نوجوان نسل اور آیندہ عام انتخابات

عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ہمارے 60 فیصد نوجوان نہ صرف نااہلی اور کاہلی بلکہ نکمے پن کا شکار ہیں۔


Shakeel Farooqi February 25, 2013
[email protected]

مصور پاکستان علامہ اقبال نے معاشرے میں نوجوان نسل کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے بالکل بجا فرمایا تھا کہ:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

بلاشبہ نوجوان کسی بھی ملک وقوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت معماروں کی سی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی نوجوان نسل کو بے مثل صلاحیتوں سے مالامال کیا ہے جنھیں بروئے کار لاکر قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قومی قیادت نے ہماری نوجوان نسل کو درست سمت میں گامزن کرنے کے بجائے اسے محض اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔

عالمی بینک کے اعداد وشمار اس ضمن میں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق ہمارے 60 فیصد نوجوان نہ صرف نااہلی اور کاہلی بلکہ نکمے پن کا شکار ہیں، انھیں نہ تو پڑھائی اور لکھائی میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ کوئی ہنر سیکھنے میں۔ان کی خاصی بڑی تعداد مایوسی اور بے راہ روی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں طرح طرح کے جرائم میں روزمرہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے جو نوجوان تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہیں وہ روزگارکی تلاش میں دن رات جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں کیونکہ سفارش اور رشوت کے بغیر نوکری کا ملنا محال ہے، کیفیت یہ ہے کہ:

عیش کر لو دوستو ، کالج کی دیواروں میں
کل سے لکھے جاؤ گے سب کے سب بیکاروں میں

عالمی بینک نے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اصل ذمے دار حکومت کو ٹھہرایا ہے جس کی نااہلی کے باعث ملک عدم استحکام کا شکار اور ہر روز ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔اس کے علاوہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ملک کی معیشت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جس کے نتیجے میں ہماری سرکاری اور نجی درسگاہیں بے مقصد ڈگری یافتہ نوجوانوں کی کھیپ پرکھیپ تیار کرکے بے روزگاری کے سنگین مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ ہمارے جو نوجوان ملکی معیشت کی ترقی میں شامل ہوکر فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں وہ ایسا کرنے سے محض اس لیے قاصر ہیں کہ ہماری معیشت میں ان کے لیے مطلوبہ گنجائش اور وسعت موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً ہمارے باصلاحیت اور حوصلہ مند نوجوانوں کی ایک فوج ظفر موج ایک عضو معطل بن کر رہ گئی ہے جوکہ ملک و قوم کے لیے ایک بہت بڑے نقصان کا باعث ہے۔

ہمارا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہمارے نوجوانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے صرف اپنا الّو سیدھا کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں،ہماری تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے بیانات میں ان کروڑوں نوجوانوں کے تذکرے کر رہی ہیں جو ان کا اصل ووٹ بینک ہیں۔ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اس سلسلے میں حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز کو آگے بڑھایا ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو سیاسی اکھاڑے میں اتارا ہے۔

اس سے قبل مسلم لیگ(ق) کے بزرگ قائدین اپنے نوجوان کھلاڑی مونس الٰہی کو سیاسی کھیل کے میدان میں اتار چکے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کو نوجوان نسل کی ترقی اور فلاح و بہبود سے نہیں بلکہ ان کے کروڑوں ووٹ حاصل کرنے سے دلچسپی ہے جس کے لیے وہ مختلف حربے اور نعرے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کا معاملہ ان سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ عمران خان گزشتہ دو عشروں سے نوجوان نسل کی نمایندہ علامت کے طور پر میدان سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک حالیہ ٹی وی ٹاک شو کے دوران ہم نے عمران کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا تھا کہ آیندہ عام انتخابات میں وہ اپنی پارٹی کی جانب سے جو امیدوار کھڑے کریں گے ان میں نوجوانوں کا حصہ 25 فیصد ہوگا۔ عمران خان اپنے اس وعدے کی تکمیل کس حد تک کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بدقسمتی سے ہماری ملکی سیاست میں جھوٹ، فریب اور وعدہ خلافی کا چلن اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اب کسی کی کسی بھی بات پر اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ بہ قول قتیل شفائی:

لوگ اقرار وفا کر کے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سو جائیں

عمران خان نے جب اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا تو وہ نوجوان نسل کے علم بردار کی حیثیت ہی سے ابھر کر عوام میں آئے تھے اور ان کی پارٹی میں مرکزی حیثیت صرف نوجوانوں کو ہی حاصل تھی، لیکن وقت کی کروٹوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کی پارٹی نے بھی سیاسی کروٹیں لینی شروع کردیں اور رفتہ رفتہ ان کی پارٹی میں نہ صرف بزرگ بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے منحرفین بھی یکے بعد دیگرے شامل ہوتے چلے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی یہ امتیازی خصوصیت متاثر ہونے لگی کہ یہ ایک نوجوانوں کی نمایندہ جماعت ہے۔

پاکستان کی نوجوان نسل کے بارے میں برٹش کونسل اور نیلسن نامی تحقیقاتی ادارے کی مرتب کردہ رپورٹ سے ایک تاریک تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہمارے نوجوانوں کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ وطن عزیز غلط سمت میں گامزن ہے۔ پاکستان کی اقتصادی بدحالی اور معاشی ابتری کے باعث نوجوانوں کی اکثریت کو روزگار ملنے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں جن نوجوانوں کے انٹرویو لیے گئے تھے ان میں 5 میں سے صرف ایک کو مستقل ملازمت میسر تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت اور قوت کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے تو اس سے تیز رفتار اقتصادی ترقی کے تمام تر اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب اس رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اگر یہ قیمتی موقع پورا ہی ضایع کردیا گیا تو اس کے ملک و قوم کے لیے بڑے ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔

اس سنگین صورت حال سے بچنے کے لیے ملک کی معیشت کو 3 کروڑ60 لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی۔یہ تحقیقاتی رپورٹ 18 سے 29 سال تک کی عمر کے 1226 نوجوانوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ ان میں سے 70 فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے عرصے میں ان کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوئی ہے۔ اس معاملے میں سب سے غور طلب پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے دنیا کے دگر ممالک کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ افسوس کہ اب تک کی کسی بھی حکومت نے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش اور منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اقتدار پر گرگ باراں دیدہ قسم کے بزرگ سیاستدانوں کا قبضہ ہے جس میں کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں بالخصوص دو سب سے بڑی ملک گیر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ ملک و قوم کے مجموعی مفاد کا تقاضہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات میں نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تاکہ ہماری سیاسی قیادت میں نیا خون شامل ہوسکے۔ ملک و قوم کی بگڑتی ہوئی تقدیر کو سنوارنے کا بس ایک یہی طریقہ باقی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ نوجوان قیادت کو مورثیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر آگے آنے کے مواقعے دینے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آیندہ عام انتخابات ایک شق رائیگاں ہی ثابت ہوں گے اور ملک وقوم کے افق پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادل اور گہرے ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں