آخر میں نے کیا کیا ہے

آج ہمارے بادشاہ جب چلا چلا کر یہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘ تو ہمیں شاہ ایران یاد آجاتا ہے

ریشا رد کا پوشنسکی پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی تھے وہ 1932 میں مشرقی پولینڈ کے شہر پنسک میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے ان کی صحافی زندگی کا باقاعدہ آغاز پولش کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار Politykaکے ملکی نامہ نگار کے طور پر 1958 میں ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک کے دورافتادہ علاقوں میں معاشرے کے حاشیوں پر بسنے والے انسانی گروہوں کے حالات لکھے اور اس زندہ تاریخ کو ریکارڈ کیا جسے سرکاری تاریخ میں کبھی جگہ نہیں دی جاتی ۔ ان تحریروں کا مجموعہ کا پوشنسکی کی پہلی کتاب تھی۔

ایران میں 1979 میں برپا ہونے والا انقلاب نہایت اہم اور پر معنی واقعہ تھا اس واقعہ پرکا پوشنسکی نے کتاب ''Shah of shahs '' لکھی ۔ وہ اس کتاب میں لکھتا ہے '' ہر انقلاب سے پہلے شدید تھکن اور بے بسی کا دور آتا ہے اور ہر انقلاب بے لگام جارحیت کے پس منظر میں رونما ہوتا ہے۔ حاکمیت ایسی قوم کو برداشت نہیں کرپاتی جو اس کے اعصاب پر سوارہوگئی ہو قوم ایسی حاکمیت کو برداشت نہیں کر پاتی جس سے اسے نفرت ہوگئی ہو حاکمیت اپنا تمام اختیار کھوکر خالی ہاتھ ہوچکی ہوتی ہے قوم اپنے صبر سے محروم ہوکر بند مٹھی کی شکل اختیارکر لیتی ہے شدید تناؤ اور بڑھتے ہوئے حبس کا ماحول طاری ہوجاتا ہے ہم دہشت کے پاگل پن میں اترنے لگتے ہیں۔ لاوا پھٹ بہنے کو ہے ہم اسے محسوس کرسکتے ہیں '' وہ دوسری جگہ لکھتا ہے ''انقلاب کو حر کت میں لانے کی ذمے دار حاکمیت ہوتی ہے۔

ظاہر ہے وہ یہ عمل شعوری طور پر نہیں کرتی مگر اس کا طرز زندگی اور طرز حکومت خود اشتعال کا سبب بن جاتے ہیں یہ اس وقت ہوتا ہے جب انجام سے بے پروائی حاکم طبقوں میں جڑ پکڑ لیتی ہے کہ '' ہمیں سب کچھ کرنے کا اختیار ہے ، ہم سب کچھ کرسکتے ہیں ''یہ خود فریبی ہے مگر عقلی مفروضوں پر بنیاد رکھتی ہے۔

کچھ عرصہ تک یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ جو بھی چاہیں کرسکتے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک اسکینڈل اور ایک کے بعد ایک لاقانونیت سزا پائے بغیر سامنے آتی رہتی ہے لوگ خا موش رہتے ہیں صبر کرتے رہتے ہیں ،احتیاط برتتے رہتے ہیں وہ خو فزدہ ہیں اور ابھی اپنی طاقت کا احساس نہیں رکھتے ، لیکن وہ ناانصافیوں کو فہرست میں درج کرتے جاتے ہیں اور ایک نہ ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب ان سب ناانصافیوں کا حاصل جمع نکالا جانا ناگزیر ہوجاتا ہے اس لمحے کا انتخاب تاریخ کے سامنے آنے والا سب سے بڑا معمہ ہے یہ واقعہ اس خا ص دن کیوں پیش آیا؟ آخر یہ ہی حکومت کل تک اس سے کہیں زیادہ بڑی زیادتیاں کرتی آرہی تھی اور ان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تھا۔ ''میں نے آخر کیا کیا ہے ؟'' آمر بے بس اور حیران ہوکر پوچھتا ہے۔


'' ان سب لوگوں پر کیا جنون سوار ہوگیا ہے؟'' دراصل اس نے یہ کیا ہے کہ لوگوں کے صبرکی حد کو پامال کردیا ہے ، لیکن صبر کی حد کہاں ہوتی ہے ؟ اس کی تعریف کیا ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب معلوم کیا بھی جاسکے تو یہ جواب ہر انقلاب کے سلسلے میں مختلف ہوگا '' ہمارے موجودہ حالات اور شاہ ایران کے آخر کے وقت کے حالات میں ناقابل یقین حد تک مماثلت ہے۔ بس فرق اتنا سا ہے کہ ایران کا سابق حکمران اپنے آپ کو شہنشاہ کہلواتا تھا اور ہمارے حکمران جو اپنے آپ کو اصل میں بادشاہ ہی سمجھتے ہیں لیکن کہلواتے اپنے آپ کو عوامی اور جمہوری ہیں لیکن دونوں کی سو چوں ، رویے ، طرز حکومت اور اعمال ایک ہی جیسے ہیں شاہ ایران نے ملک کا سارا خزانہ لوٹ لوٹ کر خالی کرکے اپنا ذاتی خزانہ اس سے بھر لیا تھا ۔

اس کے سارے اثاثے اور دولت غیر ملکوں میں تھی اس کو اپنی طاقت ، اختیار کا اس قدر غرور اورگھمنڈ تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو کسی خاطر میں نہ لاتا تھا، تکبر کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھا تھا۔ شان و شوکت اور عیش و عشرت میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا اور عوام ایک ایک روٹی کو ترستے پھرتے تھے۔

کونسا ایسا ظلم تھا جو اس نے اپنے عوام پر روا نہ رکھا ہوا تھا اور آخر وہ دن آہی گیا جس کے آنے کی شاہ ایران کو کبھی بھی توقع نہ تھی اور پھر اس کا رد عمل وہ ہی ہوا جو ایسے موقع پر ہر ظالم ، لٹیرے ، قاتل، غاصب حکمرانوں کا ہوتا ہے کہ '' میں نے آخرکیاکیا ہے ؟ ان سب لوگوں پرکیا جنون سوار ہوگیا ہے ؟ اور آخر میں اس کے ہاتھ کچھ نہ رہا نہ ہی دولت نہ ہی محلات اور نہ ہی اسے دفن ہونے کے لیے اپنے ملک کی زمین مل سکی اور اس کی اولادوں کی کیا انجام ہوا تاریخ میں محفوظ ہے۔

اب ہم آتے ہیں اپنے ملک کے بادشاہوں کی جانب ، آپ کو ہمارے بادشاہوں کے اعمال بتانے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ سب سے زیادہ باخبر اور سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ آج ہمارے بادشاہ جب چلا چلا کر یہ کہتے ہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا '' تو ہمیں شاہ ایران یاد آجاتا ہے اور انسانی تاریخ زور زور سے قہقہے لگا نا شروع کردیتی ہے ۔ انسانی تاریخ میں لکھے محفوظ لفظ دوبارہ جی اٹھتے ہیں اور خوشی کے مارے ناچنا شروع کردیتے ہیں۔ شاہ ایران سے لے کر سارے گذرے بادشاہ اپنی اپنی قبروں میں ہنسنا شروع کر دیتے ہیں بادشاہوں اور آمروں کے گذرے واقعات گلے ملکر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا شروع کردیتے ہیں۔

پرانے قصے اور کہانیاں مچلنا شروع کردیتی ہیں آہ ! انسان واقعی خسارے میں ہے اور واقعی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہی ہے کہ اس سے کبھی کسی نے سبق نہیں لیا۔ آج پاکستان انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے ایسے انقلاب کے لیے جو سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دے گا۔ سب کی جگہیں بدلنے والی ہیں جو آج سب سے نچلی جگہوں میں ہیں وہ سب سے بلند جگہوں پر آنے والے ہیں اور جو سب سے بلند جگہوں پر بیٹھے ہیں وہ سب سے نچلی جگہوں پر جانے والے ہیں یہ ہی ہوتا آرہا ہے کیونکہ یہ قدرت کا قانون ہے جسے آج تک نہ تو کوئی بدل سکا ہے اور نہ ہی کبھی بدل سکے گا جس طرح سبیل بی ڈی مائیل نے اپنی شہرہ آفاق فلم Ten Commandments میں اسی کے بارے میں کہا تھا '' ہمارے لیے نا ممکن ہے کہ ہم قانون کو توڑ سکیں ۔ ہم قانون کے مقابل صرف اپنے آپ کو توڑ سکتے ہیں '' اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری ملاقات اپنے ٹوٹ پھوٹے لوگوں سے کب تک ہوتی ہے ۔
Load Next Story