آدھا کام

ملک میں اس وقت عدلیہ آزاد ہے اور اس کے تمام فیصلے قبول کرنا ہی آئین وقانون کی بالادستی ہے۔

کوئی مہینہ بھر پہلے کی بات ہے جب مولانا طاہر القادری اپنے ''چالیس لاکھ'' مریدوں، معتقدین، مصائبین اور ہمدردوں کو لے کر ''حسینی قافلے'' کی قیادت کرتے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے اور ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ صدر، وزیر اعظم اور وزراء سب سابق ہوگئے، جوش خطابت میں حضرت نے اہل اقتدار کو نجانے کیسے کیسے ''خوبصورت'' القابات سے نوازا اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے انھیں للکارتے، دھمکاتے، ڈراتے اور ڈیڈ لائن پر ڈیڈ لائن دیتے رہے، اسی دوران سپریم کورٹ سے رینٹل پاورکیس میں ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے ایک فیصلہ آیا تو گویا حضرت کی ''باچھیں'' کھل گئیںاپنی ''امیدیں'' بر آنے کے جوش میں انھوں نے پوری قوت کے ساتھ تقریباً چیختے ہوئے کنٹینر کے باہر سخت سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں سے کہا ''مبارک ہو! مبارک ہو۔۔۔۔!کہو سپریم کورٹ زندہ باد!'' پھر ارشاد فرمایا کہ ''آدھا کام'' ہوگیا باقی ''آدھا کام'' کل ہوجائے گا۔

مولانا نے مارچ کے شرکاء سے ''شکرانے'' کے نفل بھی پڑھوا دیے۔ حضرت کی دانست میں جو ''آدھا کام'' رہ گیا تھا اس کی تکمیل کے لیے وہ ایک پٹیشن لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل غیر آئینی ہے لہٰذا اسے تحلیل کردیا جائے۔ دوران سماعت عدالت عظمیٰ کے معزز ججز صاحبان نے حسب معمول ان سے متعلقہ سوالات پوچھنا شروع کیے تو دنیا کے کروڑوں لوگوں کو اپنے ''مخصوص دلائل'' سے سحرزدہ کردینے کی قدرت رکھنے والے مولانا قادری عدالت کے کسی بھی سوال کا مدلل اور شافی جواب دینے سے نہ صرف قاصر رہے بلکہ بعض مواقعوں پر وہ اپنے جذبات اور جوش خطابت کے انداز پر قابو نہ رکھ سکے اور توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کیا، عدالت نے ان کی پیشکش اسی بنیاد پر مسترد کردی کہ وہ اپنا حق دعویٰ ثابت نہ کرسکے، عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ انتخابات ہونے والے ہیں اور اس مرحلے پر درخواست دائر کرنا بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔

مولانا دہری شہریت کے باعث پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل ہی نہیں، فیصلے کے مطابق مولانا نے جو زبان استعمال کی اس پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے، لیکن فی الحال عدالت نے نرمی کا مظاہرہ کیا اور حضرت کی ''جاں بخشی کردی۔'' چونکہ عدالتی فیصلہ مولانا کی ''خواہش'' کے برخلاف تھا جسے سن کر ان کی تو ''سٹّی گم ہوگئی'' اور وہ عدالت کی گویا تضحیک پر اتر آئے۔ فیصلے پر تنقیدی لہجے میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے سیاسی اور آئین و قانون کے خلاف قرار دے دیا۔ایک ماہ قبل سپریم کورٹ کی شان میں رطب اللسان مولانا نے سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگوائے، لیکن آج ان کی ''زبان شیریں'' سے ''تلخیاں'' ٹپک رہی ہیں۔ حضرت کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ عدالت کے سامنے ان کے ''فلسفہ کمال'' کا ڈراپ سین ہوگیا۔ان کی شعلہ بیانی کے تمام ''شعلے'' بجھ گئے محض ''رسم بیاں'' رہ گئی بقول علامہ اقبال:


رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

ملک میں اس وقت عدلیہ آزاد ہے اور اس کے تمام فیصلے قبول کرنا ہی آئین وقانون کی بالادستی ہے، برسر اقتدار حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کو بہت سے عدالتی فیصلوں میں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، لیکن فیصلوں پر عملدرآمد کرنے سے گریز نہیں کیا، یہاں تک کہ توہین عدالت کیس میں ایک وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کی قربانی بھی دینا پڑی۔عدالتی حکم کے مطابق سوئس حکام کو خط بھی لکھا گیا۔ پیپلز پارٹی نے سخت عدالتی فیصلوں پر بھی سر تسلیم خم کیا،لیکن مولانا طاہر القادری کل تک فوج اور عدلیہ کو ''اسٹیک ہولڈر'' قرار دینے کے خواہاں تھے وہ نگراں سیٹ اپ میں فوج اورعدلیہ کی مشاورت کے خواہاں تھے غالباً اسی لیے انھوں نے سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگوائے جس کے باعث ملک بھرکے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں حیرت و تعجب کا اظہار کیا گیا کہ شاید مولانا قادری کو پس پردہ بااثر قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔

اس تاثر کے پھیلنے سے فوج و عدلیہ کے وقاروکردار کو بھی ٹھیس پہنچی، تاہم اول مرحلے پر آرمی چیف جنرل کیانی نے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سے ملاقات میں واضح کردیا کہ آپ طاہر القادری کی فکر چھوڑیں، مقررہ وقت پر الیکشن کی تیاری کریں دوم عدالت عظمیٰ مولانا کی پٹیشن کو مسترد کرکے مذکورہ تاثر کو کلی طور پر زائل کردیا، لیکن لگتا ہے کہ مولانا کی ''پیاس'' ابھی بجھی نہیں، اب وہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں جلسے کرکے دل کی ''بھڑاس'' نکال رہے ہیں مولانا فرماتے ہیں کہ انتخابات اگر ان کے انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بنے تو ان کا صفایا کردیں گے، موصوف نے 70 فیصد اراکین پارلیمنٹ کو ٹیکس چور قرار دیا۔

عدالت عظمیٰ جانے سے قبل مولانا نے کیسے کیسے حسین خواب دیکھے ہیں ہوں گے اور اپنی پٹیشن پر آئینی و قانونی دلائل سے معزز ججز کو قائل کردینے کے لیے ''زبان و بیان'' کے دریا بہانے کے کیا کیا ارادے نہ باندھے ہوں گے، لیکن افسوس کہ حضرت کی ''فسوں کاری'' خود ان کے کام نہ آسکی مولاناکے تمام دلائل ''نقش برآب'' ثابت ہوئے اور عدالت سے انھیں'' خالی ہاتھ'' لوٹنا پڑا، مولانا صاحب کی تو جیسے ''دنیا ہی لٹ گئی'' حضرت کی دہری شہریت نے ان سے ''آبروئے وطن'' بھی چھین لی اور وہ بھی ان کے ''اپنے وطن'' میں جہاں انھیں ہر طرح کی آسودگی و آرام حاصل تھا، جہاں وہ آزادانہ طور پر سیاست میں حصہ لیتے رہے پارلیمنٹ کے رکن بھی بنے، جہاں ان کی جان و مال اور عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ تھا کہ بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی، تاہم انھوں نے کینیڈا کی شہریت محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے حاصل کی، پھر دنیا بھر میں منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے دین کی تبلیغ واشاعت کا کام شروع کیا، عزت، مقام و مرتبہ اور عالمگیر شہرت حاصل کی کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا طاہر القادری شب و روز کی محنت شاقہ سے حاصل ہونے والی عزت و شہرت کا بھرم رکھنے کے لیے زندگی وقف کردیتے، نجانے عمر عزیز کے آخری حصے میں ان کے سر میں کیا سودا سمایا کہ سیاست نہیں ریاست بچانے کی آرزوئے ناتمام لیے کینیڈا سے اچانک پاکستان آپہنچے،پھر اپنی ''سیاست'' کے جوہر دکھانا شروع کردیے، اپنے ''چالیس لاکھ'' مریدوں و مقلدوں کو ہر روز ایک نئے امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ عدالتی فیصلے سے ریاست تو کڑے امتحان سے بچ نکلی، لیکن مولانا کی سیاست داؤ پر لگ گئی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے ان کے پاس عملی سیاست کا اخلاقی جواز نہیں رہا کیونکہ وہ عدالت میں ''ناک آؤٹ'' ہوچکے ہیں۔ بقول شاعر ''جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھاگئے'' مولانا قادری الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، لیکن اسی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے پرکمربستہ ہیں۔
Load Next Story