لوکل گورنمنٹ آرڈیننس چوتھی باربحال
اگر پیپلزپارٹی 1979 کا بلدیاتی نظام بحال نہ کرتی تو اس کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوجاتا۔
سندھ میں ایک بار پھر کمشنری اور بلدیاتی نظام کے تنازع پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی نے صوبے میں 1979ء والا کمشنری نظام بحال کردیا ہے۔
سندھ اسمبلی نے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو ختم کردیا۔ یہ وہی نظام ہے جو پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے طویل غوروخوض کے بعد 5 ماہ قبل متعارف کرایا تھا یہ وہی بلدیاتی نظام ہے جس کے خلاف فنکشنل لیگ، اے این پی اور قوم پرست جماعتیں زبردست احتجاج کررہی تھیں، جب کہ پیپلزپارٹی کے اکثر ارکانِ اسمبلی اور رہنماؤں نے شد ومد سے اس کا دفاع کیا تھا۔ سندھ کے لیے اسے بہترین نظام قرار دیا گیا تھا لیکن اب یہ نہیں بتایا گیا کہ اس بہترین حل کو اچانک ختم کیوں کیا گیا ہے؟
اگرچہ ایم کیو ایم نے اس اقدام کے خلاف بظاہر سخت احتجاج کیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ ایم کیو ایم کی حکومت سے اچانک علیحدگی کو طے شدہ منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ایم کیو ایم ماضی میں بھی حکومت سے علیحدہ ہوتی رہی ہے، لیکن اس دفعہ وہ حکومت سے الگ ہوئی تو ماضی کی طرح شدید رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی جناب الطاف حسین نے حکومت کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماضی میں ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کی دھمکیوں پر ہی حکومتی ارکان کی دوڑیں لگ جاتیں۔ بالخصوص جناب رحمن ملک فوراً لندن پہنچ کر صدر زرداری کا 'خصوصی پیغام' پہنچاتے اور ان کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کروا کر انھیں حکمران اتحاد میں رہنے پر راضی کرلیتے۔ اس بار حکومت کی طرف سے بھی ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب سندھ اسمبلی میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس واپس لینے اور 1979 کا پرانا بلدیاتی نظام لانے کا بل منظور ہوا تو اس کے بعد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد لندن روانہ ہوگئے جس کے باعث 1979 کے بلدیاتی نظام کی منظوری قائم مقام گورنر سندھ نثار کھوڑو نے دی۔ ان اقدامات سے بھی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر مفاہمت کا تاثر ملتا ہے۔
اسی طرح سندھ اسمبلی میں موجود تین اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے صوبے میں کمشنری نظام کی بحالی کو ڈراما قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام صوبے کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان ہونے والی ملی بھگت کا حصہ ہے۔ چند ہی دن قبل کی بات ہے کہ ایم کیو ایم نے اعلان کیا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت سے علیحدہ ہورہی ہے اور حکومت چھوڑ کر حزب اختلاف میں بیٹھے گی۔ جمعرات کو پیپلزپارٹی نے بھی ایک سرپرائز دیا اس نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو ختم کرکے سب کو چونکا دیا۔ اس وقت بظاہر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق دونوں جماعتیں اندر سے کہیں نہ کہیں ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ انتخابات کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں اور اس پیش رفت کو الیکشن کے تناظر میں دیکھیں تو بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔ہر سیاسی جماعت کو اپنی وقعت معلوم ہے کہ اسے الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
یہ بات طے ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو انتخابات میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی اور اس حکومت میں 5 سال سے شامل جماعت کی حیثیت سے اپنے ووٹروں کے پاس نہ جائے۔ اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم حزب اختلاف کی جماعت کی حیثیت سے انتخابات لڑے گی اور یہ اقدام انتخابات میں کامیابی اور اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے اٹھایا گیا۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے ساتھ انتخابی میدان میں اترتی۔ کیوں کہ یہ قانون سندھ کی تقسیم کا ماخذ سمجھا جارہا تھا۔ اس کے خلاف فنکشنل لیگ اور قوم پرست جماعتیں ایک عرصے سے احتجاجی تحریک چلارہی تھیں۔ ہڑتالیں اور دھرنے بھی دیے گئے۔ عام سندھیوں کی اکثریت نے بھی پیپلزپارٹی کے اس اقدام کو سندھ دشمنی سے تعبیر کیا۔ اس لیے یہ پیپلزپارٹی کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا تھا۔
اگر پیپلزپارٹی 1979 کا بلدیاتی نظام بحال نہ کرتی تو اس کے لیے انتخابی مہم چلانا مشکل ہوجاتا۔ پیپلزپارٹی کو اس پر اندرون سندھ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ پارٹی کے سینئر رہنما بھی اس قانون سے ناخوش تھے، لہٰذا قیادت کے اوپر اندر سے بھی دباؤ تھا کہ اسے ختم کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے 1979 والا بلدیاتی نظام بحال کرنے سے اس کی مخالف جماعتوں سے ایک بہت بڑا الیکشن سلوگن چھن گیا ورنہ پیر پگارا اور قوم پرست جماعتیں اس سلوگن کے ساتھ انتخابی میدان سجاتیں جن کا نقصان پیپلزپارٹی کو ہوتا۔
یوں متحدہ قومی موومنٹ نے حزب اختلاف میں جاکر اپنی سیاسی پوزیشن بچائی ہے تو پیپلزپارٹی نے بھی سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس ختم کرکے اپنی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں بلدیاتی اور کمشنری نظام پر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان پچھلے تین سال سے دھینگا مشتی جاری ہے۔ ایک نظام آتا ہے دوسرا جاتا ہے، دوسرا آتا ہے تو تیسرا آجاتا ہے اور پھر پرانا نظام بحال ہوجاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں 31 دسمبر 2010ء کے بعد 1979ء والا پرانا بلدیاتی نظام چوتھی دفعہ بحال ہوا ہے۔ 31 دسمبر 2010ء تک سابق صدر مشرف والے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او) کو آئینی تحفظ حاصل رہا لیکن یکم جنوری2011ء کو ایس ایل جی او از خود غیر موثر ہوگیا اور 1979ء کا پرانا بلدیاتی نظام بحال ہوگیا۔
7 اگست 2011ء کو سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت کراچی میں سابق صدر مشرف کا 2002ء والابلدیاتی نظام دوبارہ بحال کیا گیا جب کہ سندھ کے دیگر اضلاع کے لیے 1979ء کا پرانا بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا... جس کے خلاف شدید رد عمل آیا اور سندھ بھر میں احتجاجی مظاہروں کے بعد یہ آرڈیننس واپس لے لیا گیا۔ 8 اگست 2011ء کو ایک اور آرڈیننس جاری ہوا جس کی مدت 6 نومبر 2011ء کو ختم ہوگئی اور پھر تیسری مرتبہ 1979ء والا پرانا نظام بحال ہوگیا اور 10 ماہ بعد 7 ستمبر 2012ء کو گورنر سندھ نے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس جاری کیا۔ یکم اکتوبر 2012ء کو سندھ اسمبلی نے اسے منظور کرلیا جس کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھر پور احتجاجی مظاہرے اور جلسے کیے۔ اب انتخابات قریب آتے ہی پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر 21 فروری 2013ء کو سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کو منسوخ کردیا اس طرح 1979ء والا بلدیاتی نظام چوتھی دفعہ بحال ہوگیا۔
بعض حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ پیپلزپاٹی کا کوئی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ جو جماعت اپنی اتحادی پارٹی کو خوش کرنے کے لیے اپنے ووٹروںکے مفادات کا سودا کرسکتی ہے، جو جماعت الیکشن میں کامیابی کے لیے 1979ء کا پرانا بلدیاتی نظام بحال کرسکتی ہے تاکہ اپنے ووٹروں کو مطمئن کرسکے۔ وہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سابق صدر مشرف کا 2002ء والا بلدیاتی نظام بحال کردے تو پھر کوئی کیا کرلے گا۔
اس تجزیے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو عوامی مفادات سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یعنی اسے اس سے غرض نہیں کہ کون سا نظام عوام کے لیے موزوں یا زیادہ فائدہ مند ہے بلکہ اس کے لیے اہم یہ ہے کہ کس نظام کے تحت اسے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل ہونے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے مواقعے میسر آسکتے ہیں۔