پاکستان میں اقلیتوں کیخلاف تشدد پسندی پہلا حصہ

2012 میں شیعہ کمیونٹی کے 502 افراد محض ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں تو 2013 کا سورج بھی تیرہ بختی کا مژدہ لایا ہے۔


گوہر تاج February 25, 2013

وہ سال تھا 1984 کا، سندھ مدرسۃ الاسلام (ایس ایم سائنس) کالج کراچی کے عین مقابل کا گنجان علاقہ، وہیں جہاں مشہور و معروف بندر روڈ کے کشادہ مضبوط سینے پر ہر لمحہ سیکڑوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ یہ اسی شہر کراچی کا ذکر ہے کہ جس کی آغوش پاکستان کے ہر خطے سے آنے والے مختلف النسل، قوم، مذہب اور زبان بولنے والوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے، وہیں ایک ذہنی توازن سے عاری بوڑھا راہگیر ان لڑکیوں کو فحش گالیاں دیتا ہوا پایا جاتا تھا کہ جن کے سر ڈھکے ہوئے نہیں ہوتے تھے، وہ جو مغلظات بکتا تھا یہ قلم اس کو بیان کرنے کا متحمل نہیں۔ لیکن اس وقت اس خبط الحواس شخص کی آواز کا ساتھ دینے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔

تاہم وقت نے ثابت کیا کہ آمریت کے اس دور میں ڈنڈے کے زور پر اسلام پھیلانے والوں نے وطن کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلانی شروع کردی تھیں اور بتدریج پھیلتے مذہبی کٹر پن نے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے درمیان تعصب کی اس آگ کو خوب بھڑکایا، جس نے گزشتہ تین دہائیوں سے اقلیتی فرقوں کو اپنی لپیٹ میں کچھ اس طرح لیا ہے کہ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تشدد کی حالیہ فضا میں عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے دم سادھے بیٹھے ہیں اور بیوروکریسی کا تو کہنا ہی کیا کہ جس نے لیلائے وطن کو جاگیرداروں اور سامراجی دلالوں کی اقتدار کی ہوس کی بھینٹ چڑھاکر عزت کو تار تار کردیا ہے۔

2012 میں شیعہ کمیونٹی کے 502 افراد محض ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں تو 2013 کا سورج بھی تیرہ بختی کا مژدہ لایا ہے۔ ابتدائی چند ہفتوں میں دو حملوں (10 جنوری اور 16 فروری) کے نتیجے میں بلوچستان صوبے کے ہزارہ برادری کے دو سو سے زیادہ افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے ہیں۔ ان دونوں حملوں کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔

یہ ہر ایک سمت پر شرار کڑی دیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
ہے ہر ایک گام پہ ان خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پرتوں سے چراغ ہیں ہزاروں کے دماغ
(فیض احمد فیض)

16 فروری 2013 کو ہونے والا تازہ سانحہ دہشت گردی کے ان خون آشام واقعات کا تسلسل ہے جن کا شکار پاکستان میں بسنے والے اقلیتی فرقے کے افراد ہیں۔ آج عبادت گاہوں پر حملے اور بم دھماکے قوم میں مسلسل جانی، معاشی اور جذباتی عدم تحفظ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یوں تو دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، جس میں تشدد کا عمل کبھی کسی خاص گروہ کو ہجرت پر مجبور کرتا ہے، جیساکہ پندرہویں صدی میں اسپین کے عیسائیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کو ملک بدر کیا تو کبھی نسل کشی کی صورت اختیار کرتا ہے۔

نسل کشی اکثریت کے ہاتھوں اقلیت کا بڑے پیمانے پر قتل کا عمل ہے۔ پاکستان میں ہونے والی نسل کشی کی مثالیں ہمیں ماضی میں بھی ملتی ہیں مثلاً نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی یا 1990 میں بوسنیا میں دو لاکھ مسلمانوں کا عیسائیوں کے ہاتھوں قتل۔ پاکستان میں محض ہزارہ کے علاقے میں ایک دہائی کے عرصے میں ایک ہزار افراد مارے گئے اور دو لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

اقلیت کا لفظ پہلی بار پاکستان کے دستور میں بغیر کسی واضح تعریف کے شامل ہوا۔ تاہم فیڈرل حکومتوں میں اس کو مذہب کے حوالے سے ہی شمار کیا گیا۔ یعنی پچھتر فی صد سنی اکثریت کے مقابلے میں دیگر اقوام۔ یہ اقلیتیں ہمیشہ سے ہی پاکستان کی شہری تھیں، مگر پاکستان کی پیدائش سے آج تک کے عرصے میں تعصب اور اقلیتوں کے خلاف تشدد نے شدت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب سیدھا سا نہیں، یقیناً اس کے محرکات کے کئی عوامل مل رہے ہوں گے۔ مثلاً غربت، جہالت، ترقی کی کمی، جاگیرداری نظام، سماجی اور سیاسی نظام، جغرافیائی حدود، تاریخ، ثقافت وغیرہ کہ جس نے نفرت کی نمو کے نتیجے میں زہریلا ثمر اگایا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اگر پاکستان کی تاریخ کے صفحات پلٹیں تو مذہب کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس مملکت کی آفرینش میں جو خون خرابہ ہوا انسانی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ تقسیم کے وقت (1947) دونوں حصوں کی ہجرت ''بدترین خونی'' ہجرت قرار پائی جس میں ہندو، مسلمان اور سکھوں کی اموات کی تعداد پانچ لاکھ سے سات لاکھ پچاس ہزار کے درمیان تھی۔ پچھتر ہزار عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوئیں اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کی گئی۔

حالانکہ 14 اگست 1947 سے تین دن پہلے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ بات واضح کی تھی کہ پاکستان کے خطے کے تمام افراد اپنے مندروں، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حق بنیادی انسانی اصول کی بنیاد پر تھا کہ ریاست کے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔ تاہم پاکستان بننے کے بعد مولویوں اور پیروں کے گروہ نے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔ یوں 1951 میں علما نے 23 نکاتی اسلامی ایجنڈے پر دستخط کیے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس وقت وہ اس بات پر متفق نہیں ہوسکے تھے کہ ''مسلمان'' کی تعریف کیا ہے۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے کہ 1953 میں پنجاب میں مسلم لیگ لیڈروں کی قیادت میں تحریک چلی جس میں ہونے والے فسادات میں کئی سو جانیں ضایع ہوئیں ۔ ابتدائی دستور کی دستاویز میں غیر مسلموںکو مذہبی امور کی انجام دہی کی آزادی حاصل تھی جو 1956، 1962 اور 1973 تک بھی قائم تھی۔

مسخ ہوتی جمہوریت اور مذہبی رواداری کے تابوت پر اقلیتوں کے خلاف تعصب کی کیل جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے ہاتھوں اسلامائزیشن کی صورت ٹھونکی گئی۔ 1977 میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد ''اسلامی نظام'' کی بنیاد رکھتے ہوئے ضیاء نے فرمایا ''مجھے اﷲ کی جانب سے یہ مشن سونپا گیا ہے کہ میں پاکستان میں اسلامی احکامات نافذ کروں''۔ اس طرح قائد اعظم کے سیکولر ریاست کے برخلاف 1979 میں حدود آرڈیننس اور 1984 میں دیت (عورت کی آدھی گواہی) کا آرڈیننس قانون کا حصہ بنا۔ واضح رہے کہ اس قانون کے بعد کے برسوں میں عزت کے نام پر اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں عورتوں کے قتل کے واقعات میں ایک دم ہی اضافہ ہوگیا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں