اسلام کا معاشی نظام

ہر شعبۂ حیات کی طرح اسلام اس بات کا متقاضی ہے کہ زندگی کا معاشی پہلو بھی نور ہدایت الٰہی سے منور ہو۔


[email protected]

اسلام نظریہ ہی نہیں، نظام بھی ہے۔ تصور حیات ہی پیش نہیں کرتا، ضابطۂ حیات بھی عطا کرتا ہے۔ اس کے احکامات اور ہدایات کا دائرہ علم سے لے کر عمل تک، تہذیب سے لے کر تمدن تک، غرض یہ کہ زندگی کے ہر گوشے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر شعبۂ حیات کی طرح اسلام اس بات کا متقاضی ہے کہ زندگی کا معاشی پہلو بھی نور ہدایت الٰہی سے منور ہو۔ پوری زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا کلمہ طیبہ کا تقاضا ہے۔

اگر زندگی کے بعض شعبوں میں اسلام کی پیروی کی جائے اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھا جائے تو ایمان باللہ محض ایک لفظ بے معنی بن کر رہ جاتا ہے۔ ایمان، اخلاق اور عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے، ہر شعبہ حیات پر اخلاق کی حکمرانی ہو یہی کتاب ہدیٰ کا پہلا سبق ہے۔ اسلام زندگی کے لیے جو معاشی خاکہ پیش کرتا ہے اس کے چند بنیادی رنگ مندرجہ ذیل ہیں۔

حلال و حرام: اسلام میں مقاصد اور ذرایع دونوں کے لیے سرچشمہ ہدایت اﷲ کی ذات ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مقاصد کی سمت کعبہ کی طرف اور ذرایع کا رخ کلیسا کی طرف پھیر دیا جائے۔ شریعت سے بغاوت پر مبنی معیشت کتنی ہی چمکدار ہو، خدا کی نظرمیں بے وقار اور دوزخ کی نار ہے۔ فروغ معیشت، ترقیٔ پیداوار، اضافہ آمدنی اور حصول رزق کے سلسلے میں دل و دماغ کو حلال و حرام کی تمیز سے آگاہ رکھنا شرط لازم ہے کیونکہ فرمان رسولؐ ہے: ''جنت میں وہ گوشت نہیں جاسکتا جو حرام لقموں سے بنا ہو۔''

حرمت سود: استحصال اور ظلم، سود کا دوسرا نام ہے۔ اس کی وجہ سے معیشت کی عمارت کے در و دیوار ہلنے لگتے ہیں۔ پوری معاشرت مفلوج اور معیشت عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے۔ چند کی چاندی اور لاکھوں کا نقصان سودی نظام کا خاصا ہے۔ چند پر ہُن برسنے لگتا ہے اور کروڑوں افراد نان شبینہ کو ترسنے لگتے ہیں۔ اسلام ایسی معیشت کی سختی سے مذمت کرتا ہے جس کے ذریعے اجتماعیت کا خون ہوتا ہو۔ اسلام سودی لین دین کا سخت مخالف ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جو ایمان لانے کے باوجود اپنی منکرانہ روش سے باز نہیں آتے ان کے خلاف خدا اور رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان کرتا ہے۔

دیانت: شریعت میں پاس امانت اور احساس دیانت خصوصاً شعبہ تجارت میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ تجارت میں دیانت اﷲ کے دوست ہونے کی قرآنی ضمانت ہے۔ دیانت کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ بخوبی اس حدیث رسولؐ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ''امانت دار تاجر کا اجر اور حشر مثلِ صدیق و شہید ہے۔'' چرب زبانی اور غلط بیانی سے کسی کو دھوکے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اﷲ دغا باز کو پسند نہیں کرتا بلکہ خلوص سے کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

باہمی رضامندی: اسلام میں تجارت کی غرض و غایت امداد باہمی ہے۔ اور منافع، محنت، خدمت اور وقت کا صلہ ہے۔ نفع کی اصل باہمی رضا ہے۔ مرضی اور خوشی کے بغیر لین دین پر مجبور کرنا منع ہے۔

اشیائے تجارت: تجارتی لین دین صرف ان اشیا کا کیا جاسکتا ہے جو شریعت کی جانب سے منظور شدہ اور تصدیق شدہ ہوں۔ ممنوعہ اور مشتبہ چیزوں کا استعمال جس طرح اپنی ذات کے لیے منع ہے، اسی طرح دوسروں کو ان اشیا کی فروخت کے ذریعے استعمال کے مواقع فراہم کرنا ممنوع ہے۔ حرام مال کی پیدائش اور افزائش سے لے کر ترسیل تک جتنے بھی افراد، واسطہ اور ذریعہ بنتے ہیں، سب کے سب خدا کی نظر میں مجرم اور گنہگار ہیں، مثلاً شراب کا پینے والا، پلانے والا، لانے والا اور بنانے والا سب کا انجام بد ایک ہی ہے۔

ذخیرہ اندوزی: دولت کی زرخیزی کے لیے ذخیرہ اندوزی کرنا، چیزوں کی رسد کو روک کر مصنوعی قلت پیدا کرنا تاکہ طلب اور قیمت خرید میں اضافہ ہو منع ہے، بلکہ سخت گناہ ہے۔ فرمان رسولؐؐ ہے ''جو تاجر قیمتیں چڑھانے کے لیے مال روک رکھے وہ ملعون ہے۔''

مندرجہ بالا اخلاقی ہدایتوں اور تجارتی اصولوں کو دل و ذہن کے پاس رکھتے ہوئے فرد اپنی دولت، نفع یا آمدنی میں جس قدر اضافہ کرسکتا ہے اسلام کی طرف سے اجازت ہے۔ اس طرح حاصل شدہ دولت اﷲ کا فضل و نعمت اور عنایت ہے جو اس کے پاس بطور امانت ہے۔ حلال مال و دولت پر بھی اسلام فرد کے جملہ حقوق محفوظ قرار نہیں دیتا۔ جائز دولت تعمیری پیداواری اور فلاحی مقاصد پر خرچ کرنے کے لیے جمع کرنے کے لیے نہیں۔ ذخیرہ اندوزی کی طرح زراندوزی، احتکار کی طرح ارتکاز زر کو بھی اسلام قہر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

اسلام اور دیگر معاشی نظام: اسلام کے مقابلے میں اکثر اوقات دو انسانی نظام میدان عمل میں رہے ہیں، ایک سرمایہ داری، دوسری اشتراکیت۔ دونوں خدا کی ہدایت و رہنمائی کی صلاحیت، حکمت، علمیت، بصیرت اور قدرت کے معاشی میدان میں منکر ہیں۔ اسلام کا معاشی نظام، سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے اپنے مقصد، اپنے مزاج اور اپنے اصولوں کے اعتبار سے بالکل منفرد ہے۔ یہ جڑ سے لے کر شاخوں، پھلوں، پھولوں، پتیوں اور رنگ وبو میں دونوں سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ اسلام وہ آواز حق ہے جو 610ء سے پہلے تاریخ انسانی کے کسی دور میں سنائی نہیں دیتی، جس کے لیے یہ الزام لگایا جاسکے کہ اسلام نے فلاں دور تاریخ کی آواز کو دہرایا ہے۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت 18 ویں صدی کے آخر اور 19 ویں صدی کی ابتدا کی انسانی ذہن کی پیداوار ہیں جب کہ اسلام چھٹی صدی کی آسمانی ہدایت ہے۔ ماضی حال کا شاگرد نہیں ہوسکتا، حال ماضی کا شاگرد ہوسکتا ہے۔

اسلام معاشی ہدایت میں دنیا کا پیشرو ہے۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں وہ اسلام ہی کی آواز بازگشت ہے۔ سرمایہ داری کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش میں ترقی، پیداوار میں اضافہ، صرف دولت، انفرادی حق ملکیت اور شخصی آزادی وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً وسائل پیداوار کی کم سے کم تقسیم، نفع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ، سرمایہ کا کثیر معاوضہ، محنت کا حقیر معاوضہ، لعنت سود، صرف طاقتور کو جینے کا حق، ظلم و استحصال، درندگی تنگ نظری دوسروں کی حق تلفی، مفاد پرستی، ٹیکس کی چوری، ارتکاز دولت اور معاشی بحران وغیرہ کی برائیوں سے اسلام کا دامن پاک وصاف ہے۔

اسی طرح اشتراکیت کی خوبیاں مثلاً وسائل معاش کی ترقی، معاشرتی انصاف، معاشی استحکام، دولت کی منصفانہ تقسیم، محنت کی عظمت، سود کی ممانعت، غیر ترقیاتی اخراجات کی حوصلہ شکنی، تعیشانہ زندگی کی ممانعت، بنیادی ضروریات زندگی کی لازمی فراہمی، دولت کی گردش وغیرہ اسلام کے معاشی نظام میں موجود ہیں لیکن اس کی خامیاں مثلاً فرد کی اہمیت کا انکار، ریاست کا فرد اور ملکیت پر جملہ حقوق محفوظ ،اظہار رائے پر پابندی، مستقل اخلاقی اقدار اور روحانی قوت کا انکار وغیرہ کی برائیوں کے داغ دھبوں سے اسلام کا آنچل بے داغ ہے۔

دونوں نظام افراط و تفریط کا شکار ہیں، انتہاپسندی دونوں کا خاصا ہے اور خلاصہ ہے۔ اسلام کا مرکزی تصور انسان اور اس کی معاشی اور اخلاقی فلاح ہے۔ وہ معاشی ترقی کو امکانی حد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی انصاف، شخصی آزادی اور اخلاقی ترقی کو اولین اہمیت دیتا ہے۔اس طرح یہ انسانی فلاح و بہبود کا قابل یقین ضامن ہے۔ دور حاضر کے معاشی چیلنج یہ ہیں، معاشی ترقی، معاشی تعاون، معاشی توازن، معاشرتی انصاف، منصفانہ تقسیم دولت اور روحانی قوت پر یقین محکم وغیرہ۔ اسلام دنیا کا واحد نظام ہے جو دور حاضر کے ان معاشی چیلنجز کا جواب دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کو آزمانا وقت کی آواز ہے، حالات کا تقاضا ہے اور حقیقی معاشی خوشحالی کی ضمانت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں