استعماریت اور پاکستان ساتواں حصہ
تو کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ وہ قوم آج استعماریت کی سرخیل ہے؟
جدید اصطلاح: حضرت ابراہیمؑ نے انسان کی آنے والی نسلوں کے لیے انسانی فہم وفراست کے عین مطابق مادہ اور مذہب کے لیے دو تہذیبوں کی بنیاد رکھی تاکہ جب انسان مادہ پرستی کا عظیم مظہر بن کر تہذیب وتمدن کی شائستگی کے پردوں میں رشتوں کا تقدس کھوکر اپنی سفاک درندگی کے باعث خود اپنی ہستی اوراپنی آنے والی نسلوں سمیت کائنات حیات کو خطروں سے دوچارکردے۔
جب مادہ پرستی پر مبنی طرز حیات ان کو وحشت زدہ کرکے اس کے آفاقی وجود کو مادی آسائشوں اور تعیشات کے صنم کدوں کا مجاور بنا دے، جب ان حالات کاشکارہوکر انسان اپنی عقل اور مادہ ہی کو اپنی بقاء سمجھ بیٹھے اور حیرت انگیز طور پروہ اپنی اس حالت زارکا ذمے دار بھی اپنی مادہ پرست عقل کو قرار دے بیٹھے تواس کے لیے اپنی تخلیق اور اس کے مقاصد کو سمجھنے میں آسانی میسر ہوسکے۔کیونکہ انسان آج فردی وقومی سطح پر ہنگامی حالات سے دوچار ہے۔ جس میں ان کو مادی وسائل کی حاصلات کے علاوہ کوئی حامی ومددگار نظر نہیں آرہا۔ جب کہ ماضی میں توان کو دیوتا ؤں کے ظاہر ہوجانے کی روایتیں ملتی ہیں کہ جنہوں نے ان کو وقتی سہارا دے کر ان کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھردیا تھا، لیکن اب ان کی عقل نے ان کے حاصل مادی وسائل کو وقتی سہارا قرار دے دیا ہوا ہے۔
جب کہ جناب ابراہیم ؑ نے 41/42 صدیاں قبل واضح کردیا تھاکہ ان کی حامی ومددگار ایک ایسی ہستی ہے جس نے اپنی قدرت وجبروت سے حیات کائنات اور انسانی وجود کو خلق کرکے اس کو قوانین مادہ اور قوانین فطرت کو مسخر کرنے اور تہذیبوں کو دوام بخشنے کا علم عطا کیا ہوا ہے اور اس علم کے مقابلے میں انسان کی موجودہ مادی طور ایجاداتی ترقی کچھ خاص معنی نہیں رکھتی۔کیونکہ ان سے قبل اسی حضرت انسان نے کشش ثقل کواپنے زیر تصرف رکھ کر مدفن فراعین Pyramid تعمیر کیے اور عجیب الخلقت انسان متعارف کرائے۔جس میںقدیم مصری حورس اور ہندوستانی گنٹریش دیوتا قابل ذکر ہیں۔
تاریخ کے طالب علم کے لیے بڑی ہی حیران کن حقیقتیں اس وقت کھل کر سامنے آجاتی ہیں جس وقت وہ تہاذیب وتحقیقات ابراہیم ؑکے وارث یعنی ترجمان عبد ومعبود ہادی برحق حضور پرنور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کواولاد ابراہیمؑ کی تاریخ اور حقیقت کائنات کو آئین ابرہیم ؑ کے طور عربی زبان میں بیان کرتے ملاحظہ کرتے ہیں، جوکہ جناب ابراہیمؑ کے لگ بھگ 25/26 صدیاں بعد میں اور آنے والی صدیوں میں انسانی نسلوں کی رہنمائی و رہبری کی غرض سے ضابطہ تحریر میں لایا گیا تھا۔ جس کی تفسیر کو ہم جدید اصطلاح میں تحقیقات نظریہ پاکستان کا نام دے سکتے ہیں، جس میں انسانی زندگی کا ایسا کوئی بھی گوشہ نہیں بچ پاتا جو قابل تحویل نہ رہاہو۔
ذمے دارکون؟ : تحقیقات نظریہ پاکستان ہمیں بتاتا ہے کہ جناب ابراہیم ؑ کا تعلق دنیا کی قدیم ترین تہذیب بابل کے آذر سنگ تراش نامی اس شخص کے گھرانے سے تھا کہ جو دربار نمرود میں افواج کے طاقتور ترین سالار برباک سے بھی زیادہ بااثر تھے۔کیونکہ بابل کے تمام معبد خانوں میں آذر سنگ تراش کے کارخانے سے بت بنوائے جاتے تھے جو کہ اس وقت کا سب سے منافع بخش کاروبار تھا۔ اس لیے جناب ابراہیم ؑ اس کارخانے کے مالک بن کر زندگی کی تمام تر مادی آسائشیں بغیر کسی جگر سوزیوں کے حاصل کر سکتے تھے، لیکن ان کے پروردگار نے انؑ کو اپنا دوست قرار دیکر انؑ کی اولادکو ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی مانند زمین پر پھیلانے کا وعدہ کیا۔
جس کی عملی سچائی میں یہود وعرب اقوام تو انؑ کی نسبی اولادوں کی صورت موجود ملتے ہیں اوران ؑکے پروردگار کی جانب سے انؑ کو عطا ہونے والے علم کی وارثی کے لیے فکری ونظریاتی اولاد بھی فراہم کردی ہوئی ہے جسے عربی زبان میں اعتدال پسند قوم مسلمان کا تشخص دیا گیا (الحج؛78)۔اس لیے ضروری بن جاتا ہے کہ تاریخ کے طالب علم جناب ابراہیم ؑ سے لے کر موجودہ ارتقائی مرحلے تک کی انسانی گروہوں کی تاریخ کو تعلیمات ابراہیم ؑیعنی جدید اصطلاح میں تحقیقات نظریہ پاکستان کی روشنی میں ملاحظہ کریں تو انھیں بابل سے شروع ہوئی اس تحریک کے لگ بھگ 41/42 صدیوں کے طویل ترین تسلسل میں تاریخ کی تمام تر سچائیاں اور بقائے حیات کائنات کے تمام تر لوازمات کھل کر ان کے سامنے آجائیں گے ۔
جس میں سے ایک فرد سے خاندان اور خاندان سے قوم بننے کامرحلہ، تہذیبوں کی بنیاد اور ان کی بقاء کا سامان نظر آجائے گا۔کیونکہ آج جس وحشیانہ انداز میں برابری کا رونا رویا جا رہا ہے ۔ اسی معاشی ومعاشرتی برابری کی خاطر معلوم تاریخ کے پہلے بڑے اظہارکے طور سرزمین فراعین پرجناب یوسف ؑکی قیادت میں 14سال کے مختصرترین عرصے کے دوران اس تہذیب کے ثروت مند اور اشراف زادوں کو مفلس ونادار جب کہ محکوم ومعتوب افراد کو صاحب اقتدار بنتے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ نام نہادجدید سائنس وٹیکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں اپنے شہریوں کے مسائل حل کرنا بھی اعصاب شکن مرحلہ قرار پا چکا ہے تو روہنگیاؤں سمیت تارکین وطن کے لیے کوئی ملک یا قوم کیا کرسکتے ہیں، ان کو استعماریت کے حوالے کیا جائے؟ لیکن اس قدیم دور میں بھی جناب موسیٰ ؑ کی قیادت میں افواج فرعون کے مقابلے محکوم بنی ا سرائیل قوم کو آزاد زندگی فراہم کرنے کی خاطر ان بہ خیر وعافیت مصر سے نکال لانا اور لاکھوں تارکین وطن کو 40سال تک کے طویل ترین عرصے تک مدائن کے بے آب وگیاہ پہاڑی سلسلوں میں پانی اور صحت جیسی نعمتوں سمیت ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنا کر دکھایا جاچکاہے۔
جس کے بعد جو نظام تمدن بنی اسرائیل نے ارض فلسطین پر اپنایا اس کے نتیجے میں پوری کی پوری قوم کواسی بابلی مادی نظام تمدن کا غلام بنتے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس مادی نظام تمدن نے جناب ابرہیم ؑکو نار میں ڈلوانے کے باوجود اس کے پروردگار کی قوت وجبروت کے اقرارکے طور بابل سے انخلاء کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی۔ تو پھر موجودہ جدید دور میں کیوں کر قومیں اس مادی نظام تمدن ومعاشرت کی بنیادوں پرآزادی وخود مختاری حاصل کرسکتی ہیں؟
آج اسپتال بنانے والوں،ان کو کثیر چندہ دینے والوں،خیراتی ادارے بنانے والوں، روتھ فاؤ، مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی کی پیروی کرنے کی باتیں کرنے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ ارض فلسطین پرجذامیوں اور کوڑھیوں کو صحتیاب کرنے سمیت مردوں کو زندگی بخشنے والے یسوع مسیح (جناب عیسیٰؑ)کو مصلوب کروانے کی ذمے داری کسی قوم پر عائد ہوتی ہے یا کسی نظام تمدن پر؟ تو کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ وہ قوم آج استعماریت کی سرخیل ہے؟ توکیا کوئی انکارکرسکتا ہے کہ آج وہی مادی نظام تمدن دنیا کے کونے کونے پر رائج کیا جانے لگا ہے؟
(جاری ہے۔)