بلدیاتی افسران کی نا اہلی حیدرآباد کچرے کا ڈھیر بن گیا

کرپشن اورسیاسی بھرتیوں کے باعث بلدیہ اعلیٰ شدید مالی بحران سے دوچار، ملازمین کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم


Numainda Express August 05, 2012
کرپشن اورسیاسی بھرتیوں کے باعث بلدیہ اعلیٰ شدید مالی بحران سے دوچار، ملازمین کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم. فائل فوٹو

طویل عرصے سے متعین بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے نااہل افسران کی کرپشن اور سیاسی بھرتیوں نے شہر کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا، سڑکیں اور بازار گندے پانی میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں تو سیوریج کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے ، تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صفائی کے عملہ کام نہیں کر رہا۔ افسران کی لاپروائی اور مبینہ بدعنوانیوں کے باعث دو سال سے شدید ترین مالی بحران کا شکار بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے ملازمین ایک بار پھر مشکلات سے دوچار ر ہو گئے ہیں

کیونکہ تنخواہوں کیلیے ایک بار پھر ایک کروڑ5 لاکھ روپے کٹوتی کر کے2 کروڑ45 لاکھ روپے کا او زی ٹی شیئر بھیجا گیا ہے جس کے بعد بلدیہ کے شعبہ فنانس نے مخصوص ملازمین کو چیک دینے کی کارروائی شروع کر دی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت پرانے ملازمین کی2، افسران کی 3 اور نئے ملازمین کی 11 ماہ کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں جبکہ بلدیہ کے روز کے امور چلانے والے ٹھیکیداروں کی پے منٹ بھی2 کروڑ کے قریب ہے،

ڈیڑھ کروڑ روپے تک کے بقایاجات ہونے پر ایک بار پھر ٹھیکیدار نے ڈیزل کی فراہمی بند کر دی ہے۔ واضح رہے کہ رواں ماہ دو بار پہلے بھی ڈیزل کی فراہمی روکی جا چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 6 ماہ سے ڈیزل کے جعلی بل جمع کرا کرا کر واجبات ڈیڑھ کروڑ تک پہنچا دیے گئے ہیں جبکہ کچرا گاڑیوں کو مسلسل ڈپو پر خراب کھڑا رکھا گیا جنہیں درست کرانے کے کوٹیشنز بنا کر وہاں سے بھی فی گاڑی اتنے پیسے نکالے گئے جتنے میں نئی گاڑیاں آ جاتیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جتنا عرصہ کچرا گاڑیاں ڈپو میں کھڑی کاغذات پر مرمت کے مراحل سے گزر رہی تھیں اتنے عرصے ان کے ڈیزل کے بل بھی بنائے جاتے رہے جبکہ 6 ماہ سے گاڑیوں کے سڑکوں پر نہ نکلنے کے باعث پورا شہر کچرا ڈپو بن چکا ہے،

کچرا نہ اٹھانے کا دوسرا بڑا سبب دو سال قبل بھرتی کیے گئے سینٹی ٹیشن اسٹاف کا کام نہ کرنا ہے کیوں کہ وہ سیاسی کارکن ہیں اس لیے ڈیوٹی پرنہیں آتے لیکن تنخواہیں وقت پر مل رہی ہیں۔ پرانے ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر خاکروب کی اسامیوں پر خاکروب رکھے جاتے تو آج ڈیزل اور مالی بحران کے باوجودشہر میں صفائی کا کام ہو رہا ہوتا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد کی بھرتی کے وقت بلدیہ اعلی کے بعض افسران نے مجاز اتھارٹی کے دستخط اسکن کر کے پچاس پچاس ہزار روپے میں خاکروبوں کی نوکریاں فروخت کریں۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ بلدیہ اعلی حیدرآباد کے نااہل افسران کے خلاف کارروائی کے بجائے انہیں مزید ترقیاں دی گئی ہیں،

بعض افسران کو ایک ساتھ چار چار عہدے دے دیے گئے ، اب تنخواہوں سے محروم اصل سینٹی ٹیشن اسٹاف سے رابطہ کیا جا رہا ہے کہ وہ روزانہ پانچ سو روپے لے لیں لیکن شہر میں صفائی کے لیے ڈیوٹی کریں تاہم ایسے سینٹی ٹیشن اسٹاف نے سی بی اے یونین کو بلدیہ کے معاملے پر اعتماد میں نہ لینے پر تنخواہوں کی مکمل ادائیگی تک کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بلدیہ کے ان چھ سات افسران کے خلاف کوئی کارروائی زیر غور نہیں۔

جنہوں نے ضلعی نظامت کی بلدیاتی حکومتوں کے نظام کے خاتمے کے بعد محض دو سال کے عرصے میں بلدیہ اعلی کو مالی طور پر تباہ و برباد کر کے ادارے میں سات سو سے زائد اضافی بھرتیاں کرائیں اور دیگر بلدیاتی املاک کو اونے پونے طویل عرصے کے لیے کرائے پر دے دیا جس کی وجہ سے آج بلدیہ اعلی حیدرآباد مالی بحران سے دوچار اور شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ حیدرآباد کے شہریوں کو یقین تھا کہ پورے تعلقہ حیدرآباد سٹی کو کچرا گھر میں تبدیل کرنے کا کوئی اور نوٹس لے نہ لے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی ضرور اس بات کا نوٹس لیے گی

کیونکہ حیدرآباد شہر کی ایم این اے کی3 میں سے 2 اور ایم پی ایز کی6 ماہ سے 4 نشستیں متحدہ قومی موومنٹ کے پاس ہیں تاہم ماہ رمضان میں بھی شہریوں کو کچرے اور گندے پانی کے باعث بدترین صورتحال کا سامنا ہے لیکن ہر طرف خاموشی ہے اور صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ابھی تک کسی بھی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے جبکہ شہر کو تباہ کرنے والے افسران بھی اپنی سیٹوں پر موجود ہیں جنہیں سیاسی رہنمائوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

انہی افسران نے لیاقت کالونی اور جی وارڈ کے دیگر مقامات سے گزرنے والے نالے کی صفائی پر بھی اب تک لاکھوں روپے کے کوٹیشنز بل بنا کر سرکاری خزانے سے رقم ہڑپ کی جبکہ صفائی نہ ہونے کے باعث نالا کچرے سے بھرا پڑا ہے اور پانی15 دنوں سے لیاقت کالونی کے گھروں اور سڑکوں میں موجود ہے۔ لیکن بلدیہ کے نااہلی افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیںکی جا رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں