زندگی میں کامیابی حاصل کیسے کریں
اگر انسان حالات سے مایوس نہ ہو اور اس کو بدلنے کی جدوجہد جاری رکھے تو وہ لازمی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
NEW DELHI:
گزشتہ دنوں ایک کہانی نظر سے گزری۔کہانی کچھ یوں ہے، ایک کسان کا گدھا بوڑھا ہوگیا وہ محنت ومشقت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ کسان نے اس گدھے سے محنت اور مشقت لینی ترک کردی اور گدھے کو آزاد کردیا۔ ایک دن یہ گدھا کسان کے کھیت کے ایک کنوئیں میں گر گیا۔ کنواں پرانا تھا اور وہ خشک ہوچکا تھا۔ کسان نے سوچا گدھے کو کنوئیں سے نکالنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ گدھا بھی کسی کام کاج کا نہیں رہا اور کنواں بھی خشک ہوچکا ہے لہٰذا یہ موقعہ ہے کہ دونوں ہی سے نجات حاصل کرلی جائے۔ اس طرح گدھے کو بھی تکلیف سے نجات حاصل ہوجائے گی اور کنوئیں کی بھی بھرائی ہوجائے گی۔
اس نے گاؤں والوں کی مدد سے کنوئیں میں مٹی کی بھرائی شروع کردی جب گدھے نے دیکھا کہ اس پر مٹی آرہی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ کنوئیں کو بند کیا جا رہا ہے گدھے کو اپنی موت یقینی نظر آئی۔ اس نے سوچا مایوس ہونے کے بجائے زندگی بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس نے ایک ترکیب استعمال کی۔ جیسے جیسے اس پر مٹی گرتی گئی وہ مٹی کو اپنے بدن سے جھاڑ کر مٹی کے تودے پر کھڑا ہوجاتا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ زخمی ضرور ہوا لیکن کنوئیں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کہانی میں انسان کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے کہ اگر انسان حالات سے مایوس نہ ہو اور اس کو بدلنے کی جدوجہد جاری رکھے تو وہ لازمی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ایسے نوجوان جو زندگی میں مایوس اور ناکامی سے دوچار ہیں ان کے لیے چند اصول درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی ناکام زندگی کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔
سب سے پہلے وہ نوجوان اپنی منزل کا تعین کریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے کاموں کا انتخاب کریں جو ان کی روح اور ذوق سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسے کاموں کو اپنائیں جس میں ان کا طبعی رحجان، دلچسپی، قابلیت اور صلاحیت پائی جاتی ہو۔ یاد رکھیں اگر ان نوجوانوں نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تو وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ہمارے باطنی رجحانات مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں وہ اپنے سے مطابقت رکھنے والی چیزوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اگر اس کے برعکس معاملہ ہو تو ہمارا ذہن انھیں فراموش کردیتا ہے۔
منزل کے انتخاب کے بعد آپ کے اندر جذبہ جنون کا ہونا ضروری ہے۔ جذبہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہمارے اندر کی دبی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے۔ جذبہ جنون کے بغیر کسی بڑی کامیابی کا حصول ناممکن ہے یہ آپ کا بھی مشاہدہ ہوگا کہ مرغی بلی کے مقابلے میں ایک بہت کمزور جانور ہے۔ بلی جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی بلی جیسے طاقتور جانور کے مقابلے پر اتر آتی ہے۔ یہ سب ممتا کے جذبے کے تحت ہوتا ہے، اگر یہ جذبہ نہ ہو تو مرغی خوف سے راہ فرار اختیار کرے گی۔
اپنے جذبے کو بیدار کرنے کے لیے باہر کی دنیا کے ساتھ اپنے اندر کی دنیا سے بھی جنگ کیجیے۔ انڈے کو اندر سے ضرب لگائی جائے تو زندگی جنم لیتی ہے کوئلہ باہر سے جلتا ہے تو راکھ بن جاتا ہے اور اندر سے جلتا ہے تو ہیرا بن جاتا ہے۔ حالات سے خوف کے بجائے اپنے جذبے کو اپنے احساس کی قوت سے جگائیے۔
ٍدلی جذبے کے ساتھ جو بھی کام کیجیے یکسوئی کے ساتھ کیجیے۔ یکسوئی کا کامیابی کے حصول میں وہی کردار ہے جو کسی بوجھ کو اٹھانے میں لیور کا ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے تمام قوتیں ایک مرکز پر آجاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے سامنے آنے والی بڑی سے بڑی مشکلات کو اپنے راستے سے ہٹاتا چلا جاتا ہے۔
یکسوئی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے بعد جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ آپ کسی لکڑی پر کلہاڑی سے مسلسل ضرب لگاتے ہیں کچھ ضربیں لگانے کے بعد لکڑی دو ٹکڑے ہوجاتی ہے آپ آخری ضرب کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں جب کہ کامیابی آخری ضرب لگانے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ مسلسل ضربیں لگانے سے حاصل ہوئی ہے۔
مسلسل جدوجہد کے عمل میں وقت کی قدر کو جانیے آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک لمحے کی قدر و قیمت جاننا چاہتے ہیں تو آپ دوڑ کے مقابلے میں شریک عالمی چیمپئن بننے سے رہ جانے والے کھلاڑی سے معلوم کریں جو ایک لمحے کی تاخیر سے مقابلہ ہار گیا۔ ایک دن کی قدر و قیمت اس مزدور سے معلوم کریں جسے مزدوری نہ ملی ہو۔ اس لیے اپنے وقت کو ضایع نہ کریں۔ وقت کی قدر کریں۔
اکثر نوجوان لوگوں کے غلط برتاؤ اور رویے پر دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے دنیا آپ کے ساتھ اسی انداز سے پیش آئے گی جو انداز آپ اپنا کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی صحت، لباس، انداز گفتگو، بالخصوص اپنی باڈی لینگویج پر خصوصی توجہ دیں۔ اپنی خود اعتمادی، عزت نفس اور وقار پر اگر کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت سمجھوتہ کرنا پڑے تو کسی حد تک کرلیں، لیکن بصورت دیگر کسی صورت میں ان پر سمجھوتہ نہ کریں بلکہ ان کا خیال رکھیں۔
کام دو طرح سے کیے جاسکتے ہیں، ایک وہ کام ہوتے ہیں جن میں محنت بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن نتائج کم آتے ہیں، ایسے کام کو '' ہارڈ ورک'' کہا جاتا ہے۔ ایک کام وہ ہوتے ہیں جن میں محنت کم درکار ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج زیادہ ہوتے ہیں، انھیں اصطلاح میں ''اسمارٹ ورک'' کہا جاتا ہے۔ جب بھی آپ اپنے کام کو انجام دیں اسمارٹ ورک کے اصول کو اپنائیں یہ اسی صورت میں ہوگا جب آپ جذبات یعنی دل کے ساتھ ذہن یعنی دماغ کا بھی استعمال کریں گے۔
دنیا میں ہر چیز اپنی الٹ یعنی ضد کے ساتھ پیدا ہوئی ہے یہی وجہ ہے جب آپ کوئی مثبت یا تعمیری کام کرتے ہیں تو اس کی مخالفت کرنے والے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان سے گھبرائیں نہیں، انھیں یقین کی قوت سے شکست دیں۔ یقین ایک ایسا سرمایہ ہے جس کی بدولت انسان زندگی کے سخت سے سخت لمحات میں بھی اپنی جدوجہد اور کوششوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔
زندگی کے کسی مقام پر ناکامی سے دوچار ہوں تو اس پر آنسو نہ بہائیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا سیکھیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتی نتیجہ غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں اور تباہی کے دہانے پر آجاتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا انجام دراصل کسی آغاز کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے ناکامی کی صورت میں ہمیں نہ صرف اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیئیں بلکہ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے کی جانب دوبارہ سفر کو جاری رکھنا چاہیے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ دنیا کے نامور لوگوں نے اپنی مشکلات اور ناکامیوں کے بعد ہی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ ایک ہزار میل کا سفر کا آغاز انسان کے پہلے قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے اس کہاوت کی روشنی میں اپنے کام کا آغاز کیجیے اپنی منزل کی جانب پہلا قدم اس یقین اور ایمان کے ساتھ اٹھائیے کہ خدا تعالیٰ کسی بھی انسان کی اخلاص کے ساتھ کی جانے والی محنت کو کبھی ضایع نہیں کرتا۔
گزشتہ دنوں ایک کہانی نظر سے گزری۔کہانی کچھ یوں ہے، ایک کسان کا گدھا بوڑھا ہوگیا وہ محنت ومشقت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ کسان نے اس گدھے سے محنت اور مشقت لینی ترک کردی اور گدھے کو آزاد کردیا۔ ایک دن یہ گدھا کسان کے کھیت کے ایک کنوئیں میں گر گیا۔ کنواں پرانا تھا اور وہ خشک ہوچکا تھا۔ کسان نے سوچا گدھے کو کنوئیں سے نکالنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ گدھا بھی کسی کام کاج کا نہیں رہا اور کنواں بھی خشک ہوچکا ہے لہٰذا یہ موقعہ ہے کہ دونوں ہی سے نجات حاصل کرلی جائے۔ اس طرح گدھے کو بھی تکلیف سے نجات حاصل ہوجائے گی اور کنوئیں کی بھی بھرائی ہوجائے گی۔
اس نے گاؤں والوں کی مدد سے کنوئیں میں مٹی کی بھرائی شروع کردی جب گدھے نے دیکھا کہ اس پر مٹی آرہی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ کنوئیں کو بند کیا جا رہا ہے گدھے کو اپنی موت یقینی نظر آئی۔ اس نے سوچا مایوس ہونے کے بجائے زندگی بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس نے ایک ترکیب استعمال کی۔ جیسے جیسے اس پر مٹی گرتی گئی وہ مٹی کو اپنے بدن سے جھاڑ کر مٹی کے تودے پر کھڑا ہوجاتا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ زخمی ضرور ہوا لیکن کنوئیں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس کہانی میں انسان کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے کہ اگر انسان حالات سے مایوس نہ ہو اور اس کو بدلنے کی جدوجہد جاری رکھے تو وہ لازمی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ایسے نوجوان جو زندگی میں مایوس اور ناکامی سے دوچار ہیں ان کے لیے چند اصول درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی ناکام زندگی کو کامیابی میں بدل سکتے ہیں۔
سب سے پہلے وہ نوجوان اپنی منزل کا تعین کریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے کاموں کا انتخاب کریں جو ان کی روح اور ذوق سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ایسے کاموں کو اپنائیں جس میں ان کا طبعی رحجان، دلچسپی، قابلیت اور صلاحیت پائی جاتی ہو۔ یاد رکھیں اگر ان نوجوانوں نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تو وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ہمارے باطنی رجحانات مقناطیس کی طرح ہوتے ہیں وہ اپنے سے مطابقت رکھنے والی چیزوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اگر اس کے برعکس معاملہ ہو تو ہمارا ذہن انھیں فراموش کردیتا ہے۔
منزل کے انتخاب کے بعد آپ کے اندر جذبہ جنون کا ہونا ضروری ہے۔ جذبہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہمارے اندر کی دبی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے۔ جذبہ جنون کے بغیر کسی بڑی کامیابی کا حصول ناممکن ہے یہ آپ کا بھی مشاہدہ ہوگا کہ مرغی بلی کے مقابلے میں ایک بہت کمزور جانور ہے۔ بلی جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے تو مرغی بلی جیسے طاقتور جانور کے مقابلے پر اتر آتی ہے۔ یہ سب ممتا کے جذبے کے تحت ہوتا ہے، اگر یہ جذبہ نہ ہو تو مرغی خوف سے راہ فرار اختیار کرے گی۔
اپنے جذبے کو بیدار کرنے کے لیے باہر کی دنیا کے ساتھ اپنے اندر کی دنیا سے بھی جنگ کیجیے۔ انڈے کو اندر سے ضرب لگائی جائے تو زندگی جنم لیتی ہے کوئلہ باہر سے جلتا ہے تو راکھ بن جاتا ہے اور اندر سے جلتا ہے تو ہیرا بن جاتا ہے۔ حالات سے خوف کے بجائے اپنے جذبے کو اپنے احساس کی قوت سے جگائیے۔
ٍدلی جذبے کے ساتھ جو بھی کام کیجیے یکسوئی کے ساتھ کیجیے۔ یکسوئی کا کامیابی کے حصول میں وہی کردار ہے جو کسی بوجھ کو اٹھانے میں لیور کا ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے تمام قوتیں ایک مرکز پر آجاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے سامنے آنے والی بڑی سے بڑی مشکلات کو اپنے راستے سے ہٹاتا چلا جاتا ہے۔
