جب حمیرا چنا نے سب کو رلا دیا

اس گیت میں وحید مراد اور زیبا اپنے فن کی بلندیوں پر نظر آتے تھے اور اکیلے نہ جانا ایک لازوال گیت ثابت ہوا تھا

hamdam.younus@gmail.com

سازندوں کے ایک گروپ کے ساتھ لیجنڈ موسیقار سہیل رعنا اپنے مخصوص انداز میں سروں کے اتار چڑھاؤ میں گم تھے یہ موسیقی کا ایک پروگرام تھا جو اپنے وقت کے نامور ہیرو وحید مراد کی برسی سے متعلق تھا اور گلوکارہ حمیرا چنا اپنے دور کی مشہور اور سپرہٹ فلم ''ارمان'' کا وہ شہرہ آفاق گیت گا رہی تھی جو فلم ''ارمان'' میں وحید مراد اور زیبا پر الگ الگ فلمایا گیا تھا۔

اس پروگرام میں اداکارہ زیبا کے ساتھ وحید مراد مرحوم کی اہلیہ سلمیٰ مراد بھی موجود تھیں اور فلمی دنیا کی دیگر چیدہ چیدہ شخصیات بھی موجود تھیں ابھی حمیرا چنا نے گیت کا مکھڑا چھیڑا تھا کہ مجھے اسٹیرن فلم اسٹوڈیو کے وہ سنہرے دن یاد آگئے جب وحید مراد نے اپنے فلمساز ادارے فلم آرٹس کی بنیاد ڈالی تھی۔

اور اپنی پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کا آغاز کیا تھا جس میں اداکارہ زیبا کو ہیروئن کاسٹ کیا تھا ''ہیرا اور پتھر'' ہٹ ہوگئی تو وحید مراد نے اپنی دوسری فلم ''ارمان'' شروع کی اور اس فلم میں بھی وحید مراد اور زیبا کی جوڑی ہی فلم کی زینت بنی تھی اور موسیقار سہیل رعنا اس فلم کے بھی موسیقار تھے۔ اور ''ارمان'' کے لیے شاعر مسرور انور کا لکھا ہوا ایک سحر انگیز گیت اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، یکے بعد دیگرے گلوکارہ مالا اور احمد رشدی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ گیت فلم ''ارمان'' کی ہائی لائٹ بنا تھا۔

اس گیت میں وحید مراد اور زیبا اپنے فن کی بلندیوں پر نظر آتے تھے اور اکیلے نہ جانا ایک لازوال گیت ثابت ہوا تھا اب میں پھر گلوکارہ حمیرا چنا کی طرف آتا ہوں حمیرا چنا اپنی آنکھیں بند کیے سروں کے سمندر میں ڈوب کر درد کی لہروں کے ساتھ فلم ''ارمان'' کا گیت گا رہی تھی وہ جب گیت کے اس حصے پر آئی جو رنج و غم سے بھرا دلوں پر دستک دے رہا تھا :

بہت دکھ دیے ہیں ہمیں زندگی نے
ہمیں اور غم اب نہ تم دے کے جاؤ

نگاہوں کی سہمی ہوئی التجائیں
صدا دے رہی ہیں کہ اب لوٹ آؤ

کرو یاد تم نے جو وعدہ کیا تھا
ہم اک دوسرے کا سہارا بنیں گے

اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، اکیلے نہ جانا

اور اس گیت کے دوران میں دیکھ رہا تھا کہ سلمیٰ مراد کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور اداکارہ زیبا دکھ کے ساگر میں ڈوبی ہوئی تھی اور وہ اپنی انگلیوں سے اپنے رخساروں پر پلکوں سے گرتے ہوئے اشکوں کے موتیوں کو سمیٹے جا رہی تھی اور اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ وہ اس وقت ماضی کی یادوں میں کھو گئی تھی، ایک طرف وحید مراد کے بے وقت مرنے کا غم اور دوسری طرف اپنے شریک زندگی اور عظیم اداکار محمد علی کی جدائی کا دکھ بھرا احساس اسے بے چین کیے ہوئے تھا، اسے اپنا اداکار شوہر محمد علی اس وقت شدت سے یاد آرہا تھا جو اس کی زندگی کا نکھار تھا جو اس کی شخصیت کا وقار تھا۔ محمد علی نے زیبا کو اپنے محل نما گھر میں ایک ملکہ کی طرح رکھا تھا اس کے بڑے ناز اٹھائے تھے اور آج وہ ناز اٹھانے والا شوہر اس دنیا میں اسے اکیلا چھوڑ گیا تھا۔


محمد علی ایک نامور ہیرو ہی نہیں تھا وہ ایک بہت اچھا انسان بھی تھا ایک محبت نچھاور کرنیوالا شوہر بھی تھا، ایک ایسا شوہر جسکی نہ صرف عزت شہرت بلکہ اس کی عظمت کے بھی فلم انڈسٹری میں چرچے تھے جتنا پیار اور احترام محمد علی کو حاصل ہوا تھا اتنا احترام پاکستان فلم انڈسٹری میں کسی فنکار یا ہیرو کے نصیب میں نہیں آیا تھا۔

یہ جب شوٹنگ کی غرض سے کسی بھی فلم اسٹوڈیو میں داخل ہوتا تھا تو اسٹوڈیو کے مالکان دروازے پر آکر محمد علی کی گاڑی کا دروازہ کھولتے تھے اور میری آنکھوں نے بارہا یہ منظر دیکھا تھا کہ ایورنیو اسٹوڈیو میں محمد علی کی جیسے ہی آمد ہوتی تھی اسٹوڈیو کے مالک اور مشہور پروڈیوسر آغا جی۔ اے گل آگے بڑھ کر علی بھائی کہتے ہوئے محمد علی کی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے خوش آمدید کہتے تھے۔ یہ اعزاز اس دور میں صرف محمد علی ہی کو حاصل تھا اور علی زیب کی جوڑی اپنے وقت کی سب سے زیادہ خوبصورت اور باوقار جوڑی تھی۔

