میں دہشت گرد تو وزیر کیوں ہوں ریاض حسین پیرزادہ بھڑک اٹھے
ہم 37 ارکان پردہشت گردوں سے روابط کاالزام لگایا، پیمرا کوخط کافی نہیں، تحقیقات ہونا چاہیے، وزیربین الصوبائی رابطہ
KARACHI:
قومی اسمبلی میں وفاقی وزیربین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ 37 ارکان پارلیمنٹ کے دہشت گردوں سے تعلقات کے حوالے سے انٹیلی جنس بیورو کی مبینہ فہرست کے معاملے پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑے اور احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کردیا جبکہ بعض دیگر وزرا اور حکومتی اراکین نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
گزشتہ روز نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ہم37 ارکان پارلیمنٹ پر دہشت گردوں سے رابطے کا الزام لگایا گیا ہےمیں نے یہ بات وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے سامنے بھی اٹھائی تھی اور آج پارلیمنٹ میں بھی کر رہا ہوں تاکہ سب ریکارڈ پر آجائے، یہ خط منظر عام پر آنے کے بعد مجھے اور میرے خاندان کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہورہے ہیں، بدقسمتی سے اس فہرست کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے اس طرح کی کارروائی نہیں کی جیسی کی جانا چاہیے تھی، آئی بی کی طرف سے اس مبینہ فہرست پر پیمرا کو لکھا جانیوالا خط کافی نہیں ہے بلکہ تحقیقات ہونا چاہیے کہ اس فہرست کو سامنے لانے کے ذمہ داران کون ہیں، وزیراعظم کو انکوائری کرنا چاہیے۔
ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ جن کے ہم حاشیہ بردار اور خوشامدی بنے ہوئے ہیں اور جن کے کاموں کو ہم معجزے بناکر پیش کرتے ہیں وہ ہی ہمارے خلاف انٹیلی جنس اداروں سے خط کے ذریعے فہرست منگواتے ہیں، اگر میرے دہشت گرد گروپوں کیساتھ تعلقات ہیں تو میں وزیر کیوں ہوں، ہم عوام کے نمائندے ہیں، ہمیں دہشتگرد کہہ کر ہماری تذلیل نہ کی جائے، انہوں نے واضح کیا کہ جو فہرست سامنے آئی ہے ان میں مرتضیٰ جاوید عباسی، راجا جاوید اخلاص، غلام بی بی بھروانہ، چوہدری ارمغان سبحانی، طارق محمود، شازیہ مبشر، چوہدری بلال ورک، محمد معین وٹو، عبدالرحمان کانجو، سکندر حیات خان بوسن، محمد خان ڈھاہا، سید اطہر حسین گیلانی، حافظ عبدالکریم، سردار اویس احمد خان لغاری، جمال خان لغاری، سردار جعفر خان لغاری، ڈاکٹر حفیظ خان، میاں بلیغ الرحمان، طاہر بشیر چیمہ، سید علی حسن گیلانی، ریاض حسین پیرزادہ، سید محمد اصغر شاہ، محمد خسرو بختیار، شیخ فیاض الدین، میاں امتیاز احمد اور سید ایاز علی شاہ شیرازی سمیت 37 ممبران شامل ہیں، وضاحت دی جائے وزیراعظم ہاؤس سے خط کیسے جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کوئی ذمے دار وزیر اس پر بیان جاری نہیں کرتا، میں ایوان کا حصہ نہیں بنوںگا، میڈیا اور انٹیلی جنس اداروں سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں۔
وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہاکہ وزیراعظم نے میرے ذمے لگایا تھا کہ اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے، ڈی جی آئی بی سے تصدیق کی تو انھوں نے بتایا کہ رپورٹ نہ صرف جعلی ہے بلکہ وزیراعظم آفس کا تذکرہ بھی جھوٹا ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے ریاض پیرزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے وضاحت کی کہ آئی بی چیف اس خط کو جعلی قرار دے چکے ہیں اور آئی بی نے اس حوالے سے پیمرا میں شکایت بھی درج کرائی ہوئی ہے۔ اس معاملے پر اگر آپ کے کوئی مزید تحفظات ہیں تو آج جمعہ کو ڈی جی آئی بی کو بلوا لیں گے۔
ریاض پیرزادہ نے کہا کہ میرا مطالبہ ہے کہ کوئی سینئر وزیر یا وزیر داخلہ ایوان میں آکر یہ بیان دیں کہ خط کے حوالے سے وزیراعظم آفس نے کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کہاکہ ڈی جی آئی بی نے اس پر باقاعدہ شکایت پیمرا کو دیدی ہے، ڈپٹی اسپیکر، ممبران اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین محمد اسلم بودلہ نے بھی پیمرا میں شکایت کی ہے تاہم اس کے باوجود ریاض پیرزادہ نے ایوان سے واک آؤٹ کیا جس پر چند دیگر وزرا اور ارکان پارلیمنٹ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی ہدایت پر وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان اور وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری واک آؤٹ کرنیوالے وزرا اور ارکان کو منا کر واپس لائے۔
اس دوران اپوزیشن اراکین نے حکومتی اراکین کے واک آؤٹ پر ڈیسک بجائے اور نعرے بازی کی۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ ایک وفاقی وزیر اپنی ہی حکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کرگئے ہیں۔
ن لیگ کی ڈاکٹر شذرہ منصب علی نے کہاکہ فہرست میں میرا نام بھی شامل ہے، ایسے اقدامات سے ہماری بدنامی ہو رہی ہے، ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے کیلیے مختلف ممالک گئے ہیں، ان کے ویزوں کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق بائیکات میں ریاض پیرزادہ کا ساتھ دینے والے حکمراں جماعت کے وہ ارکان شامل تھے جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ان کے نام اس مبینہ فہرست میں شامل ہیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق بعدازاں ڈی جی آئی بی نے اسپیکر سردار ایاز صادق سے ملاقات کی اور آئی بی کی جانب سے مبینہ خط کو مسترد کرتے ہوئے کہاگیا کہ سوشل میڈیا پر موجود خط کا آئی بی سے کوئی تعلق نہیں۔
قومی اسمبلی میں وفاقی وزیربین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ 37 ارکان پارلیمنٹ کے دہشت گردوں سے تعلقات کے حوالے سے انٹیلی جنس بیورو کی مبینہ فہرست کے معاملے پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑے اور احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کردیا جبکہ بعض دیگر وزرا اور حکومتی اراکین نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
گزشتہ روز نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ہم37 ارکان پارلیمنٹ پر دہشت گردوں سے رابطے کا الزام لگایا گیا ہےمیں نے یہ بات وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کے سامنے بھی اٹھائی تھی اور آج پارلیمنٹ میں بھی کر رہا ہوں تاکہ سب ریکارڈ پر آجائے، یہ خط منظر عام پر آنے کے بعد مجھے اور میرے خاندان کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہورہے ہیں، بدقسمتی سے اس فہرست کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے اس طرح کی کارروائی نہیں کی جیسی کی جانا چاہیے تھی، آئی بی کی طرف سے اس مبینہ فہرست پر پیمرا کو لکھا جانیوالا خط کافی نہیں ہے بلکہ تحقیقات ہونا چاہیے کہ اس فہرست کو سامنے لانے کے ذمہ داران کون ہیں، وزیراعظم کو انکوائری کرنا چاہیے۔
ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ جن کے ہم حاشیہ بردار اور خوشامدی بنے ہوئے ہیں اور جن کے کاموں کو ہم معجزے بناکر پیش کرتے ہیں وہ ہی ہمارے خلاف انٹیلی جنس اداروں سے خط کے ذریعے فہرست منگواتے ہیں، اگر میرے دہشت گرد گروپوں کیساتھ تعلقات ہیں تو میں وزیر کیوں ہوں، ہم عوام کے نمائندے ہیں، ہمیں دہشتگرد کہہ کر ہماری تذلیل نہ کی جائے، انہوں نے واضح کیا کہ جو فہرست سامنے آئی ہے ان میں مرتضیٰ جاوید عباسی، راجا جاوید اخلاص، غلام بی بی بھروانہ، چوہدری ارمغان سبحانی، طارق محمود، شازیہ مبشر، چوہدری بلال ورک، محمد معین وٹو، عبدالرحمان کانجو، سکندر حیات خان بوسن، محمد خان ڈھاہا، سید اطہر حسین گیلانی، حافظ عبدالکریم، سردار اویس احمد خان لغاری، جمال خان لغاری، سردار جعفر خان لغاری، ڈاکٹر حفیظ خان، میاں بلیغ الرحمان، طاہر بشیر چیمہ، سید علی حسن گیلانی، ریاض حسین پیرزادہ، سید محمد اصغر شاہ، محمد خسرو بختیار، شیخ فیاض الدین، میاں امتیاز احمد اور سید ایاز علی شاہ شیرازی سمیت 37 ممبران شامل ہیں، وضاحت دی جائے وزیراعظم ہاؤس سے خط کیسے جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کوئی ذمے دار وزیر اس پر بیان جاری نہیں کرتا، میں ایوان کا حصہ نہیں بنوںگا، میڈیا اور انٹیلی جنس اداروں سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں۔
وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہاکہ وزیراعظم نے میرے ذمے لگایا تھا کہ اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے، ڈی جی آئی بی سے تصدیق کی تو انھوں نے بتایا کہ رپورٹ نہ صرف جعلی ہے بلکہ وزیراعظم آفس کا تذکرہ بھی جھوٹا ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے ریاض پیرزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے وضاحت کی کہ آئی بی چیف اس خط کو جعلی قرار دے چکے ہیں اور آئی بی نے اس حوالے سے پیمرا میں شکایت بھی درج کرائی ہوئی ہے۔ اس معاملے پر اگر آپ کے کوئی مزید تحفظات ہیں تو آج جمعہ کو ڈی جی آئی بی کو بلوا لیں گے۔
ریاض پیرزادہ نے کہا کہ میرا مطالبہ ہے کہ کوئی سینئر وزیر یا وزیر داخلہ ایوان میں آکر یہ بیان دیں کہ خط کے حوالے سے وزیراعظم آفس نے کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کہاکہ ڈی جی آئی بی نے اس پر باقاعدہ شکایت پیمرا کو دیدی ہے، ڈپٹی اسپیکر، ممبران اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین محمد اسلم بودلہ نے بھی پیمرا میں شکایت کی ہے تاہم اس کے باوجود ریاض پیرزادہ نے ایوان سے واک آؤٹ کیا جس پر چند دیگر وزرا اور ارکان پارلیمنٹ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی ہدایت پر وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان اور وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری واک آؤٹ کرنیوالے وزرا اور ارکان کو منا کر واپس لائے۔
اس دوران اپوزیشن اراکین نے حکومتی اراکین کے واک آؤٹ پر ڈیسک بجائے اور نعرے بازی کی۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ ایک وفاقی وزیر اپنی ہی حکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کرگئے ہیں۔
ن لیگ کی ڈاکٹر شذرہ منصب علی نے کہاکہ فہرست میں میرا نام بھی شامل ہے، ایسے اقدامات سے ہماری بدنامی ہو رہی ہے، ہمارے بچے تعلیم حاصل کرنے کیلیے مختلف ممالک گئے ہیں، ان کے ویزوں کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق بائیکات میں ریاض پیرزادہ کا ساتھ دینے والے حکمراں جماعت کے وہ ارکان شامل تھے جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ان کے نام اس مبینہ فہرست میں شامل ہیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق بعدازاں ڈی جی آئی بی نے اسپیکر سردار ایاز صادق سے ملاقات کی اور آئی بی کی جانب سے مبینہ خط کو مسترد کرتے ہوئے کہاگیا کہ سوشل میڈیا پر موجود خط کا آئی بی سے کوئی تعلق نہیں۔