اگر استثنیٰ لے لیتے

وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار میں رہ کر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کو سندھ میں نیب اور ایف آئی اے سے تحفظ نہیں دلایا۔


Muhammad Saeed Arain October 06, 2017

سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کو سیاست نہیں آتی وہ مجھ سے سیاست سیکھیں۔ موجودہ سیاست میں تو یہ بات سو فیصد درست ہی لگتی ہے اگر نواز شریف تیسرے اقتدار کے بعد آصف زرداری کو اپنا سیاسی استاد مان لیتے اور ان کے قیمتی سیاسی مشوروں پر عمل کرتے تو وہ بھی آصف زرداری کی طرح اپنی مدت اقتدار پوری کرتے۔

جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی بجائے آصف زرداری کی طرح قانونی استثنیٰ لے لیتے تو جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ بھی مجبوراً مزید گیارہ ماہ وزیر اعظم کے عہدے پر برداشت کرتے اور جون 2018ء میں وزیر اعظم کی مدت مکمل ہونے کے بعد نواز شریف بھی آصف زرداری کی طرح از خود جلاوطنی اختیار کرنے کے لیے اور پانچ سالہ تھکاوٹ دور کرنے لندن یا دبئی میں جاکر فیملی کے ساتھ آرام کرتے اور سپریم کورٹ میں صورتحال اپنے حق میں تبدیل ہونے کا انتظار کرتے تو آنے والے سالوں میں نواز شریف کے لیے حالات اچھے اور انھیں ''گاڈ فادر'' قرار دینے والے بھی جنرل راحیل کی طرح گھر جاچکے ہوتے تو معمولی غلطی بیٹے کی مقررہ تنخواہ چھپانے پر انھیں اتنی سنگین سزا ملتی نہ نااہلی کا طوق ان کے گلے پڑتا مگر میاں صاحب کو آصف زرداری جیسی جدید سیاست نہیں آئی جس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔

سابق صدر غلام اسحاق خان نے کہا تھا کہ لڑائی کے دوران جو گھونسا یاد نہ آئے وہ بعد میں اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ آصف زرداری نے اپنی ظاہری مسکراہٹ میں اپنی ہر چیز یاد اور گھونسا محفوظ رکھا، انھوں نے جو خواب بھی نہیں دیکھا تھا، اس کی تعبیر بغیر خواب دیکھے حاصل کی۔

بینظیر بھٹو کے تیسری بار حصول اقتدار کا خواب تو پورا نہ ہو سکا مگر محترمہ کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو اقتدار دلایا اور مسلم لیگ (ن) کو شریک اقتدار کرنے کا جو کام محترمہ نہ کرسکیں وہ آصف زرداری نے کر دکھایا اور 2008ء میں نواز شریف کو ساتھ ملا کر صدر پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹوا کر دبئی جانے پر مجبور کیا تھا مگر جاتے جاتے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر بھی دلا کر اپنے لیے بھی راہ ہموار کی کیونکہ پرویز مشرف سے قبل صدر اسحاق خان اور صدر رفیق تارڑ کو بھی جاتے جاتے یہ اعزاز نہیں ملا تھا۔

صدر زرداری نے اپنی صدارت کا آخری روز بھی اپنی مصروفیات سے یادگار بنا دیا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف نے بھی آصف زرداری کو باوقار سرکاری عشائیہ دے کر رخصت کیا تھا۔ آصف زرداری تو پہلی بار صدر بنے تھے مگر نواز شریف کو تو اس سے قبل بھی دو بار وزیر اعظم رہنے کا تجربہ تھا اور وہ خود کو عقل کل سمجھتے تھے۔

اس لیے انھوں نے بعد میں آصف زرداری کو چوہدری نثار کی طرح مشاورت کے قابل نہیں سمجھا اور پی پی کی سندھ حکومت کو مکمل آزادی دے کر وہ سمجھے کہ آصف زرداری خوش رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر آصف زرداری کو 2013ء میں پیپلز پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں نہ آنے کا پتہ تھا اور انھوں نے اپنی توجہ سندھ میں پی پی کی کامیابی پر مرکوز رکھی تھی جس میں وہ کامیاب رہے۔ انھوں نے نواز شریف کی طرح اپنی سندھ حکومت میں وزیر اعظم کو نظرانداز نہیں کرایا بلکہ وزیر اعظم جب سندھ آئے پی پی کا وزیر اعظم انھیں موجود ملتا جب کہ پنجاب میں پہلے وزیر اعلیٰ نواز شریف وزیر اعظم بینظیر کو پھر شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب صدر آصف علی زرداری کو نظرانداز کیا کرتے تھے مگر نواز شریف کو آخر تک ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں رہا۔

2008ء میں صدر زرداری نے نواز شریف کے شدید مخالف سلمان تاثیر پنجاب میں گورنر لگایا تھا جس سے بعد میں پنجاب میں گورنر راج کا ایک گھونسا بھی صدر زرداری نے شریفوں کو لگوایا تھا جو کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار میں رہ کر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کو سندھ میں نیب اور ایف آئی اے سے تحفظ نہیں دلایا۔ سندھ میں ہولناک کرپشن کو روکنے پر توجہ نہیں دی بلکہ پی پی کی خوشنودی کے لیے سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا صفایا کرالیا مگر عمران خان کے خوف سے آصف زرداری کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر پاناما سامنے آتے ہی آصف زرداری نے آخری وقت میں نواز شریف سے نہ صرف آنکھیں پھیر لیں بلکہ استعفے کا بھی مطالبہ شروع کردیا تھا،کیونکہ 2012ء میں نواز شریف نے بھی وزیر اعظم گیلانی سے مستعفی ہونے کا کہا تھا جو نواز شریف بھول گئے مگر آصف زرداری کو یاد تھا یہ گھونسا زرداری نے موقعے پر نواز شریف کو لگوایا۔

آصف زرداری نے اپنی سیاسی صلاحیت سے مخالفوں کو بھی دوست بنا کر، بلکہ انھیں قاتل لیگ قرار دے کر بعد میں اپنی حکومت میں شامل کرکے غیر قانونی طور پر ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ بھی انھیں بخش دیا تھا اور اپنے پارٹی رہنماؤں کو بھی اپنے اس دہرے کردار پر ناراض نہیں ہونے دیا تھا۔ چار سال سیاست نہ کرکے اور آخری سال میں بھرپور سیاست شروع کرکے آصف زرداری نے نواز شریف کو نااہلی کا ذمے دار بھی سابق وزیر اعظم ہی کو قرار دیا اور کہا کہ نواز شریف اگر میرے کہنے پر چلتے اور میثاق جمہوریت برقرار رکھتے تو وہ آج نا اہل نہ ہوتے۔

میاں نواز شریف بے شک خود کو عقل کل سمجھیں مگر آصف زرداری کے نزدیک وہ عقل سے عاری ہیں جنھوں نے دوستی نبھانے میں ہر حد پار کرجانے والے دوست آصف زرداری کو اس حد تک ناراض کردیا ہے کہ وہ اب نواز شریف کا فون تک سننے کے روادار نہیں ہیں اور نواز شریف کی مخالفت میں زرداری فیملی بھی متحد اور ایک زبان ہوکر ان پر تنقید کے تیر پہ تیر برسا رہی ہے۔

''مجھے کیوں نکالا'' کی مسلسل تکرار کرنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کو متنازعہ بھی قرار دیا اور وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہاں پیش بھی ہوئے اور پاناما لیکس کی بجائے اقامہ پر نااہل قرار پائے اور اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ مشرف آمریت میں انھیں دو اپیلوں کا حق ملا تھا مگر آج جمہوریت میں انھیں کہیں اپیل کا حق ہی نہیں دیا جا رہا اور تو اور ان کی نظرثانی کی اپیل بھی فوراً مسترد کردی گئی جب کہ آصف زرداری کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل کا کچھ پتہ نہیں۔ نواز شریف کے خلاف نیب تیز اور آصف زرداری کی اپیل کے برعکس نیب مقدمات کی سست روی پر تو نواز شریف بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کاش آصف زرداری کی طرح بھی آئینی استثنیٰ لے لیتا تو آج بھی وزیر اعظم ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں