تلامذۂ اُنس
نگین کے کلام کی سادگی، الفاظ کی روانی اور شگفتہ مضمون ان کے شاگرد اُنس ہونے کی واضح دلیل ہے۔
ایک گراں قدرکتاب ''تلامذۂ اُنس و مونس'' کے نام سے منظر عام پر آئی جو عہد حاضر کے رثائی محقق سید ارتضیٰ عباس تقوی کی اہم تحقیقی کاوش قرار دی جاسکتی ہے۔ ارتضیٰ نے تحقیق کے بعد میر مہر علی اُنس اور میر محمد نواب مونس (برادران انیس) کے شاگردوں کے بارے میں اس قدر گراں قدر مواد اکٹھا کیا ہے جو لائق تحسین و آفرین ہے۔ انیس ودبیر اور ان کے شاگردوں پر تو خاصہ کام پہلے موجود تھا، مگر انیس و دبیر کے علاوہ کسی اور استاد مراثی کے شاگردوں پر عام لوگوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اگرچہ اس سلسلے میں انفرادی طور پر کسی شاگرد کے تذکرے کے حوالے سے کچھ کام ادھر ادھر بکھرا ہوا ضرور تھا مگر یوں مربوط تذکرہ تمام شاگردان انس و مونس کا یکجا کم ازکم میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔
حرف آغاز میں ارتضیٰ عباس نے استادی اور شاگردی کی اہمیت پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالی ہے اور کئی مغالطوں کی وضاحت بھی کی گئی ہے، مثلاً میر انیس کے بارے میں یہ مغالطہ تھا کہ انھوں نے سوائے اپنے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کے کسی کو شاگرد نہیں بنایا مگر متذکرہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر قمقام حسین جعفری نے میر انیس کے 45 شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کہ ارتضیٰ عباس نے مزید تحقیق کے بعد مزید دس شاگردوں کا اضافہ کرکے اس مغالطے کو یکسر مسترد کردیا ہے یوں میر انیس کے 55 شاگرد اب تک دریافت ہوچکے ہیں۔
مصنف نے جہاں تک ممکن ہو سکا ان سب کا نمونۂ کلام، قلمی نسخوں کا عکس اور جن جن کی تصاویر حاصل ہوسکیں ان کو بھی شامل کتاب کیا ہے۔ ان تمام شعرا کے غیر مطبوعہ کلام کو بھی پہلی بار منظر عام پر لایا گیا ہے۔ جن کے مراثی دستیاب ہوئے ان کا تقریباً پورا ایک مرثیہ شامل اشاعت کیا گیا ہے، تاکہ پڑھنے والے دیگر مرثیہ گو شعرا کے کلام کی خصوصیات و شاعرانہ مقام سے بھی واقف ہوں۔
ارتضیٰ عباس یہ معلوم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے کہ کسی کا کلام کہاں ہے جب کہ وہ کوشش کے بعد اس کو حاصل نہ کرسکے مثلاً بہرام الدولہ میر داور علی خان کا کلام ان کے ورثے کے پاس حیدرآباد دکن میں موجود ہے جو کسی وجہ سے اب تک منظر عام پر نہ آسکا۔ میر انیس کے فرزند سید حسن جن کا تخلص خلیل ہے ان کے مراثی بھی دستیاب نہیں لہٰذا ان کا مختصر تعارف شامل ہے نمونہ کلام شامل نہ ہوسکا۔ جب کہ سجاد علی خان (سجاد کربلائی) کی رباعیات، مخمس، سلام تضمین، نوحے اور ایک غیر مطبوعہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ اُنس کے ایک اور شاگرد سید مہدی تخلص ضیا جن کا تعلق دکن سے تھا، داستان گوئی میں کمال حاصل تھا ان کا بھی رثائی کلام دستیاب نہیں بطور نمونۂ کلام ایک غزل کو شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے کئی مغالطے دور ہوئے ہیں مثلاً آج کل جو مجموعہ مراثی مختصر کرکے بطور خاص خواتین کی مجالس میں پڑھنے کے لیے مرتب کیے جا رہے ہیں ان میں ایک مرثیہ جو بے حد مقبول ہے جس کا مطلع ہے ''قید سے چھوٹ کے یثرب میں حرم آتے ہیں'' کو مراثی انیس میں شامل کیا جاتا ہے جب کہ یہ مرثیہ (یہ تحقیق ارتضیٰ عباس) میر اُنس کے شاگرد سید سرفراز علی خان تخلص سرفراز رئیس بیگن پلی (جو حیدر آباد دکن کے قریب ایک ریاست ہے) کا ہے۔ ہم بھی بچپن سے والدہ کی ابیاض سے اس مرثیے کو پڑھتے رہے اور میر انیس ہی کا سمجھتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرفراز نے اپنے استاد میر انیس اور ان کے صاحبزادے سید محمد ہادی جن کا تخلص وحید تھا اور خود اپنے مرثیے ریحان غم کے نام سے دو جلدوں میں شایع کرائے تھے جن میں خود سرفراز کے چھ مراثی شامل ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو مراثی کہنے پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ زبان سادہ و سلیس ہے روایات لکھنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ سلام تضمین اور غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
اُنس کے آخری زمانے کے شاگرد سید فضل رسول فضل کے بارے میں مصنف کو خاصا مواد دستیاب ہوگیا کیونکہ فضل کے بھتیجے سید اظہر حسین انھی کے محلے میں رہتے تھے زیادہ تر معلومات انھی کے ذریعے حاصل کیں اور غیر مطبوعہ کلام بھی ان کے پاس موجود تھا۔ فضل نے ''ہفت بند زہرا'' میں اپنے حالات تحریر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھوں نے کم ازکم تیس مراثی تصنیف کیے تھے۔
جناب اظہر حسین کے مطابق یہ مراثی جب کہ طباعت کے لیے تیار تھے چوری ہوگئے جن کا فضل کو ہمیشہ قلق رہا البتہ اس کے بعد کہے گئے دس گیارہ مراثی محفوظ ہیں جو مصنف نے حاصل کرلیے ہیں۔ فضل نے مراثی کے علاوہ ہفت بند زہرا، ہفت بند امام آخر الزماں، سلام و نوحہ، رباعیات و قصائد وغیرہ میں بھی کافی کلام یادگار چھوڑا ہے۔ فضل اُنس کے شاگرد تو تھے ہی مگر یہ سلسلہ شاگردی صرف دو سال جاری رہ سکا کہ استاد کا انتقال ہوگیا۔
فضل کو اپنی اس شاگردی پر فخر بھی رہا اور مدت دراز تک استاد سے استفادہ نہ ہونے کا قلق بھی۔ فضل ایک ہندو شاعرہ روپ کماری کنوار کے استاد بھی تھے جو رثائی کلام ہی کہتی تھیں۔ فضل اس کے مراثی پر اصلاح دیتے تھے اس کا نام انھوں نے کنیز فاطمہ زہرا رکھا تھا۔ اس شاعرہ پر ڈاکٹر تقی عابدی نے ایک کتاب بھی مرتب کی ہے اس میں کچھ اغلاط تھیں جو متذکرہ کتاب میں دور کی گئی ہیں۔ فضل نے تین مناجات اپنے فرزند اور اہلیہ کی صحت یابی اور روپ کماری کے مشکل حالات پر بھی ایک مناجات لکھی تھی۔ دیگر شاگردان اُنس کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتی مگر فضل رسول کے خانوادے سے کیونکہ میرا براہ راست تعلق ہے کہ وہ میری ساس کے دادا تھے لہٰذا ارتضیٰ عباس کو ان کی اولاد کے سلسلے میں کچھ غلط اطلاعات ملی ہیں۔
فضل رسول کی ایک بیٹی خیرالنسا جن کا عقد سید سجاد حسین (جج پھرتیور) کے بڑے صاحبزادے سے ہوا تھا کے چار بیٹے اور ایک بیٹی رشیدہ بانو تھیں ان سب کا انتقال ہوچکا ہے البتہ ان کی اولادیں فیڈرل بی ایریا اور ڈیفنس میں مقیم ہیں جب کہ فضل رسول کے بیٹے محمد عباس جن کی شادی جج صاحب (پھرتیور) کی صاحبزادی خورشید بانو عرف سلطانہ سے ہوئی جو عین عالم جوانی میں 22 برس کی عمر میں 9 ماہ کی بچی چھوڑ کر انتقال کرگئیں یہ بچی شہر بانو المعروف تاج النسا جن کا انتقال اگست 2013ء میں ہوا کے تین بیٹے محمود جعفری، فلک جعفری، مسعود جعفری گلشن اقبال میں رہائش پذیر ہیں جب کہ بیٹی نجمہ کاظم رضا ڈیفنس میں مقیم ہیں۔ جب کہ ارتضیٰ عباس نے محمود جعفری کو خیرالنسا کے صاحبزادے قرار دیا ہے اس کے علاوہ ایک اور غلط فہمی کہ فضل رسول آخری عمر میں آنکھوں کا علاج کرانے لکھنو آئے تھے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے جواں سال فرزند کی وفات کے بعد وطن چھوڑ کر لکھنو آبسے تھے اور پھر کبھی وطن نہ گئے سوائے جج صاحب (جو ان کے سمدھی ہی نہیں سالے بھی تھے) کے یہاں عشرۂ محرم پڑھنے کے۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کرلیا جائے گا۔
ان شاگردان اُنس کے علاوہ نگین، وحید اور مرزا ہادی حسین فیض آبادی بھی فہرست تلامذۂ اُنس میں شامل ہیں۔ نگین کا نام میر محمد علی، تاج الشعرا خطاب تھا۔ نگین کے مراثی ان کے بیٹے نے اپنے ہاتھ سے نقل کرکے دو جلدوں میں ترتیب دیے ایک جلد میں پندرہ مراثی ہیں جن میں کچھ دو سو بندوں پر بھی مشتمل ہیں۔ تین قلمی وغیر مطبوعہ مراثی ارتضیٰ عباس کے پاس محفوظ ہیں۔
نگین کے کلام کی سادگی، الفاظ کی روانی اور شگفتہ مضمون ان کے شاگرد اُنس ہونے کی واضح دلیل ہے۔ نگین کے کلام کی خصوصیات میں تعلی، رجز، صفات، مصائب، واقعہ نگاری، جذبات نگاری و منظر کشی کی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک مرثیہ کے 158 بند شامل کتاب ہیں جو ان کے شعری کمالات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔سید محمد ہادی، تخلص وحید میر مہر علی اُنس کے صاحبزادے اور شاگرد تھے۔ ڈاکٹر صفدر حسین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''اگر انھیں میر انیس کی شاگردی حاصل ہوتی اور ان کی شاعری پر جلائے انیس ہوجاتی تو پھر وحید جیسا مرثیہ گو اردو ادب میں دوسرا نظر نہ آتا۔'' (جاری ہے)
حرف آغاز میں ارتضیٰ عباس نے استادی اور شاگردی کی اہمیت پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالی ہے اور کئی مغالطوں کی وضاحت بھی کی گئی ہے، مثلاً میر انیس کے بارے میں یہ مغالطہ تھا کہ انھوں نے سوائے اپنے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کے کسی کو شاگرد نہیں بنایا مگر متذکرہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر قمقام حسین جعفری نے میر انیس کے 45 شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کہ ارتضیٰ عباس نے مزید تحقیق کے بعد مزید دس شاگردوں کا اضافہ کرکے اس مغالطے کو یکسر مسترد کردیا ہے یوں میر انیس کے 55 شاگرد اب تک دریافت ہوچکے ہیں۔
مصنف نے جہاں تک ممکن ہو سکا ان سب کا نمونۂ کلام، قلمی نسخوں کا عکس اور جن جن کی تصاویر حاصل ہوسکیں ان کو بھی شامل کتاب کیا ہے۔ ان تمام شعرا کے غیر مطبوعہ کلام کو بھی پہلی بار منظر عام پر لایا گیا ہے۔ جن کے مراثی دستیاب ہوئے ان کا تقریباً پورا ایک مرثیہ شامل اشاعت کیا گیا ہے، تاکہ پڑھنے والے دیگر مرثیہ گو شعرا کے کلام کی خصوصیات و شاعرانہ مقام سے بھی واقف ہوں۔
ارتضیٰ عباس یہ معلوم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے کہ کسی کا کلام کہاں ہے جب کہ وہ کوشش کے بعد اس کو حاصل نہ کرسکے مثلاً بہرام الدولہ میر داور علی خان کا کلام ان کے ورثے کے پاس حیدرآباد دکن میں موجود ہے جو کسی وجہ سے اب تک منظر عام پر نہ آسکا۔ میر انیس کے فرزند سید حسن جن کا تخلص خلیل ہے ان کے مراثی بھی دستیاب نہیں لہٰذا ان کا مختصر تعارف شامل ہے نمونہ کلام شامل نہ ہوسکا۔ جب کہ سجاد علی خان (سجاد کربلائی) کی رباعیات، مخمس، سلام تضمین، نوحے اور ایک غیر مطبوعہ مرثیہ شامل کتاب ہے۔ اُنس کے ایک اور شاگرد سید مہدی تخلص ضیا جن کا تعلق دکن سے تھا، داستان گوئی میں کمال حاصل تھا ان کا بھی رثائی کلام دستیاب نہیں بطور نمونۂ کلام ایک غزل کو شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے کئی مغالطے دور ہوئے ہیں مثلاً آج کل جو مجموعہ مراثی مختصر کرکے بطور خاص خواتین کی مجالس میں پڑھنے کے لیے مرتب کیے جا رہے ہیں ان میں ایک مرثیہ جو بے حد مقبول ہے جس کا مطلع ہے ''قید سے چھوٹ کے یثرب میں حرم آتے ہیں'' کو مراثی انیس میں شامل کیا جاتا ہے جب کہ یہ مرثیہ (یہ تحقیق ارتضیٰ عباس) میر اُنس کے شاگرد سید سرفراز علی خان تخلص سرفراز رئیس بیگن پلی (جو حیدر آباد دکن کے قریب ایک ریاست ہے) کا ہے۔ ہم بھی بچپن سے والدہ کی ابیاض سے اس مرثیے کو پڑھتے رہے اور میر انیس ہی کا سمجھتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرفراز نے اپنے استاد میر انیس اور ان کے صاحبزادے سید محمد ہادی جن کا تخلص وحید تھا اور خود اپنے مرثیے ریحان غم کے نام سے دو جلدوں میں شایع کرائے تھے جن میں خود سرفراز کے چھ مراثی شامل ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو مراثی کہنے پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ زبان سادہ و سلیس ہے روایات لکھنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ سلام تضمین اور غزل میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
اُنس کے آخری زمانے کے شاگرد سید فضل رسول فضل کے بارے میں مصنف کو خاصا مواد دستیاب ہوگیا کیونکہ فضل کے بھتیجے سید اظہر حسین انھی کے محلے میں رہتے تھے زیادہ تر معلومات انھی کے ذریعے حاصل کیں اور غیر مطبوعہ کلام بھی ان کے پاس موجود تھا۔ فضل نے ''ہفت بند زہرا'' میں اپنے حالات تحریر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھوں نے کم ازکم تیس مراثی تصنیف کیے تھے۔
جناب اظہر حسین کے مطابق یہ مراثی جب کہ طباعت کے لیے تیار تھے چوری ہوگئے جن کا فضل کو ہمیشہ قلق رہا البتہ اس کے بعد کہے گئے دس گیارہ مراثی محفوظ ہیں جو مصنف نے حاصل کرلیے ہیں۔ فضل نے مراثی کے علاوہ ہفت بند زہرا، ہفت بند امام آخر الزماں، سلام و نوحہ، رباعیات و قصائد وغیرہ میں بھی کافی کلام یادگار چھوڑا ہے۔ فضل اُنس کے شاگرد تو تھے ہی مگر یہ سلسلہ شاگردی صرف دو سال جاری رہ سکا کہ استاد کا انتقال ہوگیا۔
فضل کو اپنی اس شاگردی پر فخر بھی رہا اور مدت دراز تک استاد سے استفادہ نہ ہونے کا قلق بھی۔ فضل ایک ہندو شاعرہ روپ کماری کنوار کے استاد بھی تھے جو رثائی کلام ہی کہتی تھیں۔ فضل اس کے مراثی پر اصلاح دیتے تھے اس کا نام انھوں نے کنیز فاطمہ زہرا رکھا تھا۔ اس شاعرہ پر ڈاکٹر تقی عابدی نے ایک کتاب بھی مرتب کی ہے اس میں کچھ اغلاط تھیں جو متذکرہ کتاب میں دور کی گئی ہیں۔ فضل نے تین مناجات اپنے فرزند اور اہلیہ کی صحت یابی اور روپ کماری کے مشکل حالات پر بھی ایک مناجات لکھی تھی۔ دیگر شاگردان اُنس کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتی مگر فضل رسول کے خانوادے سے کیونکہ میرا براہ راست تعلق ہے کہ وہ میری ساس کے دادا تھے لہٰذا ارتضیٰ عباس کو ان کی اولاد کے سلسلے میں کچھ غلط اطلاعات ملی ہیں۔
فضل رسول کی ایک بیٹی خیرالنسا جن کا عقد سید سجاد حسین (جج پھرتیور) کے بڑے صاحبزادے سے ہوا تھا کے چار بیٹے اور ایک بیٹی رشیدہ بانو تھیں ان سب کا انتقال ہوچکا ہے البتہ ان کی اولادیں فیڈرل بی ایریا اور ڈیفنس میں مقیم ہیں جب کہ فضل رسول کے بیٹے محمد عباس جن کی شادی جج صاحب (پھرتیور) کی صاحبزادی خورشید بانو عرف سلطانہ سے ہوئی جو عین عالم جوانی میں 22 برس کی عمر میں 9 ماہ کی بچی چھوڑ کر انتقال کرگئیں یہ بچی شہر بانو المعروف تاج النسا جن کا انتقال اگست 2013ء میں ہوا کے تین بیٹے محمود جعفری، فلک جعفری، مسعود جعفری گلشن اقبال میں رہائش پذیر ہیں جب کہ بیٹی نجمہ کاظم رضا ڈیفنس میں مقیم ہیں۔ جب کہ ارتضیٰ عباس نے محمود جعفری کو خیرالنسا کے صاحبزادے قرار دیا ہے اس کے علاوہ ایک اور غلط فہمی کہ فضل رسول آخری عمر میں آنکھوں کا علاج کرانے لکھنو آئے تھے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے جواں سال فرزند کی وفات کے بعد وطن چھوڑ کر لکھنو آبسے تھے اور پھر کبھی وطن نہ گئے سوائے جج صاحب (جو ان کے سمدھی ہی نہیں سالے بھی تھے) کے یہاں عشرۂ محرم پڑھنے کے۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس کو درست کرلیا جائے گا۔
ان شاگردان اُنس کے علاوہ نگین، وحید اور مرزا ہادی حسین فیض آبادی بھی فہرست تلامذۂ اُنس میں شامل ہیں۔ نگین کا نام میر محمد علی، تاج الشعرا خطاب تھا۔ نگین کے مراثی ان کے بیٹے نے اپنے ہاتھ سے نقل کرکے دو جلدوں میں ترتیب دیے ایک جلد میں پندرہ مراثی ہیں جن میں کچھ دو سو بندوں پر بھی مشتمل ہیں۔ تین قلمی وغیر مطبوعہ مراثی ارتضیٰ عباس کے پاس محفوظ ہیں۔
نگین کے کلام کی سادگی، الفاظ کی روانی اور شگفتہ مضمون ان کے شاگرد اُنس ہونے کی واضح دلیل ہے۔ نگین کے کلام کی خصوصیات میں تعلی، رجز، صفات، مصائب، واقعہ نگاری، جذبات نگاری و منظر کشی کی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک مرثیہ کے 158 بند شامل کتاب ہیں جو ان کے شعری کمالات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔سید محمد ہادی، تخلص وحید میر مہر علی اُنس کے صاحبزادے اور شاگرد تھے۔ ڈاکٹر صفدر حسین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''اگر انھیں میر انیس کی شاگردی حاصل ہوتی اور ان کی شاعری پر جلائے انیس ہوجاتی تو پھر وحید جیسا مرثیہ گو اردو ادب میں دوسرا نظر نہ آتا۔'' (جاری ہے)