بے چاری مصباح الیون
ٹیسٹ ٹیم میں تبدیلیاں اب ناگزیر ہیں۔ مصباح الحق کو خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔
ڈرے اور سہمے ہوئے پاکستانی بیٹسمین تیسرے اور آخری ٹیسٹ کے تیسرے دن ہی ڈھیر ہو گئے اور قومی کرکٹ ٹیم مجموعی طور پر پانچویں بار وائٹ واش یا کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہو گئی۔ سنچورین ٹیسٹ صرف تین دن تک جاری رہ سکا جب کہ جوہانسبرگ میں پہلا اور کیپ ٹاؤن میں دوسرا ٹیسٹ میچ بھی چار دن ہی چل سکا۔ ٹیسٹ میچ پانچ دن کا ہوتا ہے اور تین ٹیسٹ میچوں میں چار دن کا کھیل نہ ہونے کا مطلب ہے کہ تقریباً ایک ٹیسٹ کم کھیلا گیا۔ اس وجہ سے جنوبی افریقن کرکٹ بورڈ کو چار دن کی گیٹ منی سے بھی محروم ہونا پڑا۔ جنوبی افریقہ کا یہ واحد نقصان ہے جو ہماری کرکٹ ٹیم اسے پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے ورنہ اب تک یہ دورہ سرا سر گھاٹے کا سودا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز میں اگرچہ بہتر کارکردگی کی توقع ہے تاہم اس وقت ٹیم جس بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لیے کافی ہمت درکار ہو گی۔
تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کی کہانی یوں ہے کہ آسٹریلیا اب تک چار بار (2001` 1999` 1972ء اور 2009-10ء) اور جنوبی افریقہ پہلے 2002-03ء میں اور اب حالیہ سیریز میں یہ کارنامہ سرانجام دے چکا ہے۔ 1972ء میں پہلی بار جب آسٹریلیا میں ہم کلین سویپ ہوئے تو اس وقت انتخاب عالم کپتان تھے، تب کوچ کا رواج نہیں تھا۔ ٹیم کے ساتھ صرف مینجر جایا کرتا تھا، اس وقت ونگ کمانڈر ایم ای زیڈ غزالی ٹیم مینجر تھے جنہوں نے شکست کے بعد آسٹریلین امپائروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تب غیر جانبدار امپائروں کا رواج بھی نہیں تھا۔ انڈین اور آسٹریلین امپائر مکمل جذبہ ''حب الوطنی'' کے تحت فیصلے دیا کرتے تھے۔ انتخاب عالم کے بعد ہارنے والے کپتانوں میں ایک بار وسیم اکرم، دوبار انضمام الحق، ایک بار محمد یوسف اور اب مصبالح الحق یہ ''کارنامہ'' سرانجام دے چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب سے کوچ کا عہدہ بنا ہے، پاکستانی ٹیم چار بار وائٹ واش کا شکار ہوئی۔ ان میں سے تین بار قومی ٹیم کے کوچ غیر ملکی تھے جب کہ صرف ایک بار انتخاب عالم کی کوچنگ میں ایسا ہوا۔ انتخاب عالم کے حوالے سے یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ1992ء میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ کو فائنل میں ہرا کر عالمی کپ جیتا تھا تو وہ کوچ تھے۔
موجودہ وائٹ واش کے دوران ہماری ٹیم پر جو بیتی، اس کا ذکر بھی ہو جائے۔ تین ٹیسٹ میچوں میں پہلا اور آخری ٹیسٹ یکطرفہ رہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی شاندار سنچریوں کی بدولت پاکستانی ٹیم ایک بار ایسی پوزیشن میں ضرور آگئی تھی جہاں اس کی جیت بھی ممکن تھی مگر جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز میں بولرز اور پاکستان کی دوسری اننگز میں بیٹسمینوں نے یہ موقع ضایع کر دیا۔ میرے خیال میں مصباح الحق اس پچ کو اچھی طرح نہ پہچان پائے ورنہ سعید اجمل کے ساتھ عبدالرحمان کی شمولیت سے وہ ٹیسٹ جیتا جاسکتا تھاکیونکہ کیپ ٹاؤن کی پچ ہی واحد تھی جہاں اسپن بولروں کو مدد مل رہی تھی۔ پاکستانی بولرز میں صرف عمر گل تجربہ کار تھے، اس کے بعد جنید خان سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی مگر وہ ان فٹ ہونے کی وجہ سے آخری دونوں ٹیسٹ نہیں کھیل سکے۔
راحت علی آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 6 وکٹ ضرور لے گئے مگر اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم سیریز کا سب سے بڑا مجموعہ 409 حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اے بی ڈویلیئرز کی شاندار سنچری جو سیریز میں ان کی دوسری سنچری تھی اور فاسٹ بولر ورنون فلینڈر 74 رنز کر گئے تو پھر 6 وکٹیں لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کی طرف سے سعید اجمل نے سیریز میں سب سے زیادہ 11وکٹیں حاصل کیں، دیگر کوئی بولر قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ بولنگ کی بات ہو رہی ہے تو ڈیل اسٹین کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اس سے پہلے فلینڈر کی سیریز میں 15اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ایبٹ کی ایک ہی میچ میں 9 وکٹوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ڈیل اسٹین کی پرفارمنس کے بارے میں کیا کہوں، اتنی شاندار بولنگ، وہ نہ صرف خود وکٹیں لیتے رہے بلکہ ہمارے بیٹسمینوں کو اپنے ہر اسپیل میں اتنا خوفزدہ کر دیتے تھے کہ دوسرے اینڈ سے بھی وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتی رہتیں۔
ڈیل اسٹین کی تباہی دیکھتے ہوئے مجھے نجانے کیوں 70ء کی دہائی یاد آ گئی۔ اس زمانے میں میری ایج گروپ کے لوگوں نے جس سب سے بڑی گن کا نام سنا تھا وہ تھی اسٹین گن۔ پنجابی فلموں میں اس کا آزادانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اس گن کی گولیوں سے اس دور میں کسی کو بچتے دیکھا تو وہ ہمارے پنجابی فلموں کے ہیرو سلطان راہی مرحوم تھے۔ وہ اپنے ''گنڈاسے'' اور ''بیلچے'' سے گولیاں روک لیتے تھے اور فلم بین تالیاں بجا کر اپنے ہیرو کی اس شاندار پرفارمنس پر داد دیتے تھے۔ افسوس ہماری موجودہ ٹیم میں کوئی ایک بھی ''سلطان راہی'' نہیں تھا جو اس دور کی جنوبی افریقین ''اسٹین گن'' کا نہ صرف مقابلہ کرتا بلکہ میدان سے ''زندہ'' باہر آجاتا۔ بیٹنگ میں دو سنچریوں کا ذکر ہو گیا، چھ اننگز میں ان کے علاوہ صرف تین ففٹیاں بن سکیں۔ اسد شفیق نے سنچری کے ساتھ ایک ففٹی بھی بنائی۔
اظہر علی اور مصباح الحق ففٹیاں اسکور کرنے والے دیگر دو بیٹسمین ہیں۔ باقی بیٹسمین بس ڈریسنگ روم سے میدان میں جانے کی زحمت ہی کرتے رہے۔ پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد اظہر علی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ رکی پونٹنگ کے کیریئر سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ آخری ٹیسٹ کی ان کی آخری اننگز دیکھ لیں جس میں موصوف نے 110گیندیں کھیل کر صرف 27 رنز بنائے۔ اتنی گیندیں کھیل کر زیادہ نہ سہی پچاس رنز تو بنائے جا سکتے تھے۔ پھر وہ جس طرح رن آؤٹ ہوئے وہ بھی ایک ٹیسٹ بیٹسمین کے شایان شان نہیں تھا۔ ہمارے بیٹسمین شاید ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکے تھے۔ وہ ہر بار میچ بچانے گئے اور ہار کر واپس آگئے۔ نیچرل کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرتے تو شاید ایک آدھ میچ کا ہی سہی نتیجہ ضرور مختلف ہوتا۔
ٹیسٹ ٹیم میں تبدیلیاں اب ناگزیر ہیں۔ مصباح الحق کو خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ محمد حفیظ جنھیں مصباح کے بعد کپتان قرار دیا جا رہا تھا، وہ بُری طرح ناکام ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے ٹیسٹ ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ سرفراز احمد نے وکٹ کیپنگ اچھی کی لیکن بیٹنگ میں بُری طرح ناکام رہے۔ آج کی کرکٹ میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وکٹ کیپر اچھی بیٹنگ نہ کر سکے۔ ڈی ویلیئرز اور ایم ایس دھونی کی مثال سامنے ہے۔ ٹیم میں ایک جینوئن آل راؤنڈر کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوئی۔ ادھر پانچ بیٹسمین آؤٹ ہوئے ادھر لائن لگ گئی۔ مصباح الحق کے بعد کس کو کپتان بنایا جائے، یہ سوال ایک دوست انعام مروت نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھی پوچھا تھا مگر سچی بات ہے فی الوقت میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ شاید سلیکٹرز کے پاس کوئی جواب ہو؟
جنوبی افریقہ نمبر ون ٹیسٹ ٹیم ہے اور اس نے یہ ثابت بھی کیا ہے لیکن پاکستانی ٹیم سے اتنی بُری کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔ ایک بات البتہ ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک ہمارے اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال نہیں ہو گی، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ملکوں میں جا کر کھلاڑی ایسے ہی بے بس دکھائی دیں گے۔ تب تک ہار برداشت کرنا پڑے گی۔
تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کی کہانی یوں ہے کہ آسٹریلیا اب تک چار بار (2001` 1999` 1972ء اور 2009-10ء) اور جنوبی افریقہ پہلے 2002-03ء میں اور اب حالیہ سیریز میں یہ کارنامہ سرانجام دے چکا ہے۔ 1972ء میں پہلی بار جب آسٹریلیا میں ہم کلین سویپ ہوئے تو اس وقت انتخاب عالم کپتان تھے، تب کوچ کا رواج نہیں تھا۔ ٹیم کے ساتھ صرف مینجر جایا کرتا تھا، اس وقت ونگ کمانڈر ایم ای زیڈ غزالی ٹیم مینجر تھے جنہوں نے شکست کے بعد آسٹریلین امپائروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تب غیر جانبدار امپائروں کا رواج بھی نہیں تھا۔ انڈین اور آسٹریلین امپائر مکمل جذبہ ''حب الوطنی'' کے تحت فیصلے دیا کرتے تھے۔ انتخاب عالم کے بعد ہارنے والے کپتانوں میں ایک بار وسیم اکرم، دوبار انضمام الحق، ایک بار محمد یوسف اور اب مصبالح الحق یہ ''کارنامہ'' سرانجام دے چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب سے کوچ کا عہدہ بنا ہے، پاکستانی ٹیم چار بار وائٹ واش کا شکار ہوئی۔ ان میں سے تین بار قومی ٹیم کے کوچ غیر ملکی تھے جب کہ صرف ایک بار انتخاب عالم کی کوچنگ میں ایسا ہوا۔ انتخاب عالم کے حوالے سے یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ1992ء میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ کو فائنل میں ہرا کر عالمی کپ جیتا تھا تو وہ کوچ تھے۔
موجودہ وائٹ واش کے دوران ہماری ٹیم پر جو بیتی، اس کا ذکر بھی ہو جائے۔ تین ٹیسٹ میچوں میں پہلا اور آخری ٹیسٹ یکطرفہ رہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان اور اسد شفیق کی شاندار سنچریوں کی بدولت پاکستانی ٹیم ایک بار ایسی پوزیشن میں ضرور آگئی تھی جہاں اس کی جیت بھی ممکن تھی مگر جنوبی افریقہ کی پہلی اننگز میں بولرز اور پاکستان کی دوسری اننگز میں بیٹسمینوں نے یہ موقع ضایع کر دیا۔ میرے خیال میں مصباح الحق اس پچ کو اچھی طرح نہ پہچان پائے ورنہ سعید اجمل کے ساتھ عبدالرحمان کی شمولیت سے وہ ٹیسٹ جیتا جاسکتا تھاکیونکہ کیپ ٹاؤن کی پچ ہی واحد تھی جہاں اسپن بولروں کو مدد مل رہی تھی۔ پاکستانی بولرز میں صرف عمر گل تجربہ کار تھے، اس کے بعد جنید خان سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی مگر وہ ان فٹ ہونے کی وجہ سے آخری دونوں ٹیسٹ نہیں کھیل سکے۔
راحت علی آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 6 وکٹ ضرور لے گئے مگر اس کا فائدہ اس لیے نہیں ہوا کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم سیریز کا سب سے بڑا مجموعہ 409 حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اے بی ڈویلیئرز کی شاندار سنچری جو سیریز میں ان کی دوسری سنچری تھی اور فاسٹ بولر ورنون فلینڈر 74 رنز کر گئے تو پھر 6 وکٹیں لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کی طرف سے سعید اجمل نے سیریز میں سب سے زیادہ 11وکٹیں حاصل کیں، دیگر کوئی بولر قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا۔ بولنگ کی بات ہو رہی ہے تو ڈیل اسٹین کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اس سے پہلے فلینڈر کی سیریز میں 15اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے ایبٹ کی ایک ہی میچ میں 9 وکٹوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ڈیل اسٹین کی پرفارمنس کے بارے میں کیا کہوں، اتنی شاندار بولنگ، وہ نہ صرف خود وکٹیں لیتے رہے بلکہ ہمارے بیٹسمینوں کو اپنے ہر اسپیل میں اتنا خوفزدہ کر دیتے تھے کہ دوسرے اینڈ سے بھی وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتی رہتیں۔
ڈیل اسٹین کی تباہی دیکھتے ہوئے مجھے نجانے کیوں 70ء کی دہائی یاد آ گئی۔ اس زمانے میں میری ایج گروپ کے لوگوں نے جس سب سے بڑی گن کا نام سنا تھا وہ تھی اسٹین گن۔ پنجابی فلموں میں اس کا آزادانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اس گن کی گولیوں سے اس دور میں کسی کو بچتے دیکھا تو وہ ہمارے پنجابی فلموں کے ہیرو سلطان راہی مرحوم تھے۔ وہ اپنے ''گنڈاسے'' اور ''بیلچے'' سے گولیاں روک لیتے تھے اور فلم بین تالیاں بجا کر اپنے ہیرو کی اس شاندار پرفارمنس پر داد دیتے تھے۔ افسوس ہماری موجودہ ٹیم میں کوئی ایک بھی ''سلطان راہی'' نہیں تھا جو اس دور کی جنوبی افریقین ''اسٹین گن'' کا نہ صرف مقابلہ کرتا بلکہ میدان سے ''زندہ'' باہر آجاتا۔ بیٹنگ میں دو سنچریوں کا ذکر ہو گیا، چھ اننگز میں ان کے علاوہ صرف تین ففٹیاں بن سکیں۔ اسد شفیق نے سنچری کے ساتھ ایک ففٹی بھی بنائی۔
اظہر علی اور مصباح الحق ففٹیاں اسکور کرنے والے دیگر دو بیٹسمین ہیں۔ باقی بیٹسمین بس ڈریسنگ روم سے میدان میں جانے کی زحمت ہی کرتے رہے۔ پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد اظہر علی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ رکی پونٹنگ کے کیریئر سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ آخری ٹیسٹ کی ان کی آخری اننگز دیکھ لیں جس میں موصوف نے 110گیندیں کھیل کر صرف 27 رنز بنائے۔ اتنی گیندیں کھیل کر زیادہ نہ سہی پچاس رنز تو بنائے جا سکتے تھے۔ پھر وہ جس طرح رن آؤٹ ہوئے وہ بھی ایک ٹیسٹ بیٹسمین کے شایان شان نہیں تھا۔ ہمارے بیٹسمین شاید ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکے تھے۔ وہ ہر بار میچ بچانے گئے اور ہار کر واپس آگئے۔ نیچرل کرکٹ کھیلنے کی کوشش کرتے تو شاید ایک آدھ میچ کا ہی سہی نتیجہ ضرور مختلف ہوتا۔
ٹیسٹ ٹیم میں تبدیلیاں اب ناگزیر ہیں۔ مصباح الحق کو خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ محمد حفیظ جنھیں مصباح کے بعد کپتان قرار دیا جا رہا تھا، وہ بُری طرح ناکام ہوئے ہیں اور یوں لگتا ہے ٹیسٹ ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ سرفراز احمد نے وکٹ کیپنگ اچھی کی لیکن بیٹنگ میں بُری طرح ناکام رہے۔ آج کی کرکٹ میں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وکٹ کیپر اچھی بیٹنگ نہ کر سکے۔ ڈی ویلیئرز اور ایم ایس دھونی کی مثال سامنے ہے۔ ٹیم میں ایک جینوئن آل راؤنڈر کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوئی۔ ادھر پانچ بیٹسمین آؤٹ ہوئے ادھر لائن لگ گئی۔ مصباح الحق کے بعد کس کو کپتان بنایا جائے، یہ سوال ایک دوست انعام مروت نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھی پوچھا تھا مگر سچی بات ہے فی الوقت میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ شاید سلیکٹرز کے پاس کوئی جواب ہو؟
جنوبی افریقہ نمبر ون ٹیسٹ ٹیم ہے اور اس نے یہ ثابت بھی کیا ہے لیکن پاکستانی ٹیم سے اتنی بُری کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔ ایک بات البتہ ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک ہمارے اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال نہیں ہو گی، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ملکوں میں جا کر کھلاڑی ایسے ہی بے بس دکھائی دیں گے۔ تب تک ہار برداشت کرنا پڑے گی۔