اس کی تقدیر میں محکومی ومظلومی ہے
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں کراچی میں 1800 جب کہ 2012 میں 2300 افراد قتل کیے گئے۔
ہندوستان کی ایکشن فلم ''شعلے'' کسی زمانے میں بہت مقبول ہوئی تھی، مکمل فلم دیکھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا، لیکن اس فلم کے چند مکالمے نوجوانوں، عمر رسیدہ افراد اور کمسن بچوں کی توتلی زبانوں سے سن سن کر کان پک گئے تھے، فلم کے چند مکالمے کچھ یوں تھے، سردار ''تم کتنے تھے؟'' چیلے ''سردار! ہم چھ تھے'' ، سردار ''وہ کتنے تھے؟'' چیلے: ''سردار وہ دو تھے'' سردار: ''ابے وہ پھر بھی تم سے بچ کر نکلے گئے اور تم خالی ہاتھ واپس آگئے؟ ہمارے سر پر انعام مقرر ہے، مائیں ہمارا نام لے کر بچوں کو سلاتی ہیں، سو جاؤ ورنہ گبّر سنگھ آجائے گا، تم نے تو ہمارا نام خاک میں ملا دیا، اب تیرا کیا بنے گا کالیا؟''راقم کو یہ مکالمے اس وقت یاد آئے جب یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ کراچی میں تین نشانہ باز قاتلوں نے تین پستولوں سے 90 افراد کو قتل کیا ہے۔
فلمی کہانیاں تو تصورات اور خام خیالی پر مبنی اور ماورائے عقل ہوا کرتی ہیں جن کا حقیقی دنیا سے عمومی طور پر کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فلم بین بھی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار حاصل کرکے کچھ دیر کے لیے تفریح و آسودگی حاصل کرنے کی خاطر فلم بینی کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں جرائم کی وارداتیں فلموں کے تصوراتی جرائم سے بھی زیادہ سنگین اور ناقابل یقین ہوچکی ہیں۔ گزشتہ روز محکمہ داخلہ سندھ کے معاون خصوصی شرف الدین میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی پولیس میں فارنسک ڈپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوارکیا گیا ہے۔ جس نے اب تک 1100 کے قریب قتل کی وارداتوں کا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معائنہ کیا، اعلیٰ افسران اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ فارنسک جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں 90 افراد کے قتل میں نائن ایم ایم کے صرف 3 پستول استعمال کیے گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ محض تین نشانہ باز قاتلوں نے 90 افراد کے قتل میں صرف 3 پستول استعمال کیے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی ہے کہ ان 3 پستولوں سے ایم کیو ایم کے ایم پی اے منظرامام، سعودی سفارتکار، موٹرسائیکل سوار شیعہ مسلک کے باپ اور بیٹی سمیت شیعہ، سنی، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعات شہر میں انتشار پھیلا سکتے تھے۔ یہ معلوم کرنا کہ ان واقعات میں صرف تین پستول استعمال کیے گئے ہیں انتہائی آسان ہے کیونکہ ہر گولی کے خول کے پیچھے پستول کے ہیمر کا نشان ہوتا ہے اور ہر پستول کا یہ نشان انسانی فنگر پرنٹ کی طرح جدا جدا ہوتا ہے جس کا ٹیکنالوجی کی مدد سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات میں نہ صرف اسلحہ مشترک پایا گیا ہے بلکہ ہدف بناکر قتل کرنے کی حکمت عملی میں بھی یکسانیت کا عنصر نمایاں ہے۔ شرف الدین میمن کے مطابق فارنسک تحقیقات کی مدد سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں تحقیقات صحیح سمت میں کرنے میں مدد مل رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان وارداتوں میں ملوث ملزمان انتہائی شاطر اور چست و چالاک پائے گئے ہیں۔ مولانا دین پوری اور ان کے دو ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان اعلیٰ تربیت یافتہ، چست اور بے خوف تھے حالانکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ چند سو گز کے فاصلے پر رینجرز اور پولیس تعینات تھیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں کراچی میں 1800 جب کہ 2012 میں 2300 افراد قتل کیے گئے۔ نئے سال کے ابتدائی 50 دنوں میں 20 پولیس افسران و اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں، زخمی اور معذوری کا شکار ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ان 50 دنوں میں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی 26 دن بند رہے۔ پولیس ذرایع کے مطابق بے پناہ ہلاکتوں اور حکومتی و سیاسی حلقوں کی پشت پناہی کے سبب پولیس کا مورال گرا ہے۔ عدم تحفظ کی وجہ سے پولیس کے تحقیقاتی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف حساس اداروں کے ہاتھوں پکڑے جانے والے ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی جارہی ہے۔
وزارت داخلہ سندھ کے اس سائنٹیفک انکشاف کہ کراچی میں 3 قاتلوں نے 3 پستولوں کی مدد سے 90 افراد قتل کیے، کے کئی پہلو غور طلب ہیں۔ ان تین دہشت گردوں نے منظم سازش کے تحت ایک خاص تناسب سے مختلف مسلکوں، لسانی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے افراد کو قتل کیا ہے۔ بعیدا از قیاس نہیں کہ بعد میں ہونے والی ہزاروں ہلاکتیں متاثرہ مذہبی، لسانی اور سیاسی جماعتوں یا ان سے وابستہ افراد کے جذباتی و انتقامی ردعمل کا نتیجہ ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ شیطان نے ایک عابد و زاہد شخص سے دوستی کرلی، جب اس شخص پر اس بات کا راز کھلا تو اس نے شیطان پر بڑی لعنت و ملامت بھیجی کہ تو مردود ہے، لوگوں کو بہکاتا اور بھٹکاتا ہے، لڑاتا بھڑاتا ہے، شیطان نے اپنی صفائی پیش کی اور اس برگزیدہ شخص کو شہر لے گیا، جہاں ایک حلوائی شیرہ تیار کر رہا تھا۔
شیطان نے شیرے کی ایک بوند دیوار پر لگادی، شیرہ دیکھ کر مکھیاں دیوار پر آگئیں، مکھیوں کے تعاقب میں ایک چھپکلی بھی دیوار پر آپہنچی، یہ منظر دیکھ کر بلی بھی قریب آگئی، چھپکلی دیکھ کر اس کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور اس کو نوالہ بنانے کی ترکیب سوچنے لگی، اسی دوران کچھ افراد اپنے کتے کے ہمراہ بازار سے گزرے ، ان کے کتے نے بلی کو دیکھا تو اس پر جھپٹ پڑا، بلی نے جان بچانے کے لیے چھلانگ لگائی تو شیرے کی کڑاہی میں جاگری، حلوائی نے غصے میں آکر کڑاہی کا بڑا سا کڑچھا کتے کے سر پر دے مارا، جس سے وہ مرگیا، ان افراد نے طیش میں آکر حلوائی کو گولی ماردی۔ واقعے پر سارا شہر مشتعل ہوگیا اور ان افراد کے گھروں کو آگ لگادی، اس طرح پورا شہر فساد کی نذر ہوگیا۔ شیطان نے بڑی معصومیت سے کہا : حضرت میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا، شیرے کی ایک بوند ہی لگائی تھی، سارا فساد تو انسانوں نے خود برپا کیا۔
ہمارے ملک کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں بلکہ زیادہ ہی ابتر ہوچکی ہے۔ ملک معاشی، سیاسی اور امن وامان کے معاملے میں مفلوج اور ناکام ہوکر رہ گیا ہے۔ مقتولوں کے ورثا کے علاوہ معاشی بدحالی کا شکار عوام فوج بلانے کا مطالبہ کرنے لگی ہے۔ جب سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوجائے تو لوگوں کی نظریں فوج کی طرف اٹھنا ایک فطری عمل ہے، حکومت کے طرز عمل میں کوئی سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آرہی، نہ ہی داخلی و خارجی مسائل سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی اور پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ وزیر داخلہ صرف پیشگی اطلاع دینے اور کسی سانحے کی صورت میں یہ کہہ کر کہ ''میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا'' داد و تحسین حاصل کرنے کے متمنی نظر آتے ہیں اور سیاسی قیادت تمام الزام ایجنسیوں کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے۔
انتہا تو یہ ہے کہ آئی جی کہتے ہیں کہ ''کراچی میں ہلاکتیں بڑھنا تشویش ناک نہیں ہے''۔ جس طرح دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ، لسانی اور سیاسی نوعیت کے فسادات اور انارکی پھیلانے کی منظم اور مذموم منصوبہ بندی تیار کرلی گئی ہے۔ ایسے واقعات میں بلیک واٹر، را، موساد اور دیگر اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ایجنٹ ملوث ہیں۔
پولیس کے پاس قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی ویڈیو موجود ہوتی ہیں، سائنٹیفک رپورٹس بھی موجود ہوتی ہیں، بجٹ کا ایک بڑا کثیر حصہ بھی اس میں کھپایا گیا ہے، گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں، لیکن حکومتی، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دباؤ اور پولیس اہلکاروں اور گواہوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام، سفارش، سیاسی بنیادوں پر تقرری، تعیناتی، تبدیلی اور ترقیاں پولیس کا مورال ختم کر رہی ہیں، ان میں عدم تحفظ کا احساس اور انتہائی درجے کا ذہنی دباؤ اور بددلی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی صفر ہوکر رہ گئی ہے۔ غفلت و لاعلمی کا شکار منقسم قوم بھی شیرہ لگانے والوں کے سحر میں بری طرح پھنس چکی ہے، ان کی توجہ ملکی و بین الاقوامی امور، معیشت، دفاع اور اپنے مستقبل سے ہٹاکر صرف اور صرف اپنی جانوں اور املاک کے تحفظ اور حفظ وامان کی تمنا تک محدود کردی گئی ہے۔ جب تک حکمراں ذاتی مفادات، منافقت اور مصلحت اور عوام سازشوں اور مکاروں کی اطاعت و پیروی نہیں چھوڑیں گے (جس کے امکانات انتہائی معدوم نظر آتے ہیں) اس وقت تک صورت حال میں کسی بہتری کی امید لگانا حماقت ہوگی، تاریخ قوموں کی غلطیاں معاف نہیں کیا کرتی۔
فلمی کہانیاں تو تصورات اور خام خیالی پر مبنی اور ماورائے عقل ہوا کرتی ہیں جن کا حقیقی دنیا سے عمومی طور پر کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فلم بین بھی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار حاصل کرکے کچھ دیر کے لیے تفریح و آسودگی حاصل کرنے کی خاطر فلم بینی کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں جرائم کی وارداتیں فلموں کے تصوراتی جرائم سے بھی زیادہ سنگین اور ناقابل یقین ہوچکی ہیں۔ گزشتہ روز محکمہ داخلہ سندھ کے معاون خصوصی شرف الدین میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی پولیس میں فارنسک ڈپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر استوارکیا گیا ہے۔ جس نے اب تک 1100 کے قریب قتل کی وارداتوں کا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معائنہ کیا، اعلیٰ افسران اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ فارنسک جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں 90 افراد کے قتل میں نائن ایم ایم کے صرف 3 پستول استعمال کیے گئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ محض تین نشانہ باز قاتلوں نے 90 افراد کے قتل میں صرف 3 پستول استعمال کیے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی ہے کہ ان 3 پستولوں سے ایم کیو ایم کے ایم پی اے منظرامام، سعودی سفارتکار، موٹرسائیکل سوار شیعہ مسلک کے باپ اور بیٹی سمیت شیعہ، سنی، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعات شہر میں انتشار پھیلا سکتے تھے۔ یہ معلوم کرنا کہ ان واقعات میں صرف تین پستول استعمال کیے گئے ہیں انتہائی آسان ہے کیونکہ ہر گولی کے خول کے پیچھے پستول کے ہیمر کا نشان ہوتا ہے اور ہر پستول کا یہ نشان انسانی فنگر پرنٹ کی طرح جدا جدا ہوتا ہے جس کا ٹیکنالوجی کی مدد سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات میں نہ صرف اسلحہ مشترک پایا گیا ہے بلکہ ہدف بناکر قتل کرنے کی حکمت عملی میں بھی یکسانیت کا عنصر نمایاں ہے۔ شرف الدین میمن کے مطابق فارنسک تحقیقات کی مدد سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں تحقیقات صحیح سمت میں کرنے میں مدد مل رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان وارداتوں میں ملوث ملزمان انتہائی شاطر اور چست و چالاک پائے گئے ہیں۔ مولانا دین پوری اور ان کے دو ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان اعلیٰ تربیت یافتہ، چست اور بے خوف تھے حالانکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ چند سو گز کے فاصلے پر رینجرز اور پولیس تعینات تھیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2011 میں کراچی میں 1800 جب کہ 2012 میں 2300 افراد قتل کیے گئے۔ نئے سال کے ابتدائی 50 دنوں میں 20 پولیس افسران و اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں، زخمی اور معذوری کا شکار ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ان 50 دنوں میں امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی 26 دن بند رہے۔ پولیس ذرایع کے مطابق بے پناہ ہلاکتوں اور حکومتی و سیاسی حلقوں کی پشت پناہی کے سبب پولیس کا مورال گرا ہے۔ عدم تحفظ کی وجہ سے پولیس کے تحقیقاتی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صرف حساس اداروں کے ہاتھوں پکڑے جانے والے ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی جارہی ہے۔
وزارت داخلہ سندھ کے اس سائنٹیفک انکشاف کہ کراچی میں 3 قاتلوں نے 3 پستولوں کی مدد سے 90 افراد قتل کیے، کے کئی پہلو غور طلب ہیں۔ ان تین دہشت گردوں نے منظم سازش کے تحت ایک خاص تناسب سے مختلف مسلکوں، لسانی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے افراد کو قتل کیا ہے۔ بعیدا از قیاس نہیں کہ بعد میں ہونے والی ہزاروں ہلاکتیں متاثرہ مذہبی، لسانی اور سیاسی جماعتوں یا ان سے وابستہ افراد کے جذباتی و انتقامی ردعمل کا نتیجہ ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ شیطان نے ایک عابد و زاہد شخص سے دوستی کرلی، جب اس شخص پر اس بات کا راز کھلا تو اس نے شیطان پر بڑی لعنت و ملامت بھیجی کہ تو مردود ہے، لوگوں کو بہکاتا اور بھٹکاتا ہے، لڑاتا بھڑاتا ہے، شیطان نے اپنی صفائی پیش کی اور اس برگزیدہ شخص کو شہر لے گیا، جہاں ایک حلوائی شیرہ تیار کر رہا تھا۔
شیطان نے شیرے کی ایک بوند دیوار پر لگادی، شیرہ دیکھ کر مکھیاں دیوار پر آگئیں، مکھیوں کے تعاقب میں ایک چھپکلی بھی دیوار پر آپہنچی، یہ منظر دیکھ کر بلی بھی قریب آگئی، چھپکلی دیکھ کر اس کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور اس کو نوالہ بنانے کی ترکیب سوچنے لگی، اسی دوران کچھ افراد اپنے کتے کے ہمراہ بازار سے گزرے ، ان کے کتے نے بلی کو دیکھا تو اس پر جھپٹ پڑا، بلی نے جان بچانے کے لیے چھلانگ لگائی تو شیرے کی کڑاہی میں جاگری، حلوائی نے غصے میں آکر کڑاہی کا بڑا سا کڑچھا کتے کے سر پر دے مارا، جس سے وہ مرگیا، ان افراد نے طیش میں آکر حلوائی کو گولی ماردی۔ واقعے پر سارا شہر مشتعل ہوگیا اور ان افراد کے گھروں کو آگ لگادی، اس طرح پورا شہر فساد کی نذر ہوگیا۔ شیطان نے بڑی معصومیت سے کہا : حضرت میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا، شیرے کی ایک بوند ہی لگائی تھی، سارا فساد تو انسانوں نے خود برپا کیا۔
ہمارے ملک کی حالت بھی کچھ اس سے مختلف نہیں بلکہ زیادہ ہی ابتر ہوچکی ہے۔ ملک معاشی، سیاسی اور امن وامان کے معاملے میں مفلوج اور ناکام ہوکر رہ گیا ہے۔ مقتولوں کے ورثا کے علاوہ معاشی بدحالی کا شکار عوام فوج بلانے کا مطالبہ کرنے لگی ہے۔ جب سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوجائے تو لوگوں کی نظریں فوج کی طرف اٹھنا ایک فطری عمل ہے، حکومت کے طرز عمل میں کوئی سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آرہی، نہ ہی داخلی و خارجی مسائل سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی اور پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ وزیر داخلہ صرف پیشگی اطلاع دینے اور کسی سانحے کی صورت میں یہ کہہ کر کہ ''میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا'' داد و تحسین حاصل کرنے کے متمنی نظر آتے ہیں اور سیاسی قیادت تمام الزام ایجنسیوں کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہوجاتی ہے۔
انتہا تو یہ ہے کہ آئی جی کہتے ہیں کہ ''کراچی میں ہلاکتیں بڑھنا تشویش ناک نہیں ہے''۔ جس طرح دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ، لسانی اور سیاسی نوعیت کے فسادات اور انارکی پھیلانے کی منظم اور مذموم منصوبہ بندی تیار کرلی گئی ہے۔ ایسے واقعات میں بلیک واٹر، را، موساد اور دیگر اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ایجنٹ ملوث ہیں۔
پولیس کے پاس قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی ویڈیو موجود ہوتی ہیں، سائنٹیفک رپورٹس بھی موجود ہوتی ہیں، بجٹ کا ایک بڑا کثیر حصہ بھی اس میں کھپایا گیا ہے، گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں، لیکن حکومتی، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دباؤ اور پولیس اہلکاروں اور گواہوں کے وسیع پیمانے پر قتل عام، سفارش، سیاسی بنیادوں پر تقرری، تعیناتی، تبدیلی اور ترقیاں پولیس کا مورال ختم کر رہی ہیں، ان میں عدم تحفظ کا احساس اور انتہائی درجے کا ذہنی دباؤ اور بددلی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی صفر ہوکر رہ گئی ہے۔ غفلت و لاعلمی کا شکار منقسم قوم بھی شیرہ لگانے والوں کے سحر میں بری طرح پھنس چکی ہے، ان کی توجہ ملکی و بین الاقوامی امور، معیشت، دفاع اور اپنے مستقبل سے ہٹاکر صرف اور صرف اپنی جانوں اور املاک کے تحفظ اور حفظ وامان کی تمنا تک محدود کردی گئی ہے۔ جب تک حکمراں ذاتی مفادات، منافقت اور مصلحت اور عوام سازشوں اور مکاروں کی اطاعت و پیروی نہیں چھوڑیں گے (جس کے امکانات انتہائی معدوم نظر آتے ہیں) اس وقت تک صورت حال میں کسی بہتری کی امید لگانا حماقت ہوگی، تاریخ قوموں کی غلطیاں معاف نہیں کیا کرتی۔