مجھے بھی یہ فخر حاصل ہے کہ کئی فلمیں جن میں میرے گیت لکھے ہوئے تھے اداکار محمد علی نے اپنے فن کے جلوے دکھائے تھے جب میں اس عظیم اداکار کو نہیں بھول سکا تو پھر بھلا محمد علی کی شریک زندگی اس کی ہم سفر اس کی ہم قدم اس کی ہم نشیں اداکارہ زیبا اسے اپنی یادوں کے دریچوں سے کیسے دور کرسکتی ہے۔ میں ماضی کی کھڑکیوں سے علی زیب کی بے مثال جوڑی کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میوزک کی آواز بند ہوگئی اور صرف اکیلے نہ جانا کے الفاظ دھیمے دھیمے سروں میں خیالوں سے ٹکرائے تو پھر ماضی کی کھڑکیاں بھی بند ہوتی چلی گئیں اور اسٹیج سے حمیرا چنا بھی اپنی شبنمی آنکھوں کے ساتھ ان گنت آنکھوں کو آنسوؤں کی سوغات دے کر جا رہی تھی۔

مجھے پھر وہ حمیرا چنا بھی یاد آگئی جب وہ صرف بارہ تیرہ برس کی تھی اور میں نے اس کو اس کے گھر میں پہلی بار سنا تھا کراچی میں گارڈن کے علاقے میں یہ اپنے والدین کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ یہ بڑی کمسنی ہی میں موسیقی کے سروں سے کھیل رہی تھی۔ موسیقی کا یہ شوق اس کو اپنی والدہ کی طرف سے ملا تھا جو پنجاب سے تعلق رکھتی تھیں اور حمیرا چنا کے والد کا تعلق سندھ سے تھا اور حمیرا چنا دریائے چناب اور دریائے سندھ کی مشترکہ تہذیب کی آغوش میں پلی تھی۔

حمیرا چنا کے والد غلام محمد چنا سے کراچی میں میری ملاقاتیں فلمی تقریبات اور موسیقی کی محفلوں میں اکثر ہوا کرتی تھیں اور غلام محمد چنا ہی نے ایک دن مجھے اپنے گھر بلایا تھا اور چائے کی دعوت کے دوران میں نے پہلی بار حمیرا چنا کو سنا تھا۔ اس نے کئی فلمی گیت بڑے خوبصورت انداز میں سنائے تھے اور پھر جب نیم کلاسیکل انداز میں دو تین غزلیں سنائیں تو مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی کہ ایک کمسن لڑکی اس طرح سروں سے کھیل رہی تھی کہ بڑی بڑی گلوکاراؤں کو اس انداز سے گانے کے لیے ایک بڑی عمر اور بڑا ریاض درکار ہوتا ہے۔

میں نے پوچھا کہ اس کی آواز تو بڑی ریاض والی لگتی ہے کیا کسی سے موسیقی کا فن سیکھ رہی ہے تو اس کے والد غلام محمد چنا نے بتایا۔ ہاں جی استاد بیبے خاں اسے موسیقی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ یہ تھی کم سن گلوکارہ حمیرا چنا سے میری پہلی ملاقات، پھر میں کراچی سے لاہور چلا گیا اور وہاں فلمی دنیا سے منسلک ہوگیا تھا۔ چند سال کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پر حمیرا چنا کو کئی موسیقی کے ہٹ پروگراموں میں دیکھا پھر اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ حمیرا چنا اب کراچی کی سندھی اور اردو زبان کی فلموں میں گانے بھی گا رہی تھی پھر کچھ عرصے بعد وہ لاہور بھی آئی تھی اور کئی اردو، پنجابی فلموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔

مگر لاہور میں میری حمیرا چنا سے مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی تھی ۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کراچی میں حمیرا چنا اور اس کے والدین سے میری بڑی خوشگوار ملاقاتیں رہی تھیں جب فلم ''خوش نصیب'' کے لیے حمیرا چنا میرے لکھے ہوئے گیت ریکارڈ کرا رہی تھی، فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے اور فلم کے مرکزی کرداروں میں ندیم، کویتا کے ساتھ بہروز سبزواری بھی تھے ۔ حمیرا چنا نے مذکورہ فلم کے لیے جو پہلا سولو گیت گایا اس کے بول تھے:

آج خوشی کی محفل ہے دل جھوم کے گائے
نیا سال جو آئے وہ خوش نصیب آئے

پھر دوسرے دن ایک ڈوئیٹ ریکارڈ کیا گیا جسے حمیرا چنا کے ساتھ عالمگیر نے گایا تھا اور جس کے بول تھے:

جیون ہے اپنا ہنسنا گانا
خوشیوں کا ہے دل دیوانہ

ایک ہفتے کے دوران فلم کے سارے گیت ریکارڈ کرلیے گئے جو حمیرا چنا، عالمگیر، سلیم شہزاد اور کورس کی لڑکیوں کے ساتھ تھے۔ میں نے آخری گانے کی ریکارڈنگ کے بعد غلام محمد چنا سے کہا تھا۔ چنا صاحب! آپ کی کل کی ایک کرن بسی بیٹی آج موسیقی کی دنیا میں ایک سورج کی طرح چمک رہی ہے تو غلام محمد چنا نے شکرانے کے انداز میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا یہ سب اوپر والے کی دین ہے وہ جب کسی کو دینے پر آتا ہے تو ہر مشکل دروازہ اپنے آپ کھلتا چلا جاتا ہے۔
Load Next Story