیویز ذرایع کے مطابق مقتولین مکران کوسٹل ہائی وے کے تعمیراتی کام پر مامور تھے، حملہ آوروں نے تمام مزدوروں کو شناخت پریڈ کے بعد لائن میں کھڑا کر کے گولیاں ماریں جب کہ ایک بارہ سالہ بچے کو چھوڑ دیا، مقتولین کا تعلق ژوب سے بتایا جاتا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے ریاست کے اندر ریاست تو بنالی ہے تاہم وہ ایک ایسی بے رحم متوازی طاقت کا روپ بھی دھار چکے ہیں جن کو قابو کرنا گویا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات نہیں رہی ، ان کی طرف سے کراچی،خیبر پختونخوا اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں انسانی جانوں کا خراج لیا جارہا ہے، بے گناہ محنت کشوں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کو شناخت کرکے قتل کرنا کہاں کی انسانیت ، کہاں کی مزاحمتی تحریک یا حقوق کی جنگ یا انقلاب کی طرف کیسی فاتحانہ پیش قدمی ہے۔یہ تو کھلی بربریت ہے۔مگر ایک چیز واضح ہے کہ انتہا پسندی کے ایجنڈے سے وابستہ عناصر ریاستی مشینری کی کمزور حکمت عملی کو مملکت کی ہزیمت یا پسپائی قرار دیکر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں ۔


قوم حکمرانوں سے سوال کررہی ہے کہ ان کے پاس ان ہلاکتوں کا کیا جواب ہے؟ ریاست کو دیدہ دلیری سے چیلنج کرنے کے جو دلگداز نتائج سامنے آنے لگے ہیں وہ ارباب اختیار کے سنجیدہ سیاسی طرز عمل اور صورتحال کی سنگینی کے گہرے ادراک سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے، حکام کو عوام کی سلامتی کے لیے جارحانہ کارروائی کو یقینی بنانا چاہیے۔ دہشت گردوں کی طرف سے انھیں جس رعونت اور اسلحہ کے بل پر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے اس سے بلوچستان کی گمبھیرتا کے سلجھاؤ کے لیے راستہ ڈیڈ اینڈ کی طرف جاتا ہے، جب کہ ضرورت دہشت گردوں کو دہشت گردی کی تاریک سرنگ میں دھکیل کر ہمیشہ کے لیے مفلوج اور عبرت کا نمونہ بنادینے کا ہے ۔

مگر عندیہ دیا جارہا ہے صدر زداری اپنے دبئی میں3 روزہ قیام اور ایران کے دورے سے واپسی پر وزیراعظم کی ایڈوائس پر گورنر راج کے خاتمے کی سمری پر دستخط کردیں گے۔تاہم اس بات کی پھر بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ کیا نئی صوبائی حکومت جس کے لیے فیورٹ وزیراعلیٰ کے طور پر عبدالرحمان جمالی اور صادق عمرانی کے نام لیے جارہے ہیں عبوری طور پر دہشت گردی کے خلاف بند باندھ سکے گی یا نہیں ۔ بلوچستان کی اندوہ ناک صورتحال کے حوالے سے ملکی مبصرین نے مزدوروں کو بہیمانہ طریقے سے ہلاک کرنے کے واقعہ کو علاوہ دیگر عوامل کے گوادر پورٹ کے چین کو سپرد کیے جانے کا شاخسانہ قراردیتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ خطے میں تبدیلیوں سے ناخوش عالمی طاقتیں صورتحال کی بہتری کے حق میں نہیں چنانچہ اب بھی خطرہ ہے کہ قتل و غارت کے انسداد کے لیے خرابیوں کی اصل جڑ کو نہ کاٹا گیا تو حالات مزید ابتری کی طرف جائیں گے۔ اس وقت گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی پر ہر نگاہ مرکوز ہے۔ انھیں سنجیدگی سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کی کارروائی کی مانیٹرنگ پر توجہ دینی چاہیے ۔

بلوچستان میں گورنر راج کا خاتمہ اور صوبائی حکومت کی بحالی نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔ یہ وقت میوزیکل چیئرز طرز کی سیاسی بازی گری کا ہر گز نہیں ہے ۔ ادھرخان آف قلات میر سلیمان داؤد خان نے بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ کو بلوچ قومی مسئلہ سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی گھناؤنی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں پراکسی وار جاری ہے جہاں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔بادی النظر میںبلوچستان میں ٹارگٹڈ آپریشن بھی دیگر صوبائی دارالحکومتوں کی طرح واضح اہداف کے فقدان کا شکار ہے ، تاحال کوئی ہائی پروفائل دہشت گرد زد میں نہیں آیا۔پتا نہیں چلتا کہ کس کا ٹارگٹڈ آپریشن زیادہ موثر ہے۔ دہشت گردوں کی ٹارگٹ کلنگ زیادہ شدت آمیز ہے یا حکومتی فورسز کے آپریشن نتیجہ خیز ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب ، کراچی اور فاٹا میں بھی دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جانے کی کوئی ٹھوس حقیقت بجز حکومت کے دعووں یا ڈراوے کے سامنے نہیں آئی۔یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟
Load Next Story