یکسوئی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کے بعد جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ آپ کسی لکڑی پر کلہاڑی سے مسلسل ضرب لگاتے ہیں کچھ ضربیں لگانے کے بعد لکڑی دو ٹکڑے ہوجاتی ہے آپ آخری ضرب کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں جب کہ کامیابی آخری ضرب لگانے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ مسلسل ضربیں لگانے سے حاصل ہوئی ہے۔
مسلسل جدوجہد کے عمل میں وقت کی قدر کو جانیے آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک لمحے کی قدر و قیمت جاننا چاہتے ہیں تو آپ دوڑ کے مقابلے میں شریک عالمی چیمپئن بننے سے رہ جانے والے کھلاڑی سے معلوم کریں جو ایک لمحے کی تاخیر سے مقابلہ ہار گیا۔ ایک دن کی قدر و قیمت اس مزدور سے معلوم کریں جسے مزدوری نہ ملی ہو۔ اس لیے اپنے وقت کو ضایع نہ کریں۔ وقت کی قدر کریں۔
اکثر نوجوان لوگوں کے غلط برتاؤ اور رویے پر دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے دنیا آپ کے ساتھ اسی انداز سے پیش آئے گی جو انداز آپ اپنا کر خود کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی صحت، لباس، انداز گفتگو، بالخصوص اپنی باڈی لینگویج پر خصوصی توجہ دیں۔ اپنی خود اعتمادی، عزت نفس اور وقار پر اگر کسی سیاسی حکمت عملی کے تحت سمجھوتہ کرنا پڑے تو کسی حد تک کرلیں، لیکن بصورت دیگر کسی صورت میں ان پر سمجھوتہ نہ کریں بلکہ ان کا خیال رکھیں۔
کام دو طرح سے کیے جاسکتے ہیں، ایک وہ کام ہوتے ہیں جن میں محنت بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن نتائج کم آتے ہیں، ایسے کام کو '' ہارڈ ورک'' کہا جاتا ہے۔ ایک کام وہ ہوتے ہیں جن میں محنت کم درکار ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج زیادہ ہوتے ہیں، انھیں اصطلاح میں ''اسمارٹ ورک'' کہا جاتا ہے۔ جب بھی آپ اپنے کام کو انجام دیں اسمارٹ ورک کے اصول کو اپنائیں یہ اسی صورت میں ہوگا جب آپ جذبات یعنی دل کے ساتھ ذہن یعنی دماغ کا بھی استعمال کریں گے۔
دنیا میں ہر چیز اپنی الٹ یعنی ضد کے ساتھ پیدا ہوئی ہے یہی وجہ ہے جب آپ کوئی مثبت یا تعمیری کام کرتے ہیں تو اس کی مخالفت کرنے والے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان سے گھبرائیں نہیں، انھیں یقین کی قوت سے شکست دیں۔ یقین ایک ایسا سرمایہ ہے جس کی بدولت انسان زندگی کے سخت سے سخت لمحات میں بھی اپنی جدوجہد اور کوششوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔
زندگی کے کسی مقام پر ناکامی سے دوچار ہوں تو اس پر آنسو نہ بہائیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا سیکھیں۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتی نتیجہ غلطی پر غلطی کرتے چلے جاتے ہیں اور تباہی کے دہانے پر آجاتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا انجام دراصل کسی آغاز کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے ناکامی کی صورت میں ہمیں نہ صرف اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیئیں بلکہ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے کی جانب دوبارہ سفر کو جاری رکھنا چاہیے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ دنیا کے نامور لوگوں نے اپنی مشکلات اور ناکامیوں کے بعد ہی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
چینی کہاوت ہے کہ ایک ہزار میل کا سفر کا آغاز انسان کے پہلے قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے اس کہاوت کی روشنی میں اپنے کام کا آغاز کیجیے اپنی منزل کی جانب پہلا قدم اس یقین اور ایمان کے ساتھ اٹھائیے کہ خدا تعالیٰ کسی بھی انسان کی اخلاص کے ساتھ کی جانے والی محنت کو کبھی ضایع نہیں کرتا۔